کووڈ۔19سے نمٹنے میں امریکی ناکامی کے اسباب

امریکا دنیا بھر میں سپرپاور کہلاتا ہے  اور معاشی اعتبار سے بھی دنیاکی سب سے بڑی اقتصادی قوت ہے۔زندگی کا کوئی بھی شعبہ اٹھا لیں امریکہ آپ کو  سرفہرست نظر آئے گا۔مگر تمام تر وسائل اور جدت کے باوجود  امریکہ نوول کورونا وائرس سے نمٹنے میں ناکام نظر آتا ہے۔طبی اعتبار سے بھی دنیا کا ترقی یافتہ ترین ملک کووڈ۔19 کے سامنے بے بس ہو چکا ہے۔ملک میں متاثرہ مریضوں کی تعداد سینتیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ اموات بھی ایک لاکھ چالیس ہزار سے متجاوز ہیں۔صدر ٹرمپ بدستور ماسک پہننے سے گریزاں ہیں جبکہ عالمی سطح پر طبی ماہرین بارہا ماسک کی اہمیت کو اجاگر کر چکے ہیں ۔یہ بات الگ کہ اُن کی جانب سے حالیہ عرصے میں صرف ایک مرتبہ ماسک ضرور پہنا گیا ہے جو  عالمی میڈیا میں ایک بریکنگ نیوز کے طور پر سامنے آیا مگر  عوام میں ماسک کے استعمال اور ملک میں اس حوالے سے کوئی بھی پالیسی وضع کرنے میں امریکی صدرناکام رہے ہیں۔

اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ کسی بھی ملک میں اعلیٰ سیاسی قیادت یا پھر معروف شخصیات جنہیں ہم ” سیلیبریٹیز” کہتے ہیں ،اُن کی جانب سے اپنائے جانے والے طرز عمل کو عوام میں مقبولیت ملتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اگر  وبائی صورتحال کے تناظر میں دیگر شخصیات سے مصافحہ سے گریز کرتے ہیں تو یہ عوام کے لیے ایک پیغام ہے ، علماء کرام اپنے “عمل” سے عوام میں شعور بیدار کرتے ہیں تو  اُس کی اہمیت “تقریر” کی نسبت کئی گنا زیادہ ہو گی۔لیکن صدر ٹرمپ کی منطق اس حوالے سے نرالی ہے وہ یہ چاہتے تو ضرور ہیں کہ عوام نوول کورونا وائرس سے بچنے کے لیے اپنی رضامندی سےماسک استعمال کریں مگر خود اس سے اجتناب کرتے ہیں۔اس کے برعکس دیگر یورپی ممالک میں ہم نے دیکھا کہ لیڈرشپ نے ماسک کے استعمال کی پالیسیاں وضع کی ہیں اور عوامی مقامات پر اس کی پابندی لازمی قرار دی گئی ہیں۔

امریکا میں انہی رویوں کے باعث آج یومیہ کیسوں کی تعداد  میں رکارڈ اضافہ ہو رہا ہے۔جون کے اواخر سے اب تک ملک کی مختلف ریاستوں میں یومیہ کیسوں کی تعداد میں کئی مرتبہ انتہائی تشویشناک اضافہ دیکھا گیا ہے۔امریکہ میں وبا کی سنگینی کی کئی وجوہات ہیں جس میں حکومت کی جانب سے جولائی کے اوائل میں انسدادی اقدامات میں نرمی اور اقتصادی سرگرمیوں کی جلد بازی میں بحالی قابل ذکر ہے۔یہ درست ہے کہ ملک میں وبا سے بچاو کے لیے احتیاطی تدابیر اور لازمی انسددای اقدامات اپنائے گئے مگر اس عرصے کے دوران ٹرمپ انتظامیہ کوئی قومی پالیسی وضع نہیں کر سکی لہذا جونہی پابندیاں نرم کی گئیں تو یک دم نئے کیسوں کی تعداد میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آیا۔اس کی مثال امریکی ریاستیں فلوریڈا اور ٹیکساس ہیں جہاں تین ہفتوں تک یومیہ کیسوں کی تعداد ایک ہزار سے بھی کم کی سطح تک جا چکی تھی مگر جونہی مئی میں پابندیاں اٹھا لی جاتی ہیں اور اقتصادی سماجی سرگرمیوں کا دوبارہ آغاز ہوتا ہے تو نئے کیسوں میں خطرنک حد تک اضافہ ہو جاتا ہے۔

پالیسی نہ ہونے کی صورت میں امریکہ کو مزید نقصان اُس وقت اٹھانا پڑا جبکہ یورپ اور چند ایشیائی ممالک کے وائرس سے متاثرہ شہریوں نے امریکہ کا سفر کیا۔یورپ میں وبا کی سنگین صورتحال کے باوجود امریکی ہوائی اڈوں پر نہ تو ان مسافروں کے ٹیسٹ کیے گئے اور نہ ہی انہیں قرنطینہ کی ہدایات کی گئیں۔وائرس کی ٹیسٹنگ کی صلاحیت بھی محدود تھی اور اس عمل میں صرف اُن افراد کو شامل کیا گیا جو مصدقہ مریضوں کے ساتھ قریبی رابطے میں رہے ہوں ۔امریکی صدر ٹرمپ ہمیشہ اس زعم میں مبتلا رہے کہ اُن کے پاس دنیا کا بہترین طبی نظام ،طبی ماہرین اور انفراسٹرکچر موجود ہے لیکن کووڈ۔19  نے اصلیت بے نقاب کر دی۔ملک میں کورونا وائرس کے ابتدائی مرکز نیو یارک نے امریکی قیادت کے دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی جہاں آغاز میں ٹیسٹنگ کی انتہائی محدود صلاحیت ، وینٹیلیٹرز کی شدید کمی ، لازمی زاتی حفاظتی سامان کی عدم دستیابی اور اسپتالوں میں مریضوں کو علاج معالجے کی ناکافی سہولیات نے امریکی نظام کی قابلیت پر کئی سوالات اٹھا دیے۔

آغاز میں صدر ٹرمپ کی جانب سے ڈبلیو ایچ او اور چین کی جانب سے انتباہ کو بارہا نظر انداز کیا گیا ،  شائدیہ سمجھ لیا گیا  تھا کہ وائرس چین یا یورپ تک ہی محددو رہے گا اور امریکہ کا رخ نہیں کرے مگر   ستم ظریفی دیکھیے کہ آج امریکہ وبا سے متاثرہ سب سے بڑا ملک ہے۔ملک میں مریضوں کی تیزی سے  بڑھتی ہوئی تعداد کے تناظر میں بھی صدر ٹرمپ نے ایک نرالی منطق اپنائی کہ زیادہ ٹیسٹنگ زیادہ کیس ،مطلب اگر ٹیسٹنگ کی شرح کم کر دی جائے تو مریض بھی کم ہو جائیں گے اور اگر بالکل ہی ٹیسٹنگ روک دی جائے تو  کورونا وائرس کا وجود ہی ختم۔

امریکا میں سنگین وبائی صورتحال کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے  عوام کے جانی تحفظ کو فوقیت دینے کی بجائے معیشت کا پہیہ رواں رکھنے کو ترجیح حاصل رہی ہے اور جلد بازی میں کاروباری مراکز اور دیگر سماجی اقتصادی سرگرمیوں کھولنے سے سنگین مسائل پیدا ہوئے اور انسداد وبا کی کوششوں کو نقصان پہنچا۔ صدر ٹرمپ اس دوران وبا کو سیاسی کارڈ کے طور پر استعمال کرتے رہے اور اپنے حریفوں پر طنز  وتشنیع کے نشتر برساتے نظر آئے ۔انہوں نے اپنی ناکامی کا ملبہ چین پر ڈالنے کی کوشش کی  اور “چائنا وائرس” اور “کنگ فلو” جیسے نامناسب الفاظ کے استعمال سے امریکی عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کی گئی۔ڈبلیو ایچ او نے امریکی بیانیے کی تائید نہ کی تو  اس پر چین کی حمایت اور ناکافی اقدامات کے الزامات عائد کرتے ہوئے علیحدگی اختیار کر لی گئی۔ایک ایسے وقت میں جب عالمگیر وبا پوری دنیا کو اپنے عفریت کا نشانہ بنا رہی ہے امریکہ کی جانب سے ڈبلیو ایچ او کو سالانہ 450 ملین ڈالرز فنڈنگ کی معطلی یقیناً ادارے کی کارکردگی اور انسداد وبا کے عالمی تعاون کے لیے تباہ کن ثابت ہو گی۔

چلیے مان لیتے ہیں کہ  عالمی ادارہ تو ناکام ہی سہی کیا ٹرمپ انتظامیہ کی لیڈرشپ میں امریکہ کے قومی ادارے بھی ناکام ہو چکے ہیں جب ہی تو ان دنوں ملک میں انسداد امراض مرکز  سمیت  متعدی امراض کے سب سے بڑے ماہر ڈاکٹر انتھونی فاوچی صدر ٹرمپ کے عتاب کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ نومبر میں صدارتی انتخاب سے قبل سب اچھا ہو جا ئے لیکن کاش کوئی انہیں سمجھا پائے کہ نوول کورونا وائرس کا سدباب امریکہ کے محفوظ مستقبل سے جڑا ایک بڑا سوال ہے۔ کووڈ۔19 کوئی فریب یا نظر کا دھوکہ نہیں ہے بلکہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے جس کا ادراک لازم ہے، وائرس کی موئثر روک تھام و کنٹرول میں لاکھوں شہریوں کی زندگیوں کا تحفظ شامل ہے۔ حقائق سے نظریں چرانے سے چیزیں مزید خراب ہوں گی۔ امریکہ ایک بڑا ملک ہے جس کی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہیں  ،اجتماعی طرزفکر اپنانے میں جہاں امریکہ کا اپنا فائدہ ہے وہاں مخلصانہ طور پر انسدا وبا کے عالمی تعاون کو آگے بڑھاتے ہوئے  دنیا بھر میں لاکھوں قیمتی جانیں بھی بچائی جا سکیں گی۔ 

 

جواب چھوڑ دیں