یہ کہاوت سب سے پہلے میں نے اپنے والد صاحب سے تب سنی جب وہ کسی کو ڈانٹ رہے تھے۔ میں سمجھا شاید یہ بھی اپنی نوعیت کا ہندکو” زبان میں کوئی خاص جملہ ہے۔ جو کوئی خاص مفہوم رکھتا ہے، جس کا جاننا شاید مضر ہو، اس لئے کسی سے پوچھنے کی جرأت نہ کر سکا۔ پھر اس کے بعد بھی کسی نہ کسی موقع پر یہ کہاوت سننے کو ملتی ، پھر ایک دور وہ بھی آیا جب مجھے پہلی دفعہ اس کا مفہوم سمجھ آیا اور پھر ترقی ہوئی اور پس منظر بھی سمجھ آگیا۔ لیکن ایک آخری مسئلہ یہ باقی رہا وہ یہ کہ اس کہاوت کے فٹ کرنے تجربہ کب ہوگا۔لیکن رفتہ رفتہ یہ دن بھی نصیب ہوا۔ وہ اس طرح کہ تبدیلی کے سونامی کی ڈھیر ساری مہربانیوں نے یہ موقع فراہم کیا اور کیا خوب کیا۔
آپ کو یاد ہو تو ہماری وزارت اطلاعت پر بڑے منجھے ہوئے لوگ گزشتہ 2 برس میں دیکھنے کو ملے، یا یوں سمجھ لیجئے کہ وزارت اطلاعات بڑی نکھری نکھری لگی ۔ ڈاکٹر صاحبہ کے تو کیا کہنے۔ لیکن ان سے پہلے بھی ایک مایہ ناز شخصیت جو اس وزارت کا حسن رہی ہم ان کی بات کر رہے ہیں۔ اللہ کا کرنا کہ وزارت اطلاعت کی جان ان سے چھوٹ گئی۔ ہم نے بھی سکھ کا سانس لیا۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ہمیں کہیں سے اڑتی اڑتی خبر ملی کہ اب محترم ہماری سائنس کو سہارا دینے جا رہے ہیں، محترم نے عہدہ سنبھالا اور یوں لگا کہ فرما رہے ہوں “ہور کوئی ساڈے لائک خدمت”بس پھر کیا تھا آخر اس سائنس کو بھی تو چار چاند لگنے تھے، سو لگ گئے۔
چاند سے بات یاد آئی محترم کا وزارت سائنس سنبھالا دینے سے پہلے اگر آپ کو یا د ہو تو چاند کے معاملے میں جھگڑےنے والی واحد شخصیت مفتی پوپلزئی صاحب تھے۔ جو کافی عقل مند تھے کہ رمضان اور شوال کے چاند کے علاوہ پر جھگڑا اور اختلاف نہیں کرتے تھے، کہ لوگ کہیں گے یہ مولوی ہر وقت جھگڑتے ہی رہتے ہیں ، یہ کوئی اچھی بات تھوڑی ہی ہے۔ یا کرتے بھی ہوں گے لیکن ہماری کم علمی نے ہمیں ان سے بے خبر رکھا۔ خیر اس کے لئے تو لوگ پہلے سے تیار رہتے تھے اور ساتھ ساتھ سعودیہ کی طرف بھی ہلکی پھلکی نظر رکھتے تھے کہ شیوخ کب عید کرنے لگے ہیں چنانچہ اسی بنیاد پر عید کا اعلان ملک کے ایک صوبہ میں ہوجاتا۔ خیریہ بڑوں کے معاملات ہیں چھوٹوں کو اس میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے۔
لیکن غضب تو تب ہوا جب ہر چاند پر جھگڑا شروع ہوگیا۔ اب ہم کم علموں کو کیا پتہ کے سائنس کے چاند کے علاوہ اور کتنے شعبے ہیں۔ ہم تو یہی کہیں گے کہ اور تو کچھ پتہ نہیں لیکن ہماری وزارت سائنس چاند کا معاملہ بڑا سیریس لیتی ہے، اور ہمارا تو پھر یہی تبصرہ ہوگا نا کہ ارے بھئی اس سائنس کو کچھ اوپر نیچے، کچھ دائیں بائیں زور زور سے ہلاؤ ، شاید چاند کے علاوہ بھی کوئی شعبہ کسی کونے کھانچے سے آٹپکے۔ جس پر بھی ایسی ہی سنجیدگی سے عمل کرنے کی اشد ضرورت ہو جیسا چاند کے معاملے پر ہوتا ہے۔ لیکن ایک بات دونوں شخصیات میں مشترک ہے کہ دونوں چاند ہی کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، نہ تو ہماری وزارت سائنس کو چاند کے علاوہ کوئی معاملہ سنجیدہ لگتا ہے اور نہ ہی محترم پوپلزئی صاحب کو، اللہ ان کو سلامت رکھے۔
وزارت سائنس چاند دیکھتی نہیں بلکہ اس کے ہونے کا امکان بتاتی ہے۔ رؤیت ھلال کمیٹی چاند دیکھتی ہے۔ اب امکان اور وقوع میں واضح فرق ہے۔ نہ تو امکان اسلام کے مخالف ہے اور نہ ہی وقوع میں سائنس کی مخالفت ہے۔ پھر چاند کتنے دن کا ہے کتنے کا نہیں اس بات پر ایک ایسی طویل بحث کا چھڑ جانا ایسی نوید کی طرف اشاریہ ہے جس سے اب یوں لگتا ہے کہ پہلے ملک پاکستان کے صرف ایک صوبہ میں ایسی صورت حال تھی، لیکن چونکہ تبدیلی کا دور دورا ہے جس سے یہ لگتا ہے کہ اب پورے ملک میں ہر گلی ، محلے اور ممکن ہے ہر گھر میں بھی دو فطر کی عیدیں، دو مختلف تاریخوں سے رمضان کی ابتداء و انتہاء، پھر آگے عید الاضحی ، اور بابرکت ایام پر بھی ایسی ہی صورت حال ہونے کو ہے۔ وہ تو شکر ہے حج یہاں نہیں ہوتا ورنہ تو مسئلہ بڑا خراب تھا۔
اب اس تمام صورت حال میں مفتی منیب الرحمن صاحب کے سامنے دو فریق ہیں ایک چاند دیکھنے کا دعوی کر کے اختلاف کرتا ہے، یہ تو پرانی ٹیکنالوجی تھی۔ اور نئی ٹیکنالوجی صرف چاند کی نوید سنا کر اختلاف کرتی ہے۔ اس لئے مفتی صاحب بھی تنہائی کے عالم میں سوچتے تو ہوں گے یک نہ شد دو شد۔