ایثار، قربانی اور مواخات اسلامی تعلیمات اور انسانی فطرت بھی ہے اور ہمارا کلچر بھی، یہی وجہ ہے کہ ریاست کی مدد سے پہلے ہی ہر مشکل گھڑی میں لوگ ایک دوسرے کی مدد کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ایسا ہی کرونا کی وبا پھوٹ پڑنے کے بعد حالیہ لاک ڈاؤن میں بھی ہوا، انفرادی سطح پر لوگوں اور غیر سرکاری فلاحی تنظیموں نے ہی نہ صرف متاثرین کی مدد کی ، بلکہ کار سرکاری امور کی بجا آوری میں بھی معاونت فراہم کرتے رہے۔ لاک ڈاؤن کا اعلان ہوتے ہی ہمارے ضلع ملیر میں پہلے ہمارے محترم امیر ضلع محمد اسلام صاحب نے امدادی کاروائیوں کو منظم کرنے کے لیے ایک ہنگامی میٹنگ بلوائی اور راقم سمیت ہر فرد نے اس کا اعادہ کیا کہ فوری طور پر تمام وسائل اور رابطوں کو بروئے کار لاتے ہوئے متاثرین کی بلا امتیاز خدمت کی جائیگی اور اس کے لیے ضلعی سطح پر باقاعدہ ڈیزاسٹر منیجمنٹ کمیٹی تشکیل دی گئی اور اسی رات ناظم علاقہ نعمان بشیر بھائی نے علاقائی سطح پر نشست بلوا کر ضلعی کمیٹی کے فیصلوں کی رو سے علاقائی کمیٹیز تشکیل دیں اور نہ صرف جماعت کے کارکنان اور ہمدردوں سے رابطے شروع ہوئے بلکہ دیگر مخیر افراد کو بھی اعتماد میں لینے کی کوشش کی گئی۔
خلوص دل سے اللہ کے بندوں کی مشکلات کو آسان بنانے کے لیے کی جانے والی ہر کوشش اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اور معاونت اور اسباب بہم پہنچانے کے ایسے ایسے در وا کیئے جن کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ مختصر یہ کہ تمام کارکنان کی باہمی کوششوں کے نتیجے میں بہت تیزی کے ساتھ خدمت کا کام پھیلتا گیا۔ اللہ اسے قبول فرمائے اور آئندہ بھی اپنے بندوں کے کام آنے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔ خدمت کی تمام تر سرگرمیوں میں پوری جانفشانی سے مصروف رہنے کے باوجود میرا مؤقف رہا کہ افراد کو ضروریات زندگی بہم پہنچانا ریاست کی اولین ذمے داری ہے اس لیے ہمیں امدادی کارروائیوں کے ساتھ اس فکر کو اجاگر کرتے رہنا چاہیئے، حکمرانوں کی نااہلی پر چپ سادھنے کے بجائے سوالات اٹھانے چاہیئے اور بھوک کے ستائے راشن کی تلاش میں در در شناختی کارڈ کی فوٹو کاپیز گھمانے والے افراد کو باور کروانا چاہئیے کہ ان کی بنیادی ضروریات پوری نہ کرنے والی حکومت گویا مجرمانہ روش اپنائے ہوئے ہے۔
حالیہ وبا چونکہ کسی ایک خطے تک محدود نہیں بلکہ عالمگیر شکل اختار کر چکی ہے اس لیے اس نے دنیا بھر میں نافذالعمل نظام (سرمایہ داری) کی ناکامیوں کو عریاں کر کے رکھ دیا، دنیا کے مقتدر طبقے کی ترجیحات کھل کر سامنے آئیں اور واضح نظر آنے لگا کہ اس نظام میں وسائل کا مصرف انسانوں کو بچانے، انھیں دو وقت کی روٹی مہیا کرنا اور انھیں ایسی جدید ٹیکنالوجیز منتقل کرنا نہیں رہا جس سے انھیں فائدہ پہنچے، جس کی زندہ مثال ڈاکٹرز کو حفاظتی سازوسامان مہیا نہ کرنا اور مریضوں کے لیے وینٹیلیٹرز کی عدم دستیابی تھا۔ اس ظالمانہ نظام نے انسانی زندگیوں کو آسودہ کرنے کے بجائے جنگ و جدل اور تباہ کاریوں کے ساز وسامان کی تیاری ، عیش و طرب کے آلات بنانے اور بے مصرف ایسی چیزیں پروڈیوس کرنے کو اپنا نصب العین ٹھہرایا جن سے چند خاندانوں ، ملٹی نیشنل کمپنیز اور کارپوریشنز کو فائدہ ملتا رہا۔
دنیا بھر کے انسانوں کو ایک فلاحی اور غریب دوست نظام کے قیام کی جدوجہد کرنی ہوگی، ترجیحات کا از سر نو تعین کرنا ہوگا، بھوک، صحت اور تعلیم کے لیے خزانوں کے دروازے کھلوانے ہوں گے اور دنیا بھر کی مجموعی دولت میں سے اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہونا ہوگا، ورنہ ہم عام لوگ بھوک سے بلکتے، سسکتے زندگیاں گزاریں گے اور ہمارے حکمران دکھاوے کے طور پر ہمارے جسم اور جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے ہمارے ٹیکسز میں سے انتہائی تحقیر سے چند پیسوں کی امداد کرکے خود کو ہمارے ان داتا باور کرواتے رہیں گے۔