خالقِ کائنات اپنے سب سے مقدس ومحترم آسمانی صحیفے میںابن آدم سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے کہ ـ”اور میری رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور فرقوں میں مت بٹو” لیکن مجال ہے کہ موجودہ اُمت اِس پر عمل پیرا ہوتی نظر آ جائے مسلکی پرستش کرنے والوں کی اِس بھیڑ میں شاذ و ناظر ہی کوئی ایک آد ھا فردایسا ہوجو احکامِ الہیہ پر عمل کرتا دکھائی دیتا ہومولانا الیاس کاندھلوی نوراللہ مرقدہ کے طریق پر 1926 سے عمل پیرابرصغیر کے مسلمان تا حال یہی مشقت اُٹھارہے ہیں کہ کسی طرح ہم میں ایمان ویقین کی جو تھوڑی بہت رمق باقی ہے اُس پر محنت کر کے اُمت میں جوڑ کی کوشش کی جا ئے تاکہ مسلک کی بندشوں میں گھرے مسلمان ایک بار پھر اپنے حقیقی مذہب یعنی اسلام کی جانب راغب ہو سکیں
لیکن حضورکفِ افسوس ملئے اور ملتے رہئے کیوں کہ آزادیٔ اظہار کے علمبردارآزادخیال دانشور اور ڈیڑھ اینٹ کی اپنی علیحدہ مسجدیں بنانے والے اپنے نام نہاد مذہبی رہنمائوں کو اللہ اور اُس کے محبوبؐ پر ترجیح جو دے رہے ہیں (معاذ اللہ)
حال ہی میں پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں پنجاب تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ2020 منظور کیا گیا جس کے تحت ہر قسم کی ایسی کتابوں یا دیگر کی اشاعت پر پابندی ہوگی جن میں اللہ تبارک وتعالیٰ ، انبیا ء و رُسل، آسمانی کتب،، فرشتوں، خلفائے راشدینؓ،تمام صحابہ کرامؓ، اہلِ بیت اطہارؓ کے حوالے سے کوئی گستاخانہ تنقید یا ان کی عزت کم کرنے کا مواد شامل ہوگا۔ اِس قانون کے مطابق تمام تر کتابوں میں جہاں حضور نبی کریم ﷺ کا نامِ مبارک لکھا جائے گا وہاں آپ ﷺ کے نام سے پہلے خاتم النبین اور آخر میںعربی رسم الخط میں صلی اللہ علیہ وسلم کا مکمل لکھنا لازم ہوگادیگر انبیا ء اور رسولوں کے اسمائے مبارک کے آخر میں علیہ السلام لکھا جائے گااِسی طرح دیگر مقدس ہستیاں جیسے اصحابِ کرام ؓ اُمہات المومنینؓ اور اہل بیت اطہارؓکے ناموںکے آخر میں رضی اللہ عنہ لکھنا لازم ہوگا۔
یہ یقینا ایک انتہائی احسن اور قابل تقلید عمل ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے کیونکہ اس قانون کے اطلاق سے مسلمانانِ پاکستان کے مختلف مکاتبِ فکر کے مابین غلط فہمیوں کا بڑی حد تک ازالہ ہو جائے گا اور یہ مسلکی ہم آہنگی کے ساتھ آپسی جوڑ کے لئے اکسیر ثابت ہوگااور اگر کسی مکتب کو اپنے فریق مخالف سے کسی قسم کا ــ”خطرہ” محسوس ہو تو وہ اِس قانون کا سہارا لے کر اُسکی شرانگیزی کا آئینی طریقے سے قلع قمع کر سکتا ہے کیوں کہ اِس قانون کے مطابق ایسے تمام تر کتب و رسائل پر مبنی مواد پر مکمل پابندی عائد کی گئی ہے جس میں فرقہ واریت کو ہوا دینے،تشدد اور نفرد انگیزی کی تشہیر کی گئی ہواِس کی خلاف وزری کرنے والے شخص، فرد یا مکتب کو ضابطہ ٔ فوجداری کے تحت سخت سزائوںکا سامناکرنا پڑے گااِس قانون پر عملدرآمد کروانے کے لئے حکومتِ پنجاب نے شعبۂ اطلاعات و نشریات ڈی جی پی آر کو مرکزی حیثیت دے کر باضابطہ طور پر بااختیار بنایا گیا ہے تاکہ اِس قانون پر عمل درآمد کرایا جا سکے ۔پنجاب کے وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار نے اِس قانون کے حوالے سے جاری کردہ ااپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ “اِس قانون کے نفاذ سے مختلف کتب میں مذاہب با لخصوص اسلام کے بارے میں نفرت انگیز مواد کی اشاعت کی روک تھام ہوگی۔”
اگر مسلکی عینک اُتار کروسعتِ قلبی کے ساتھ اِس قانون کا مطالعہ کیا جائے تو شاید ہی کوئی ایسا ہو جو اِس میں نقص نکالے یااِسے اپنے لئے خطرہ گردانے ماسوائے اُس کے کہ جس کے سر پرآزاد خیالی اور آزادی اظہار کا بھوت سوار ہو یا اُس کے کہ جسے شعلہ بیانی کے سبب اپنی “دکانداری” کے ختم ہونے کا خطرہ محسوس ہورہا ہو۔لیکن کیا کہئے اُس زہر آلود سوچ کے حامل طبقے کے کہ وہ اِس پر بھی معترض و نالاں دکھائی دے رہے ہیں شاید اُنہیں اِس بات کا احساس ہو گیا کہ اگر یہ قانون آئین کا حصہ بن گیا تو وہ “تیرا کیا ہوگا کالیہ”کے مصداق کی شکل میں ایک مذاق بن کر رہ جائیں گے۔
قارئین کے لئے وضاحت کرتا چلوں کہ میرا اشارہ اُس موم بتی مافیا اورپڑوسی ملک کے ٹکڑوں پر پلنے والے اُس طبقے کی جانب ہے جو کبھی پاکستان اور اسلام کے خیر خواہ تھے اور نہ کبھی ہونگے۔ہیومن رائٹس نامی سُپر مارٹ چلانے والوں نے پنجاب اسمبلی کو “خبردار” کیا ہے کہ وہ اِس قانون سے تعصب کو ہوا دے رہی ہے بائیں بازو کے مقلد ایک معروف دانشور کے مطابق یہ قانون کتابیں جلانے کی دقیانوسی رسم کی طرح ہے۔ایک اورنقاد جو دانشور ہونے کے ساتھ شاعر بھی ہیں فرماتے ہیں کہ طاقت ور کو ہمیشہ کتاب، موسیقی اور ادب کے انقلاب سے خطرہ رہتا ہے اِس قسم کے قوانین معاشرے میں مسائل پیدا کرنے کے کام آتے ہیں۔
اِس لبرل فاشسٹ طبقے کی بے لگام سوچ کے ہاتھ مضبو ط کرنے کے لئے چند نام نہاد ضمیر فروش “مذہبی ” رہنما بھی میدان میں آگئے جن میں سے ایک کے مطابق یہ قانون پنجاب حکومت کا ایک انتہائی غلط اقدام ہے اِس سے ملک میں فرقہ واریت کی ایک نئی بحث کا آغاز ہوگا حالانکہ اِس قانون کا کوئی ایک جملہ بھی ایسا نہیں کہ جس سے فرقہ واریت کو فروغ ملے بلکہ یہ اُلٹا اُس کے خاتمے کا سبب بنے گا مگر کیا کہئے کہ آنجناب نے اِس قانون کے نام یعنی” تحفظِ بنیادِ اسلام “تک پر نقطۂ اعتراض اٹھا کرایک نئی بحث کا آغاز کر دیا۔
میں یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑتا ہوںکہ یہ قانون ملک میں فرقہ واریت کے خاتمے،مسلکی ہم آہنگی کی فضا کو برقرار رکھنے اورآئین و قانون کی عملداری اور اُس کی بالادستی قائم کرنے میں ایک انتہائی اہم اور احسن اقدام ہے یا پھر یہ قانون ملک میں فرقہ واریت کو فروغ دینے اور آزادیٔ اظہار کے راستے میں رکاوٹ ہے میری اپنی ذاتی رائے کے مطابق اِس قانون کے نفاذ کے بعد ملک میں مسلکی بنیادوں پرایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگانے ،مذہبی اسلاف و اکابرین کی توہین جیسے گستاخانہ اور کفریہ اعمال کی روک تھام اورمذہبی منافرت کے خاتمے میں نہ صرف خاطر خواہ کمی واقع ہو گی بلکہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے اور مسلح جدوجہد کی دم توڑتی روایت کا بھی خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔
یاد رکھئے کہ کسی بھی شخص کے مسلمان ہونے کے لئے صرف اتنا لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت و ربانیت پر یقین رکھے، جنابِ محمد رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبین خاتم المرسلین اور خاتم المعصومین مانے، قرآن مجید کو غیر تحریف شدہ آخری آسمانی الہامی کتاب ہونے کا یقین رکھے ، جناب محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد خلفائے راشدینؓ یعنی خلیفہ بلا فصل سیدنا ابو بکر صدیق ؓسے لے کر خلیفہ چہارم سیدنا علی المرتضیٰ ؓ سمیت تمام صحابہ کرامؓ ، اہلِ بیت اطہارؓ ، اُمہات المومنین ؓ اور اُن کی اتباع کرنے والوں کی تعظیم ،تکریم اور تقلید کرے ۔روزہ، حج ، زکوٰۃ کے فرائض کو بخوبی انجام دے۔ اگر آپ اِ ن تمام پر صدقِ دل سے ایمان لاچکے ہیں تو میرا یقین کیجئے کہ الحمدللہ آپ میرے مسلمان بھائی ہیں پھر بھلے آپ کا تعلق کسی بھی مسلک یا مکتب سے ہو اور اگر اِ ن میں سے کسی ایک علامت کی بھی کمی آپ میں موجود ہے تو خدارا اُسے پورا کر کے اپنے ایمان کی درستگی فرمائیے ۔ یاد رکھیئے عمارت ہو یا ایمان اگردونوں میں ایک پلر بھی کم ہو جائے تو یہ کسی بھی وقت گِر کر ختم ہو سکتے ہیں ۔