حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ایک خاص انسیت سی ہے۔۔ ایک تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد ہیں دوسرا ان کا اپنا ایک الگ سا انداز ہے۔ وہ ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ ایک دبنگ قسم کی ہستی ایک بے خوف انسان۔جس نے جب دل کو کسی بات پر مطمئن کر لیا تو پھر اس کو اپنا عقیدہ بنا لیا اور اس پر ایسے ڈٹ گئے کہ بڑی سے بڑی آزمائش بھی ان کے پائے استقلال میں لغزش پیدا نہ کر سکی۔ان کی زندگی کا مطالعہ قرآن و سنت کی روشنی میں کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے کردار سے بہت سی شعائیں پھوٹ رہی ہیں اور ہر شعاع ہمارے لئے مشعل راہ ہے ۔۔
مشاہدہ اور غور و فکر
علم کا حصول
سچائی کی تلاش
حق کی تقلید
مضبوط عقیدہ
حق پر استقامت
صبر و استقلال
اطاعت الٰہی
عشق الہی
ہمیں تو خدا وراثت میں ملا ہے۔ کیوں کہ ہمارے ماں باپ مسلم ہیں۔اسی لئے عقیدے بھی ہمیں وراثت میں ملے ہیں نظامِ زندگی بھی ہمیں وراثت میں ملا ہے۔ کبھی میں نے اور آپ نے سورج چاند اور تارے کو اس نظر سے دیکھا ہے جس نظر سے ابراہیم علیہ السلام نے دیکھا تھا۔ہم نے سورج چاند اور تارے کو کو دن اور رات کے آنے جانے کے حوالے سے ضرور دیکھا ہو گا۔ موسموں کی تبدیلی کے حوالے سے ضرور دیکھا ہو گا۔ گرہن لگنے اور اس کے اثرات پر بڑی بڑی علمی اور سائنسی باتیں ڈسکس کی ہونگی۔اور انہی کو اپنا دل دے بیٹھے ہیں۔لیکن ابراہیم علیہ السلام نے کہا تھا
” میں ڈوبنے والوں کی پوجا نہیں کرتا”
مجھے ابراہیم علیہ السلام کی اس بات سے عشق ہے۔میں ڈوبنے والوں کی پوجا نہیں کرتا۔ ہماری طرح نہیں کہ امید , آرزو ,خوف ,موت ,زندگی ,کامیابی اور ناکامی جیسے چھوٹے چھوٹے بت دلوں میں بٹھا رکھے ہیں۔ وہ ایسی طاقتور عظیم الشان ہستی کی تلاش میں تھے کہ جو بے مثال ہو . ہمیشہ باقی رہنے والی جسے ڈوبنے کا خوف نہ ہو جس کو موت نہ آتی ہو جو کمزور نہ ہو جو دلوں کا حال جانتا ہو جو واحد اور مضبوط سہارا ہو۔جس کا ہاتھ پکڑ کر اس کو اپنا دوست کہہ سکیں۔ اور جس کو جب انہوں نے اپنا رب مان لیا تو اس پر بے دریغ بلا سوچے سمجھے اپنا سب کچھ نچھاور کر دیا۔ اللہ نے انہیں خلیل اللہ کہا ہے یعنی اللہ کا دوست ۔ اور ایک دوست دوسرے دوست سے سوال کرتا ہے کہ “دکھا تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے۔ ۔۔
جواب آتا ہے کہ” کیا تجھے میرے اوپر ایمان نہیں ہے
” پھر سوال جاتا ہے کہ” دل کا اطمینان درکار ہے”
پرندوں کو زندہ کرنے کے عملی مظاہرے سے اسی کے ہاتھوں سے جواب دیا جاتا ہے۔
پھر ابراہیم علیہ السلام نے اپنے دل کو ایسا مطمئن کر لیا کہ بڑے سے بڑی قربانی کرنے سے دریغ نہ کیا۔سچ بات تو یہ ہے کہ دل کا اطمینان ہی سب سے بڑی قوت ایمانی ہے کہ جس کے بعد انسان بڑی بڑی بلاؤں سے لڑ جائے اور اسے خدا کے سوا کسی کا خوف نہ ہو۔
؎بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
اپنے زمانے کے جھوٹے خداؤں سے ٹکر لینے کے لیے ابراہیم علیہ السلام جیسا ایمان درکار ہے۔۔۔تو کیا ہمارا ایمان اس درجے کو پہنچ گیا ہے کہ ہم جھوٹے خداؤں کی خدائی کو للکار سکیں۔
اپنے زمانے کے جھوٹے خداؤں کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے ابراہیم علیہ السلام کے جیسے مدلل علم کی ضرورت ہے۔ ” خدا سورج کو مشرق سے طلوع کرتا ہے اگر تو خدا ہے تو سورج کو مغرب سے طلوع کر ” نمرود یہ بات سن کر مبہوت ہوگیا اور لاجواب ہوگیا۔۔۔تو کیا ہمارے پاس ایسا لاجواب کرنے والا علم موجود ہے یا ہم اپنے اپنے علم کے دائرے میں قید اور اندھی تقلید کے عادی ہو گئے ہیں۔
حق کی تلاش کے لئے تو جوتیاں چٹخانی پڑتی ہیں۔صحرانوردی کرنی پڑتی ہے ۔ابراہیم علیہ السلام نے تو بی بی ہاجرہ اور شیر خوار اسماعیل کو بھی بے آب و گیاہ وادی میں خدا کے آسرے پر چھوڑ دیا۔
تو کیا ہم ایسی صحرانوردی کے قابل ہیں یا اپنے بڑے بڑے اسٹڈی رومز میں موٹی موٹی کتابوں کے درمیان بیٹھ کر جدید نیٹ ورک کے ذریعے اپنی آرام دہ کرسی میں بیٹھے بیٹھے ہی تلاش حق اور رضائے الہی کو پا لینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔اور اگر باہر نکلتے بھی ہیں تو لمبی لمبی گاڑیاں اور آرام دہ سفر اور سفر کے لوازمات چاہیے ہوتے ہیں۔
اور یہ تو کچھ بھی نہیں ۔۔جب تیرہ سالہ اسماعیل کی گردن پر چھری چلانے کا حکم ہوا تو بلا چوں و چراں حکم کی تعمیل کی۔ عشق کی اس وارفتگی پر عقل آج بھی انگشت بدنداں ہے … ایک بار بھی نہ پوچھا کہ اے دوست۔ ایسی جان لیوا قربانی کیوں مانگ رہے ہو۔ ؟ وہ میرا بیٹا ہے ۔میرا لخت جگر ہے میں نے بڑی مناجاتوں کے بعد اسے تجھ سے مانگا تھا۔اور بہت دیر سے نوازا تھا تو نے ۔۔ اور پھر جب وہ میرے ساتھ چلنے کے قابل ہوا ہے میرے قد کے برابر آیا ہے۔۔ تو اس پر چھری چلانے کا حکم دے رہا ہے ۔۔ ۔ ہاں مگر یہ میں اور آپ نہیں تھے ، وہ ابراہیم علیہ السلام جیسا جلیل القدر نبی تھا۔
کیا میرے اور آپ کے اندر قربانی کرنے کے لئے ابراہیم علیہ السلام جیسا جگر موجود ہے۔۔ قربانی یہ نہیں کہ آپ نے کتنے ہزار کتنے لاکھ کا جانور لے لیا فلسفہ قربانی یہ نہیں کہ آپ نے دبلا جانور ذبح کیا یا موٹا تازہ جانور ذبح کیا۔۔ یہ تو محض ایک رسم ہے جو بہرحال اپنی اپنی استطاعت کے مطابق ادا کرنی ہے۔۔ سنت ابراہیمی ہے جس کی پیروی کرنی ہے۔فلسفہ قربانی اصل میں یہ ہے کہ خدا کے حکم کی بلا شک و شبہ تعمیل کرو۔۔۔ کوئی سوال نہ کرو۔ حکم سنو اور دوڑ پڑو۔کوئی سوال نہیں ۔۔ بنی اسرائیل کی طرح کوئی سوال نہیں ۔۔ بس تعمیل , تعمیل اور تعمیل۔۔…
ایک بار تعمیل کر کے تو دیکھو ۔وہ آزمائش میں ڈالتا ضرور ہے لیکن پھر اتنی محبت سے اس میں سے نکالتا ہے کہ بندہ حیران رہ جائے۔۔۔ ابراہیم علیہ السلام آگ میں ڈالے ضرور گئے تھے مگر آگ ان پر ٹھنڈی ہوگئی۔۔ ابراہیم علیہ السلام نے بیٹے پر چھری چلائی ضرور تھی مگر بیٹے کی جگہ دنبہ قربان ہوا۔
خدا کے حکم کی تعمیل کے نتیجے میں مومن کے لئے لیے بڑے بڑے انعامات ہیں۔ دنیا اور آخرت کی بھلائیاں ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کا جو مقام ہے اس پر میرے اور آپ جیسے حقیر ناچیز کیا بات کر سکتے ہیں۔ ہاں مگر ایک بات دل میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی قربانیوں کے صلے میں اللہ نے ان کو دنیا میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسی اولاد سے نوازا ہے۔۔
تو بس حرف آخر یہ کہ دل کا اطمینان اور خدا پر پختہ ایمان ایک مومن کی پہچان ہے ۔ یہ اگر آپ کو مل گیا تو سمجھ لیجئے کہ آپ فلسفہ قربانی کو سمجھ گئے ہیں ۔ ۔۔ خدا عمل کی توفیق عطا فرمائے۔