اردو کا نفاذ اور معاشرہ

کوئی بھی قوم و ملک اس وقت تک حقیقی معنوں میں کامیابی و ترقی نہیں کر سکتے جب تک وہ اپنی قومی زبان کو زندگی کے ہر شعبہ میں لازم و ملزوم نہیں کر لیتے۔ ہر قوم کے رہن سہن، مزاج اور تہذیب اپنی مادری زبان سے اچھی طرح جڑے ہوتے ہیں،کہ جس کا ہرایک لفظ زبان سے اچھی طرح جھلکتا ہے۔اس لیے اپنی مادری قومی زبان کو چھوڑ کر اوروں کی زبان کا سہارا لینا اوران کی تہذیب کواپنانے کی کوشش کرنا اپنی سوچ اور افکار کو تبدیل کرنا ہے۔

بد قسمتی سے ہمارے وطن عزیز’’ اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ میں روز اوّل سے ہی غیروں کی زبان خصوصًا انگریزی کا سہارا لیا جا رہا ہے، اِسے غیر قانونی طور پر وطن عزیز میں نافذ کیا ہوا ہے اور پھر اسے اپنی ترقی و کامیابی کا راستہ بھی سمجھا ہوا ہے،جو کہ حقیقت میں بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دنیا میں بولی جانے والی مختلف دوسری زبانوں کو بطور ثا نوی زبان بولنا چاہیے نہ کہ مستقل اور اس سے کسی کو کچھ اختلاف اور انکار بھی نہیں ہے۔ جبکہ اپنی زبان کو اوّلین حیثیت دینی چاہیے کیونکہ اسی میں ہمارے وطن عزیز’’ پاکستان‘‘ کی شان و شوکت ہے، اسی میں کامیابی کا راز پنہاں ہے اور اسی کو اختیار کر کے وطن عزیز کے باصلاحیت افراد کے لیے تحقیق کے دروازے کھلتے ہیں۔

ہم نے انگریز سے آزادی تو حاصل کر لی مگر انگریزی زبان کی غلامی سے ہم آج بھی نہیں نکلے۔ قائداعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ کا فرمان واضح طور موجود ہے کہ ملک’’ پاکستان‘‘ کی سرکاری زبان اردو ہو گی۔ ہم پاکستانی باشندے ہیں لیکن اپنی قومی زبان اردو سے زیادہ انگریزی زبان کو ترجیح دے کر توہین قومی زبان کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ حالانکہ ہماری قومی زبان ایک دوسرے سے رابطہ اور ما فی الضمیر بیان کرنے کا ایک بہت بڑا اہم ذریعہ ہے۔اس لیے جب ملک پاکستان میں ہر سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں قومی زبان کو اختیار کیا جائے گا تو سب اداروں اور قوم کی ترقی دن بدن عروج پر جائے گی۔کیونکہ جو بھی کسی ادارے نے شرائط اور قوانین وغیرہ بنائے ہوتے ہیں وہ سمجھانے والا اچھے طریقے سے اپنا ما فی الضمیر بیان کر کے مخاطب کو سمجھا دیتا ہے اور مخاطب بھی بخوبی سمجھ جاتا ہے۔

میں نے معاشرے میں بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے کہ انہیں راستے میں جاتے ہوئے کسی جگہ سے کوئی انگریزی کا ورق ملا اور اس نے انگریزی جانتے ہوئے بھی سرسری سا اس کو دیکھا، بے معنی سمجھتے ہوئے پھینک دیا۔ ایسے ہی کئی لوگوں کو دیکھا کہ انہیں کہیںراستے میں یا کسی جگہ سے کوئی ورق ملا اور اس پر قومی زبان اردو میں کچھ لکھا ہوا ہے، تو اسے اس نے دل لگی سے پڑھنا شروع کر دیا اور پڑھ کر اس ورق کو پھینکا نہیں بلکہ مفید سمجھتے ہوئے اچھے طریقے سے لپیٹ کر اپنی جیب میں ڈال لیا۔

ان دو لوگوں کے مختلف رویوں کو دیکھ کر نفاذ اردو کی ضرورت اور اہمیت کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ ہمارے پاکستانی قوم کی علم تک آسانی سے رسائی بھی عملی طور پر نفاذ اردو سے ہی ہے۔اپنی زبان رائج ہو تومعاشرے میں بسنے والے ہر خاص و عام تک پیغامات پہنچانے میں آسانی ہوجاتی ہے ، لیکن جب اس کے برعکس ہوتوپڑھنے میں بھی دشواری اور سمجھنے میں بھی دشواری رہتی ہے۔ اسی طرح اکثر کسی دفاتر میں جانے یا بنک وغیرہ میں جانا ہوتا ہے، تو وہاں جو کوئی پمفلٹ ہوتا ہے یا بنک میںسلپ پُر کرنی ہوتی ہے تو اکثر ایسے افراد آتے ہیں جو سلپ پر انگلش درج کی ہوئی دیکھ کر خودپڑھ بھی نہیں پاتے اور اسے پُر بھی نہیں کر پاتے وغیرہ ..۔

بہرحال اس بات کا بھی بالکل انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انگریزی زبان کی بھی معاشرے میں بہت اہمیت و ضرورت ہے اور وقت کی پکار بھی، لیکن اس کی آڑ میں اپنی قومی زبان ’’اردو‘‘ کو پس پشت ڈال کر بے رُخی اور یتیم نہ کیا جائے۔آج معاشرے میں یہی اہم ضرورت ہے کہ اپنے حلقہ و احباب میںبھرپور طریقے سے اپنے اپنے انداز میں نفاذ اردو کے لیے بھرپور کوشش کی جائے اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ کے فرمان کو عملی جامہ پہنا یا جائے ۔

حصہ
mm
امیر حمزہ بن محمد سرور سانگلہ ہل ضلع ننکانہ کے رہائشی ہیں۔انہوں نے عربی اور اسلامیات میں ماسٹرز کیا ہے۔ سانگلہ ہل کے نواحی گاؤں علی آباد چک نمبر112میں مستقل رہائش پذیر ہیں ۔ان دنوں فیصل آبادمیں ایک رفاہی ادارے کے ساتھ منسلک ہیں، ان کے کالمز روز نامہ’’ امن ‘‘ روزنامہ’’ قوت‘‘روز نامہ’’ سماء‘‘ روزنامہ’’حریف‘‘ میں شایع ہوتے ہیں۔اپنے نام کی مناسبت سے ’’امیرقلم ‘‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں۔ ماہ نامہ’’ علم وآگہی ‘‘اوراسی طرح دیگردینی رسائل وجرائدمیں مختلف موضوعات پرمضامین سپردقلم کرتے رہتے ہیں۔انہوں نے نیشنل لیول پرکئی ایک تحریری مقابلہ جات میں حصہ لیااورنمایاں پوزیشنیں حاصل کیں ۔شعبہ صحافت سے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں ۔ ای میل:hh220635@gmail.com

جواب چھوڑ دیں