رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر حج

ہجرت کا دسواں سال ہے۔ جو مشن تھا وہ پورا ہو چکا ہے۔ قافلے جوق در جوق اسلام میں داخل ہو رہے ہیں اسلامی حکومت کی سرحدیں یمن تک پھیل چکی ہیں۔ تیس برس کی محنت کے ثمرات ظاہر ہو رہے ہیں۔ بہت سے غرور کے سر خاک آلود ہو چکے ہیں۔ جو مکہ سے چھپ چھپا کر نکلے تھے وہ چاند ستارے افق پر آب و تاب سے جگمگا رہے ہیں۔ اطراف عرب کے قبائل جو پوری طاقت کے ساتھ محاصرہ کرنے آئے تھے اب گردنیں جھکائے اسلام کے دامن میں پناہ لے رہے ہیں۔

اسلام جس کے مٹانے کے سرگرم لوگ اب اسلام کو پھیلانے میں مصروف عمل ہیں۔جہاں فقروفاقہ تھا اب بیت مال سے غریبوں کی مدد ہو رہی ہے۔مکہ فتح ہوئے دو سال ہو چکے ہیں ایسے میں حج کا موسم آتا ہے۔ حج کی تاریخیں ان مقررہ دنوں میں آچکی ہیں جو کہ متعین کئے گئے تھے ۔تو پھر اللہ کے حکم سے اطراف عرب میں منادی کرا دی جاتی ہے، کہ اس بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے لئے تشریف لے جا رہے۔  “اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دے کہ تیرے پاس پا پیادہ اور پتلے دبلے اونٹوں پر دور دراز راستوں سے آئیں۔”    (سورہ الحج آیت 27)

یہ سننا تھا کہ مسلمانان عرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ  حج کے کرنے کی سعادت  حاصل کرنے کے لئے نکل پڑتے ہیں۔ جو مکہ سے جتنا دور ہے اتنا جلد روانہ ہو رہا ہے۔ سب کی خواہش تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمراہی میں وہ حج مبرور کی سعادت حاصل کریں ۔محبت جوش اور جذبے سے بھرے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے دیکھنے کی آرزو لئے حج کے لئے نکلتے ہیں۔ مکہ نے اس سے پہلے ایسا ہجوم نا دیکھا تھا۔

مدینہ میں ابو دجانہ انصاری رضی اللہ تعالی کو گورنر اور نگران بنایا جاتا ہے اورخود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذی قعدہ کی 25 تاریخ ہفتے کے دن تمام ازواج مطہرات کو ساتھ لے کر روانہ ہوتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کے بعد کوچ فرمایا اور عصر سے پہلے ذوالحلیفہ پہنچ گئے۔ عصر کی نماز دو رکعت ادا فرمائی اور وہیں رات گزاری۔ دوسرے روز ظہر کی نماز سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ نے جسم اطہر اور سر مبارک پر خوشبو لگائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنا تہبند پہنا چادر اوڑھی دو رکعت نماز ظہر ادا فرمائی پھر حج و عمرہ کا احرام باندھتے ہوئے لبیک کی صدا بلند کی۔ قصواء پر سوار ہوئے اور دوبارہ لبیک کی صدا لگائی۔ پھر اونٹنی کھلے میدان میں آئی تو آپ نے پھر لبیک کی صدا بلند کی۔

صحابہ کرام آپ کے ہمراہ تھے ۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر قدم پر پیروی کر رہے تھے۔وادیاں لبیک کی صداوں سے گھونج رہی تھیں۔ اللہ اللہ کیسا تھا وہ قافلہ حج لبیک کی صدائیں بلند کرتا منزل کی جانب رواں دواں۔یہ حجاج کا قافلہ خیرالبشر خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمراہی میں ایک ہفتے بعد سر شام مکہ پہنچا۔ ذی طوی کے مقام پر ٹھہر گئے۔ وہیں رات گزاری اور فجر کی نماز ادا کی غسل فرمایا پھر مکہ میں صبح کے وقت داخل ہوئے۔ یہ اتوار 4 ذوالحجہ کا دن تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ کا طواف کیا پھر صفا مروہ کی سعی کی مگر احرام نہیں کھولا۔ اس سے فارغ ہو کر آپ نے بالائی مکہ حجون کے پاس قیام فرمایا۔ دوبارہ کوئی طواف حج کے طواف کے علاوہ کوئی نہیں فرمایا۔ جو صحابہ کرام ہدی کا جانور نہیں لائے تھے ان کو حلال ہونے کا حکم دیا۔

آٹھ ذوالحجہ ترویہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم منی تشریف لے گئے۔ اور وہیں 9 ذوالحجہ کی صبح تک قیام فرمایا۔ ظہر عصر مغرب عشاء اور فجر کی نمازیں وہیں ادا کیں۔سورج طلوع ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ تشریف لے گئے وادی نمرہ میں قیام فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں خطبہ ارشاد فرمایا آپ کے گرد ایک لاکھ چوبیس اور بعض روایات میں ایک لاکھ چوالیس ہزار فرزندان توحید کا مجمعہ تھا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :-     لوگو شاید میں اس سال کے بعد تمہیں اس مقام پر کبھی نہ ملوں۔ تمہارا خون، مال، جان ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہے جیسے یہ شہر، یہ مہینہ اور یہ دن۔ جاہلیت کے تمام بت میرے قدموں تلے ہیں۔ جاہلیت کے خون معاف ہیں، جاہلیت کے سود معاف ہیں اور اس کی ابتدا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان سے فرمائی۔ عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو کیونکہ تم انہیں اللہ کی امانت کے ساتھ اپناتے ہو۔ میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جارہا ہوں اگر مضبوطی سے پکڑو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے۔ وہ ہے اللہ کی کتاب۔

یاد رکھنا میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں ہے۔ لہذا اپنے رب کی عبادت کرنا، نماز ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا، زکوتہ ادا کرنا اور حج بیت اللہ کرنا۔ اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرنا ایسا کرو گے تو جنت پاو گے۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے گواہی لی ” جب تم سے میرے متعلق پوچھا جائے گا تو کیا کہو گے؟ صحابہ کرام نے فرمایا ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ اور خیر خواہی کا حق ادا کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر شہادت کی انگلی اٹھائی اور فرمایا “اے اللہ تو گواہ رہنا” اے اللہ تو گواہ رہنا” اے اللہ تو گواہ رہنا”

یہ الفاظ ربیعہ بن امیہ بن خلف اپنی بلند آواز سے لوگوں تک پہنچا رہے تھے۔ آپ جب خطبے سے فارغ ہوئے تو یہ آیت نازل ہوئی:   اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتي وَرَضيتُ لَكُمُ الإِسلامَ دينًا ۚ

حضرت عمر فاروق رضی اللہ یہ سن کر رونے لگے۔ پوچھا گیا کہ آپ کیوں رو رہے ہیں فرمایا اس لئے کہ کمال کے بعد زوال ہی تو ہے”

خطبے کے بعد حضرت بلال رضی اللہ نے اذان دی پھر اقامت کہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی۔ اس کے بعد حضرت بلال رضی اللہ نے پھر اقامت کہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھائی۔ اس کے بعد آپ اپنے جائے وقوف پر تشریف لائے۔ اور قبلہ رخ ہو کر اس حالت میں وقوف فرمایا۔ غروب آفتاب کے بعد آپ وہاں سے روانہ ہوئے اور مزلفہ تشریف لے گئے۔

مزلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک اذان اور دو اقامت سے پڑھیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے اور فجر تک لیٹے رہے۔ دس ذوالحجہ کا دن طلوع ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھی اور قصواء پر سوار مشعر حرام تشریف لائے اور قبلہ رخ ہو کر دعائیں مانگیں۔چاشت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور خطبہ ارشاد فرمایا آج کے خطبے میں بھی کل کی باتیں دہرائیں اور مزید فرمایا “تم جلد اپنے رب سے ملو گے، میرے بعد پھر گمراہ نا ہو جانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔

ایک روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ کوئی جرم کرنے والا اپنے سوا کسی اور پر جرم نہیں کرتا۔ یعنی اس جرم کا گرفتار وہ خود ہی ہو گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے دوبارہ مشن کے تکمیل کی گواہی لی اور فرمایا اے اللہ تو گواہ رہ۔ پھر فرمایا جو موجود ہیں وہ غیر موجود تک میرا پیغام پہنچا دیں امید ہے کہ جن تک بات پہنچائی گئی ہوں وہ زیادہ سمجھ سکیں۔

پھر طلوع آفتاب سے قبل منی روانہ ہو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر پڑھتے ہوئے جمرہ کبری کو سات کنکریاں ماریں۔ پھر آپ نے قربانی کی جگہ تشریف لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے 63 اونٹ ذبح فرمائے اور باقی 37 حضرت علی رضی اللہ کو ذبح کرنے کے لئے کہا۔ یوں 100 اونٹ ہو گئے۔ پھر سب میں سے ایک ایک ٹکڑا کاٹ کر اکٹھا پکایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تناول فرمایا اور شوربہ پیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لے گئے اور طواف افاضہ کیا۔ ظہر کی نماز ادا کی اور زم زم کے کنویں پر تشریف لے گئے اور آپ نے زم زم پیا۔

اس کے بعد ایام تشریق منی میں مقیم رہے۔ پھر یوم النفر یعنی 13 ذوالحجہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منی سے کوچ فرمایا۔ وادی البطح میں ٹھہرے ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا فرمائیں۔ عشاء کے بعد تھوڑا ساسو کر اٹھے پھر بیت اللہ گئے اور طواف وداع کیا۔ تمام مناسک حج مکمل فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری کا رخ مدینہ کی طرف فرمایا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حج آخری الوداعی حج تھا۔ ان راہوں کی خوش بختی کے کیا کہنے جن پر آپ کے مبارک قدم پڑے۔ ان حجاج کے لیا کہنے جو اس سارے سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔                ؎

تاریخ  اگر  ڈھونڈے  گی  ثانی  محمد ؐ

ثانی تو بڑی بات ہے، سایہ نہ ملے گا

جواب چھوڑ دیں