سن 9 ہجری میں نبی اکرم صلی الله عليه وسلم نے ذوالحج کے مہینے میں اپنے جانثار یار غار کی قیادت میں مدینہ سے حج کے لیے قافلہ روانہ کیا اس وقت تک کعبہ شریف میں مسلمان اور مشرکین دونوں ہی حج ادا کیا کرتے تھے مگر قافلہ روانہ ہو گیا تو سورۃ توبه کی آیات نازل ہو گئیں جس کا لب لباب یہ تھا کہ کعبہ شریف کو ان نجس مشرکین سے پاک کر دیاجائے،کعبہ کا متولی مسلمانوں میں سے ہوگا مشرکین کو اب اقلیت بن کر رہنا ہوگا۔ رسول الله نے اس پیغامِ حق کو پہنچانے کے لیے اپنے داماد اور چچازاد بھائی علی رضی اللہ تعالیٰ کا انتخاب کیا محسوس ہوتا تھا کہ اس فیصلے پر مشرکین بھڑک اٹھیں گے جنگ وجدل پر اتر آئیں گے۔
ظاہر ہے کعبہ جو ان کے لیے بھی ایک بڑامعزز مقام رکھتا تھا اس سے دستبرداری اتنی آسان نہ تھی مگر نبی محترم نے دیکھ لیا کہ اللہ کا فیصلہ آچکا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بناء کچھ سوچے فیصلہ کرلیا کہ جو بھی ہو ہم حق پر ہیں اور حق کے نفاذ کے لئے ہم کچھ بھی کر ڈالیں گے چاہے کتنی ہی خونخوار جنگ ہو جائے ،چاہے کتنے ہی نوجوان شہید ہوجائیں پیچھے نہیں ہٹنا۔ اسکے بعد آپ صلی الله عليه وسلم کی سنت پر عمل کر کے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ نے دکھایا کہ جب ایک گروہ نے زکوۃ دینے سے انکار کیا توابو بکر رضی اللہ تعالیٰ نے ان سے حالات کی خرابی کے باوجود جہاد کیا۔
پھر کبھی عمر فاروق نے، کبھی عثمان غنی نے کبھی علی رضی اللہ تعالیٰ نے اس سنت کو ہمیشہ زندہ رکھا ۔اور وقت گزرا تو حضرت حسین رضی اللہ نےحق پر ہونے کی اور باطل کو روندنے کی خاطر وہ قربانی دی جو رہتی دنیا کے لیے ایک عظیم الشان مثال ہے۔ مسلمان اسکے بعد بھی اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں تو جا ن لیں گے متعدد بار دنیا بھر پر حکومت انہی لوگوں نے کی جو حق کا حق ادا کرنا جانتے تھے۔تاریخ نے ان لوگوں کو یکسر فراموش کر دیا جنہوں نے اپنے فرائض اپنی کم ہمتی کی وجہ سے چھوڑ دئیے۔
آج ہر جگہ مسلمانوں پر ہوتے مظالم ہمارے لیے باعث شرم ہیں کہ مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہونے کے باوجود کہیں ہم کشمیر میں ظلم وستم کے شکار ہیں تو کہیں روہنگیا میں ہم پر مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔کبھی مساجد شہید کر دی جاتی ہیں اور کہیں برما میں مسلمانوں کو زندہ ہی جلا دیا جاتا ہے . بے حسی کی حد تو یہ ہے کہ گوگل میپ سے انبیاء کی سر زمین ارض فلسطین کا نام مٹا دیا جاتا ہے اور ہم بس فیس بک ،ٹک ٹاک اور پب جی میں الجھے نظر آتے ہیں۔
قربانی کا مہینہ ہم سے کچھ تقاضے کر تا ہے صرف نئے کپڑے بنا کر مہنگا جانور قربان کرنےسے ہی قربانی کا حق ادا ہر گز نہ ہو گا بلکہ قربانی کا حق یہ ہے کہ خدا کے حکم پر ہم سے ہر ایک اپنے اسماعیل کو الله کی راہ میں دین کی سر بلندی کے لیے پیش کر دے۔