حالیہ عرصے میں دنیا کی دو بڑی طاقتوں چین اور امریکا کے درمیان تناو میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ میں صدارتی انتخاب جوں جوں نزدیک آتے جا رہے ہیں اُسی قدرٹرمپ انتظامیہ کی چین مخالف جارحانہ پالیسی میں تیزی آتی جا رہی ہے ۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ عالمگیر وبائی صورتحال کا ذمہ دار چین کو قرار دیتے ہیں لیکن آج تک اُن کی جانب سے کوئی ایسے ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے جا سکیں ہیں جس سے اُن کے دعووں کی سچائی ثابت ہوتی ہو۔ جب بھی شواہد کی بات کی جاتی ہے تو صدر ٹرمپ اور اُن کے اعلیٰ اتنظامی عہدہ دار چپ سادھ لیتے ہیں۔ مبصرین کے خیال میں صدر ٹرمپ رواں برس نومبر میں منعقد ہونے والے صدارتی انتخاب میں فتح پانے کے لیے “چین کارڈ” کا استعمال کر رہے ہیں ، ملک میں سنگین وبائی صورتحال اور انتطامی ناکامی کا “دھبہ” دھونے اور عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے اُن کی کوشش ہے کہ ملکی اور عالمی سطح پر چین مخالف جذبات کو پروان چڑھایا جائے۔
انہی کوششوں کو آگے بڑھاتے ہوئے ابھی حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے برطانیہ کا دورہ کیا ، جہاں انہوں نے چین کی مخالفت میں کھل کر اظہار خیال کرتے ہوئے اتحاد تشکیل دینے کی باتیں کیں۔اس سے قبل برطانیہ چین کی بڑی ٹیلی کام کمپنی ہواوے کے فائیو جی نیٹ ورک پر پابندی عائد کر چکا ہے جسے مائیک پومپیو نے بھرپور سراہا۔امریکی حکام کی جانب سے ہیوسٹن میں چین کا قونصل خانہ بند کرنے کے جوابی ردعمل میں چین نے بھی چھنگ دو شہر میں امریکی قونصل خانہ بند کرنے کا فیصلہ کیا ،امریکہ کی جانب سے چین پر سائبر حملوں کے ذریعے معلومات چرانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں ،چین کی جانب سے ہانگ کانگ خصوصی انتظامی علاقے میں قومی سلامتی قانون سازی کی امریکہ نے کھل کر مخالفت کی ہے اور ہانگ کانگ کے خصوصی رتبے کو بھی ختم کردیا ہے ، سنکیانگ میں امریکہ چین پرانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کر رہا ہے ، جنوبی بحیرہ چین کے حوالے سے بھی دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان محاز آرائی جاری ہے اور اقتصادی میدان میں بھی دونوں بڑی طاقتیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔
یہ صورتحال عالمی دنیا کے لیے باعث تشویش ہے کیونکہ امریکہ خود کو اگر سپرپاور کہلاتا ہے تو چین دنیا کی دسری بڑی معاشی قوت ہے اور موجودہ ابتر وبائی صورتحال میں تو دونوں ممالک کے درمیان تعاون کی ضرورت جتنی آج محسوس کی جا رہی ہے ماضی میں شائد اتنی نہیں تھی۔عالمی سطح پر انسداد وبا کے لیے ویکسین کی تیاری و تحقیق، ترقی پزیر اور پسماندہ ممالک میں وبا کی روک تھام و کنٹرول کے لیے لازمی طبی وسائل کی فراہمی ،مالیاتی معاونت سمیت اُن کی استعدادکار میں اضافہ تب ہی ممکن ہے جب چین اور امریکہ جیسی عالمی طاقتوں کے درمیان مکمل ہم آہنگی ہو۔امریکہ کا سیاسی مفادات کے حصول کے لیے چین کو نشانہ بنانا اور اتحاد کی باتیں کرنا ، دنیا کو ایک اور سرد جنگ کی جانب دھکیل رہا ہے۔امریکہ اس وقت وبا سے متاثرہ سب سے بڑا ملک ہے جہاں مصدقہ مریضوں کی تعداد اکتالیس لاکھ سے بڑھ چکی ہے جبکہ اموات بھی ایک لاکھ چھیالیس ہزار سے متجاوز ہیں۔امریکی معیشت اس وقت شدید دباو کاشکار ہے ،بےروزگاری اور غربت میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ نسلی امتیاز سمیت دیگر سماجی مسائل بھی درپیش ہیں۔ایسے میں کسی قسم کی سردجنگ کا آغاز خود امریکہ کے مفاد میں نہیں ہے۔
تاریخی اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو امریکہ کے صدارتی انتخاب میں کسی بھی صدر کی دوسری مدت کے لیے کامیابی میں معاشی پہلو ہمیشہ حاوی رہا ہے۔ جارج بش سینئر نوے کی دہائی میں خلیجی جنگ میں کامیابی کے بعد اگرچہ دوسری مدت کے لیے پراعتماد تھے لیکن معیشت کی کمزوری کے باعث انہیں اُس وقت نسبتاً ایک غیر معروف صدارتی امیدوار بل کلنٹن کے ہاتھوں شکست اٹھانا پڑی۔موجودہ صورتحال کو دیکھ کر لگتا ہے کہ صدر ٹرمپ چین کے خلاف سرد جنگ کے آغاز سےواقعی یہ خطرہ مول لینا چاہتے ہیں۔امریکہ میں چندسروے کے نتائج بھی ظاہر کرتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کے صدارتی حریف جوبائیڈن مقبولیت میں اُن پر سبقت لیے ہوئے ہیں۔اگر وبا کی ہی بات کی جائے تو رواں برس جنوری میں چین کی جانب سے امریکہ کو ممکنہ خطرے سے خبردار کر دیا گیا تھا مگر اُس وقت ٹرمپ انتظامیہ حد سے زیادہ پراعتماد دکھائی دی اور پورے دو ماہ ضائع کر دیے گئے۔امریکی طبی ماہرین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اگر یہ قیمتی مہلت ضائع نہ کی جاتی تو آج صورتحال یکسر مختلف ہوتی ۔
چین کے خلاف سرد جنگ کی شروعات سے عالمی جغرافیائی استحکام کو بھی شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔دونوں ملک نہ صرف ایک دوسرے کے بڑے تجارتی شراکت دار ہیں بلکہ عالمی صنعتی چین کو رواں رکھنے کی کلیدی قوت بھی ہیں۔چین امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سب سے بڑی منڈی ہے۔مثلاً امریکی جہاز ساز کمپنی بوئنگ کے پچیس فیصد جہاز چین کو فروخت کیے جاتے ہیں ،جنرل موٹرز ،ایپل،کمپوٹر ساز ادارے ڈیل سمیت دیگر بے شمار اداروں کا بڑی حد تک انحصار چینی منڈی پر ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یو ایس۔چائنا چیمبر آف کامرس کے مطابق اگر صدر ٹرمپ بدستور چین کے خلاف تجارتی محاز آرائی جاری رکھتے ہیں تو تب بھی زیادہ تر امریکی کمپنیاں اپنے تجارتی مفاد میں کبھی بھی چین سے انخلاء یا چین سے اپنی سرمایہ کاری نہیں نکالیں گی۔
دونوں بڑے ممالک کے درمیان سردجنگ کی صورت میں ایشیا بحرالکاہل خطے میں فوجی تنازعات میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔چین ایشیا میں تمام ممالک کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے ۔ان ممالک میں پاکستان ،جاپان ،جنوبی کوریا اور بھارت شامل ہیں۔آسیان میں بھی یورپی یونین کی جگہ اب چین نے لے لی ہے لہذا کہا جا سکتا ہے کہ چین ایشیائی ممالک کی اقتصادی سرگرمیوں کی مضبوطی کا ایک محور بن چکا ہے۔ایسے میں کوئی بھی ملک اپنے اقتصادی مفادات کی قیمت پر امریکہ کا ساتھ کیوں دے گا ۔لہذا حقائق کی روشنی میں چین کے خلاف سردجنگ کی شروعات امریکہ کی ایک بڑی غلطی ہو گی اگرچہ اس کا مقصد صدر ٹرمپ کے دوسرے دوراقتدار کے لیے راہ ہموار کرنا ہی کیوں نہ ہو ۔