جراتِ اظہار سیاسی کارکن کی شان ہے

سیاست کیوں کرتے ہو؟

اس سے کیا ملے گا؟

 کیوں اپنی توانائیاں بےکار میں ضائع کیئے جاتے ہو؟

 مجھ سے ایسے متعدد سوالات آئے دن کوئی نہ کوئی سنجیدہ فردکرتاہے اور مشورہ دیتا ہے کہ وقت کو یوں سیاسی سرگرمیوں میں برباد کرنے کے بجائے کسی نفع بخش سرگرمی میں استعمال کروں۔

میں ان سوالات اور مشوروں پر سوچتا ہوں تو نہایت آسانی سے سیاست کے بارے میں لوگوں کی آراء سمجھ آجاتی ہیں۔ آپ سیاست کی کوئی بھی کتابی تعریف کریں لیکن اس حقیقت سے انکار شاید ہی کرسکیں کہ لوگوں کی اکثریت سیاسی عمل کو منفی سرگرمی یا پھر ایک لاحاصل کام سمجھتی ہے اور اپنے عمل سے اس سے بیگانگی کا اظہار کرتی ہے۔ میں نے اچھے سیاسی کارکنان کو بھی ایک عرصے تک سرگرم اور پھر مایوسی اور دل شکستگی کے ساتھ خود کو سیاسی سرگرمیوں سے الگ تھلگ ہوتے دیکھاہے۔

کوئی بھی سیاسی کارکن اپنے مخالفین کی باتوں کو تو شاید اپنے لیے تند باد مخالف سمجھ کر مزید اونچا اڑنے کے لیے پر تولنے پر ہر آن آمادہ رہے لیکن جب وہ اپنی ہی صفوں میں اپنے خلاف بنے محاذ اور منظم ہوتی محلاتی سازشیں دیکھے گا تو اپنے دل میں زیادہ عرصے تک اس قافلے کہ ساتھ چلنے کی آمادگی نہیں پائے گا لیکن ہماراالمیہ کہ علاقائی سطح پر چھوٹے قد والے سیاسی لیڈران اگر کسی کو اپنے قد سے بڑا محسوس کرنے لگیں تو اس کی سیاسی موت کے لیے ہر منفی ہتھکنڈہ استعمال کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں متعلقہ سطح پر سیاسی ارتقائی عمل اور فطری تطہیر ہو ہی نہیں پاتی۔

میرا مشاہدہ رہا ہے کہ اپنی انا کے مارے جب کوئی منصب پالیتے ہیں تو سیاسی عمل کو فروغ دینے اور عوامی پزیرائی کے لیے منصوبہ بندی کے بجائے ان افراد کی زندگی کا مقصد ہی دوسروں کو دبا کر خود کو بڑا ثابت کرنا، مفاد عامہ کی جدوجہد میں کسی کا دست و بازو بننے کی بجائے مختلف منفی ہتکنڈوں سے روڑے اٹکانا اور اگر اس سے بھی تسلی نہ ہو تو اپنے ہٹے کٹے جثے کے ساتھ جدوجہد کے آگے دیوار بن کر کھڑے ہونا ہوتا ہے۔

یہ مخالفین کے ساتھ ریشم کی طرح نرم اور اپنے ماتحت افراد کے لیے فولاد بنے رہتے ہیں، اپنے کارکنان کے بے لاگ سوالات سے نہ صرف کتراتے ہیں بلکہ ان کی زبان بندی میں کوشاں رہتے ہیں۔

سیاسی لیڈران کا کام یہ نہیں کہ کارکنان کی زبان بندی کریں اور ان کےرستوں میں رکاوٹیں کھڑی کریں، انھیں تو کارکنان کےاسلوب کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں رہنا چاہیے اور ان کے رستوں میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے بجائے خود ان کے نئے راستے تراشنے چاہیئں۔

آپ میں سے کوئی بھی فرد کسی بھی سطح پر سیاسی یا سماجی تنظیم کا ذمے دار ہو تو اپنے ماتحت افراد میں سوال کرنے کی عادت ڈالیں۔

ان کی مثبت تنقید پر چیں بجبیں ہونے کے بجائے اپنی کوتاہیوں پر نظر ڈالیں اور کسی کی زبان بندی یا تحریر سے منع کرنے کے جرم کے مرتکب نہ ہوں کیونکہ یہ منفی ہتکنڈے فرد کے اندر چھپے چور کی چغلی کھاتے ہیں۔

سیاسی عمل میں کوئی منصب اور ذمے داری ہر لمحے آپ سے تقاضہ کرتی ہے کہ اپنے انتہائی سطحی مفادات کے لیے اپنی حدود میں نظریاتی سیاست کا بیڑہ غرق کرنے کی نہ ٹھانیں، اگر محسوس ہو کہ کوئی فرد کسی کام میں مہارت رکھتا ہے یا بہتر طور پر کچھ کرنے کی سکت رکھتا ہے تو اسے آگے بڑھائیں، اس کے ساتھ تعاون کریں نہ کہ  اس کے اور اپنے قد کا موازنہ کرنے لگیں اور خود کو قدآور ثابت کرنے کے لیے کسی کو دبائیں، اسے دیوار سے لگانے کے لیے محلاتی سازشوں پر اتریں اور کوئی بھی اوچھا ہتھکنڈہ استعمال کرنے سے دریغ نہ کرتے۔

مزید یہ کہ ہر تنظیم کی اساس اس کا کارکن ہوتا ہے، کارکنان کی بدولت ہی کوئی بھی چھوٹی یا بڑی ، مختصر مدتی یا طویل مدتی سرگرمی اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرتی ہے اس لیے ذہن نشین رکھیں کہ  کام کے وقت جنھیں گدھوں کی طرح مختلف محاذوں پر جوتتے ہیں بعد میں انھی کی وفاداریوں پر شک نہیں کرتے۔

میں سیاسی لیڈران کی جگہ کارکنان کو عزت دینے کا خواہاں ہوں کیونکہ ہر ایک پارٹی کی بنیادی اکائی کارکن ہوتا ہے اور کارکنان کی معاشرے میں دوسرے افراد سے مراسم اور روابط سے آپ کو اپنے قافلے کے لیے نیا خون ملنے کی توقع ہوتی ہے۔

پارلیمانی الفاظ میں اپنی بحث سمیٹتے ہوئے میں یہی کہہ سکتا ہوں  کہ کارکنان کو جرات اظہار کا سلیقہ اور ہر ناپسندیدہ سرگرمی پر سوال کا طریقہ اپنانا چاہیئے۔

جواب چھوڑ دیں