سمعنا واطعنا

حضرت ابرا ہیم صل اللہ علیہ وسلم  کے دشمنوں نے اللہ کو نہ ما ننے وا لوں  نے آگ جلا ئ آپ رضا ئےالہی کے لئے آگ میں کود گئے………….. سمعنا و اطعنا (ہم نے سنا اور اطا عت )

حضرت ابرا ہیم علیہ اسلام کو حکم ہوا اپنے بیوی بجوں کو صحرا میں چھوڑ آؤ سمعنا واعطعنا فو راّ حکم کی تعمیل کی، یہ نہیں کہا ایک تنہا عورت ایک چھو ٹے بچے کے سا تھ کیسے رہیگی، اتنے عر صے بعد تو اولاد نصیب ہوئ ہے۔بی بی حا جرہ کا توکل الی اللہ بھی قا بل تقلید ہےجب صحرا میں چھور کر جا نے لگے تو پو چھا  کیایہ حکم ر بی ہے؟ابرا ہیم علیہ اسلام لے  جواب دیا ، ہاں آپ نے فر ما یا ہما رے لئے آللہ کا فی ہے۔شو ہر کو طعنہ نہیں دیا ، ظالم ہو ہمیں کس کے آسرے  پر چھوڑ کر جا رہے ہو ، سمعنا واطعنا ۔

 جب حضرت اسمعیل علیہ اسلام جوان ہو گئے تو حکم ر بی  پر آپ نے بیوی بچے سے ملا قات کی اور ان کے سا تھ ر ہنے لگے پھر خواب میں حکم   ہوااپنی سب سے پیاری شے میری راہ میں قر بان کر دوحضرت اسمعیل علیہ اسلام کو مطلع کیا کہ خواب مین دیکھا ہے کہ اپنی سب سے پیاری شے اللہ کی راہ میں قر بان  کر رہا ہوں،حضرت اسمعیل علیہ اسلام نے سوال کیا آپ کی سب سے پیاری چیز کیا ہے ؟حضرت ابرا ہیم علیہ اسلام نے جواب دیا ،میرے پیارے بیٹے! میری عز یز شے تم ہو!آپ نے فر ما یا تو پھر آپ مجھے اللہ کی راہ میں قر با ن کر د یں۔سمعنا و اعطعنا نہ بحث ،نہ حجت،نہ تکرار کہ اتنے عر صہ جدا رکھا اب قر بان کد نے کی با تیں کر رہے ہیں ۔حضرت ابرا ہیم نے بھی نہ سو چا بیٹا اتنے عر صہ بعد ملا ہے ،صرف حکم ربی ہی کو اہمیت دی سمعنا واطعنا

حضرت لوط علیہ اسلام کی  قوم پر  عذاب آیا آپ کو حکم ہوا بستی سے نکل جا ئیں،مگر اہلیہ سا تھ نہیں جا ئیں گی آپ نے رب کی رضا پر سر جھکا دیا ،سمعنا واطعنا

اصحا ب کہف کا سا را زما نہ دشمن ہو گیا  مگر پھر بھی وہ حق سے نہ ہٹے انھوں نے حق پر عمل کیا وہ حق پر جم گئے اور کہا سمعنا واطعنا حضرت نوح کو حکم ہوا کشتی بناؤ نہ پا نی ،نہ پا نی کے آثارخشکی ہی خشکی خا مو شی سے کشتی بنا ئ سمعنا واطعنا  پھر طو نان  آیا تو کشتی میں مسا فر سوار کر لئے  جا نوروں کے بھی ایک ایک  جو ڑے کو رکھ لیا بیٹے کو آواز دی بیٹے نے منع کر دیا اللہ نے اسے بھی عذاب میں مبتلا کر دیا  بیٹے کو بھی اللہ کے لئے چھوڑ دیا  حا لا نکہ او لاد کی محبت فطری ہو تی ہے مگر حق غا لب آ گیا۔ سمعنا واطعنا

حضرت موسی علیہ ا سلام کو حکم ملا سمندر میں ا تر جا ؤ فورآ سمندر میں اتر گئے ۔ سمعنا واطعنا

حضرت محمد صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم عبا دت کے لئے غار حرا میں تشر یف لے جا تے تھے ، سورۃ مد ثر میں اللہ نے حکم دیا

“اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے، اٹھو اور خبر دار کرو ۔ اپنے رب کی بڑائ بیان کرو ۔”  سو رۃ مد ٹر آیت نمبر  1

سمعنا واطعنا آپ نے غا ر حرا چھو ڑ دیا نعو ذ با اللہ یہ نہیں کہا عبادت کرنی ہے مجھے عبادت سے لذت  حا صل ہو تی ہے  ‏‏

  اپنے رب کی بڑا ئکا اعلان کر نے کے لئے جدو جہد کر نے لگے۔

یہ تو چند مثا لیں ا نبیا کرام کی ہیں اگر ا صحا بہ کا کر دار دیکھیں تو یہی سمعنا واعطعنا کی کیفیت نظر آ تی ہے۔جنگ تبوک کہ مو قع پر حضرت ابو بکر صد یق گھر کا سا را سا مان لے آے اور کہا گھر وا لوں کے لئے اللہ اور اس کا رسول کا فی ہے۔

 انبیاء اور صحابہ کے بعد آج بھی اللہ کے ایسے بندے ہیں جو سمعناواعطعنا پر عمل کرتے ہیں سلیمان الرا جحی نے اپنا کثیر مال اللہ کی راہ میں وقف کر دیا ،سعودی عرب میں انھوں نےوقف کیا ہے اس قدر بڑا عطیہ کسی نے نہیں کیا۔

اللہ ایسی جماعت کو جو سمعنا واطعنا پر عمل پیرا ہے مستحکم  جماعت بنا دے۔

جواب چھوڑ دیں