خود اعتمادی بہترین انسانی صفت ہے اور positiveماحول ہی اسے نشونما دے سکتا ہے۔۔۔میرا ذور positive پہ اس لیے تھا کہ مثبت ماحول ہی انسان کے اندر مثبت خود اعتمادی پیدا کرتا ہے جو اس کی شخصیت کو چار چاند لگاتی ہیں۔۔۔خود اعتمادی منفی بھی ہوتی ہے جو انسان غلط کاموں کے لیے استعمال کرتا ہے۔۔۔پھر وہ خود اعتمادی۔۔بے غیرتی ۔۔ہڈ دھرمی کا روپ دھار لیتی(معزرت کے ساتھ یہ الفاظ سمجھانے کے لیے ضروری تھے)۔۔کہنے کا اصل مقصد یہ تھا کہ اگر زبان کا تیز ہے اور زبان کی اس تیزی سے۔۔طعن اور طنز سے دل کو چھلنی کرتا ہے۔۔۔
بات بے بات بحث صرف اس لیے کرتا ہے کہ سامنے والے کو کمتر اور بے عزت کرے تو وہ انسان خود اعتماد نہیں بلکہ ۔۔۔جو اوپر الفاظ استعمال کیے اس کے زمرے میں آتا۔۔۔ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالی قرآن میں فرماتے ہیں کہ (مفہوم)جب جاہل تمہارے منہ کو آئے تو انہیں سلام کہو۔۔۔یہی ایک خوف خدا رکھنے والے مومن بندے یا بندی کا ظرف اور وقار ہے ۔۔
یہ بات تو بہت اسانی سے سمجھ آتی ہے ہمیں۔۔اصل سمجھنے کی بات یہ ہے کہ خود اعتمادی کا الٹ اعتماد کی کمی کہلائے گا یعنی lack or confidence.۔۔یہ بھی ماحول کے ذیر اثر ہوتا ہے۔۔۔اصل بات یہ ہے کہ lack of confidence حقیقت میں کچھ نہیں ہوتا بلکہ وہ اندر کا ڈر اور خوف ہے۔۔۔لوگوں کی باتوں۔۔طعنوں۔۔لہجوں اور رویوں کا ڈر۔۔۔اپنے آپ کو کمتر اور برے کہلائے جانے کا ڈر۔۔۔اپنی شخصیت اور عزت کے ختم ہو جانے کا ڈر ۔۔۔لوگ کیا کہیں گے اس کا ڈر۔۔۔
کیا میں اور آپ اسی ڈر کے ماحول میں پل بڑھ کر جوان ہوئے۔۔نہیں ہر گز نہیں۔۔۔چاہے امیر ہو یا غریب۔۔۔سخت کوش ہو یا نرم خو ۔۔۔اچھا ماحول توبڑے پیار سے اس شخصیت کی آبیاری کرتا ہے ۔۔پھر کیسے ہم کسی کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ ہمارے اعصاب پہ سوار ہو کر ہماری شخصیت کو اپنی ذبان اور عمل کے تیروں سے چھلنی کردے؟۔۔ہم کیوں اس کی حفاظت نہیں کر پاتے۔۔۔۔یا کیسے ہم اپنی خود اعتمادی کو بچا سکتے ہیں ؟؟؟
سب سے پہلے اپنے آپ سے کچھ وعدے کرنے ہوں گے…اپنے آپ کو مظلوم نہیں سمجھنا۔۔جو اپنے آپ کو مظلوم سمجھتا ہے وہ اپنے آپ کو دوسروں اور حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔۔اپنے ذات کو اپنے حق سے محروم کرنا ہی اپنی اوپر ظلم ہےاپنی اچھائیوں۔۔اپنی خوبیوں ۔۔اپنی اچھی عادات۔۔کا پتہ ہونا چائیے ۔۔یا پتہ کریں اکیلے میں کچھ وقت اپنے ساتھ گزاریں اپنے آپ پہ غور کریں….۔
ان عادات اور خوبیوں کو ہر گز نہ چھوڑنے کا عزم اور کوشاگر آپ کی نیت صاف ہے۔۔خدا خوفی اور اللہ کی حدود کا خیال ہے۔رشتوں کا احترام اور کسی کی حق تلفی نہیں تو
اپنے آپ کو حق پہ ہونے کا احساس دلائیں۔۔حدود اللہ میں رہتے ہوئے اور خدا خوفی کے ساتھ جو کچھ آپ کر رہے ہیں اس کے ٹھیک ہونے کا یقیناگر کہیں اوپر والی باتوں میں غلطی ہے تو اللہ سے توبہ اور استغفار کے ساتھ رجوع کریں اور اپنا معاملہ پہلے ٹھیک کریںمنفی لوگ ،منفی رویے،منفی باتوں کو ignore کرنا سیکھیں۔اس حد تک ignore کہ جیسے آپ نے سنا ہی نہیں۔یا وہ رویہ ۔مزاج لہجہ exist کرتا ہی نہیں۔اکثر لوگ دوسروں کو تنگ کر کے خوش ہوتے ہیں ،ایسے میں ignore کرنا یا assertiveانداز ایسے لوگوں کی حد واضح کرتا ہے۔۔
جب اپنی حق تلفی ہو رہی ہو تو خاموش رہنا اپنے ساتھ ظلم اور ظالم کی مدد ہو گی ۔۔صحیح طرح اپنا موقف اور بات واضح کریں۔۔دلائل دیں لیکن بحث اور غصہ میں حد سے تجاوز نہیں۔۔۔پہلے پہل تو ڈر لگے گا لیکن ایک دو دفعہ صحیح بات کہنے سے ہمت بندھے گی ایسی چیزیں ،معاملہ ،رویے جن کو آپ بدل نہیں سکتے ان کو ان کے حال پہ چھوڑ دیں۔ان سے الجھنا ان پہ پریشاں ہونا چھوڑ دیں۔
اللہ تعالی وقت سےساتھ خود ہی اس معاملےکو ٹھیک فرما دے گا… آج کے دور میں جسمانی صحت جتنے خطرے اور خدشات لاحق ہیں بالکل اسی طرح دماغی صحت کی حفاظت کے لئے بھی اقدامات پہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔۔۔۔ہم سامنے والے کو بدلنے کی طاقت نہ بھی رکھتے ہوں۔۔لیکن اپنی شخصیت کا سرا ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔۔اس پہ ہمارا حق بھی ہے اور اسے سنبھالنا اور بچانا ہمارا فرض بھی۔