چین کی جانب سے پہلا مریخ مشن کامیابی سے لانچ کر دیا گیا ہے جسے خلائی شعبے کی تسخیر کا اہم سنگ میل قرار دیا جا سکتا ہے۔مریخ کی جانب یہ سفر چھ سے سات ماہ میں مکمل ہو گا اور فروری 2021 کے آس پاس سرخ سیارے تک رسائی ممکن ہوگی۔چین کے پہلے مریخ مشن کو ” تیان وین۔1 ” کہا گیا ہے جس کا مطلب ہے ” افلاک سے سوالات”۔ یہ نام بھی ایک قدیم چینی شاعر چھو یون کی شاعری سے لیا گیا ہے ۔چینی ماہرین کے نزدیک اس نام سے چینی سماج کی سچائی اور سائنس کے لیے جستجو اور فطرت کی کھوج سے متعلق اٹل عزائم ظاہر ہوتے ہیں۔
یہ بات قابل زکر ہے کہ انسانی تاریخ میں مریخ کو ہمیشہ اہمیت حاصل رہی ہے اور ہزاروں سالوں سے مریخ کا مشاہدہ انسانی متجسس فطرت سے جڑا چلا آ رہا ہے۔قدیم چین میں مریخ کو ” ینگ ہو” کہا جاتا تھا جس کا مطلب “درخشندہ اور انوکھا ” ہے۔اسی طرح قدیم روم میں سرخ رنگت کے باعث مریخ کو دیوتا کےنام سے منسوب کیا گیا۔لہذا مریخ کو نظام شمسی میں ایک ایسا سیارہ قرار دیا جا سکتا ہے جس پر سب سے زیادہ تحقیق کی گئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دیگر سیاروں کی نسبت لوگ مریخ کے بارے میں کیوں اتنا متجسس ہیں اور کیوں اس کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں ؟ اس کی کئی وجوہات ہیں۔
ہماری زمین اور مریخ دونوں ہمسایے ہیں۔ مریخ زمین کا ایسا پڑوسی ہے جسے ایک طویل عرصے تک زمین کا “سسٹر سیارہ” قرار دیا گیا ہے۔ اس کا قطر ہماری زمین کا ترپن فیصد اور کمیت چودہ فیصد ہے۔مریخ کا ایک دن چوبیس گھنٹے اور انتالیس منٹ کا ہوتا ہے جبکہ ہماری کرہ ارض پر یہ دورانیہ تیئیس گھنٹے اور چھپن منٹ ہوتا ہے۔اب چونکہ دونوں سیاروں کے درمیان کئی چیزیں مشترک ہیں لہذا مختلف ممالک کے لیے مریخ کی مزید کھوج نسبتاً آسان ہے اور انسان نظام شمسی سے متعلق جاننے کا خواہش مند بھی ہے۔ مریخ کے ماحول سے متعلق بتایا جاتا ہے کہ اس میں پہاڑ ،میدان اور درے بھی پائے جاتے ہیں اور اب تک کی تحقیقات میں سب سے اہم بات جو سامنے آئی ہے کہ مریخ پر ہماری زمین کی طرح پانی بھی ہے۔ سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ مریخ کے ایک بڑے حصے پر اربوں سالوں سے پانی موجود ہے۔
اب چونکہ مریخ ہماری زمین سے انتہائی نزدیک ہے تو خلائی شعبے کی تحقیق سے وابستہ سائنسدانوں کی جستجو کا محور بھی بن چکا ہے ۔ ماہرین مریخ اور زمین کے ماحول میں مشترکہ خصوصیات سے متعلق مزید جاننا چاہتے ہیں۔اکثر حلقے یہ دلائل بھی دیتے ہیں کہ مریخ ماضی میں ہماری زمین کا ہی حصہ تھا یا پھر مستقبل میں حصہ بن جائے گا۔مریخ سے متعلق اس نکتہ پر بھی تحقیق کی جا رہی ہے کہ وہ کیا عوامل تھے جس کے باعث مریخ کے زیادہ حصے بنجر ہیں کیونکہ ہماری کرہ ارض اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے ان تمام امور سے آگاہی پالیسی سازی میں انتہائی معاون ثابت ہو گی۔
اس وقت چونکہ ہماری کرہ ارض کو مختلف نوعیت کی آفات کا سامنا بھی ہے لہذا مستقبل میں اس بات کی ضرورت محسوس کی جا سکتی ہے کہ انسانوں کو کائنات کے کسی دوسرے سیارے پر منتقل کیا جائے۔ اس لیے مریخ کی کھوج ان امکانات کو بھی جلا بخشے گی کہ انسان کوئی دوسری محفوظ زمین بسانے جا رہے ہیں۔سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ نظام شمسی میں زمین کے بعد مریخ ہی اس وقت وہ واحد سیارہ ہے جہاں زندگی کے آثار ملتے ہیں اور مستقبل سے متعلق منصوبے ترتیب دیے جا سکتے ہیں۔ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ مریخ سے متعلق تحقیق کو کئی برس لگ سکتے ہیں اور کئی نسلوں کی مسلسل تحقیقی کاوشوں کی ضرورت ہے۔ حالیہ تحقیقی سرگرمیوں کا مقصد بھی مریخ کے ماحول کو مزید بہتر طور پر سمجھنا اور زندگی کے وجود سے متعلق آثار کا درست ادراک ہے تاکہ بنی نوع انسان کی پائیدار ترقی کو آگے بڑھایا جا سکے۔چین کے مریخ مشن کو سرخ سیارے تک پہنچنے میں سات ماہ کا وقت لگے گا اور اس مشن کے دوران مدار ، لینڈنگ اور کھوج ، ان تین اہم نکات پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔
مریخ پر لینڈنگ بھی کوئی آسان مرحلہ نہیں ہے ۔انیس سو ساٹھ کی دہائی سے اب تک انسانوں نے مریخ سے متعلق کھوج اور تحقیق کے لیے چوالیس مرتبہ کوشش کی ہے لیکن ان میں سے تقریباً نصف کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں۔اس دوران چالیس سے زائد خلائی جہاز لانچ کیے گئے مگر اب تک ان میں سے صرف آٹھ خلائی جہاز ہی مریخ کی سطح پر اترنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
مریخ مشن کے اہم چیلنج کی راہ میں ایک سات منٹ کا خوفناک مرحلہ بھی درپیش ہے ۔مریخ کی جانب لاکھوں کلومیٹرز کا فاصلہ طے کرنے کے بعد سیارے کی سطح پر اترنے ،داخلے اور لینڈنگ کے دوران صرف سات منٹ میں رفتار کو بیس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتا سے زیرو درجے تک لانا ہوتا ہے۔ ہماری زمین کی نسبت مریخ کا ماحول کافی باریک ہے جو لینڈنگ کے دوران زیادہ مددگار ثابت نہیں ہوتا ہے جبکہ مریخ کا شدید موسم بھی اس مرحلے کو کافی دشوار بنا دیتا ہے۔مریخ سیارے پر ریتلے طوفانوں کی بہتات بھی ایک بڑامسئلہ ہے۔ چین کی جانب سے اس ضمن میں گزشتہ برس نومبر میں کئی کامیاب تجربات کیے گئے تھے جس میں رفتار کو کم کرنے سمیت لینڈنگ کے لیے سازگار حالات شامل ہیں۔چینی سائنسدان پر اعتماد ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی اور جدت کی بدولت وہ مریخ کی سطح پر کامیاب اور ہموار لینڈنگ کر پائیں گے۔لینڈنگ کے بعد چینی ماہرین مریخ پر دو سے تین ماہ قیام کریں گےاور انسانیت کو سرخ سیارے کے پوشیدہ حقائق سے متعلق آگاہی فراہم کر سکیں گے۔