تمام تر وسائل کی دستیابی، ٹیکنالوجی کی وجہ سے ابلاغ کے زرائع بالخصوص سوشل میڈیا تک ہر فرد کی رسائی اور معلومات تک رسائی آج کے دور میں جتنی آسان ہے اس سے پہلے کبھی بھی نہیں رہی۔ ہم میں سے کسی بھی فرد کے لیے ایک بڑے حلقے تک اپنی بات پہچانا خود اس کے ہاتھ میں موجود موبائل اور اس کی انگلیوں کی ذرا سی جنبش سے ممکن ہو چلا ہے۔ ابلاغ کے اس دور نے جہاں تحریک کے کارکنان کے لیے اپنی دعوت اور پروگرامات کی ترویج کے وسیع تر مواقع فراہم کیے ہیں وہیں اس بات کا اندیشہ بھی دو چند ہو چلا ہے کہ کہیں موجودہ دور کی کم نظر سیاست، ایک دوسرے پر بلاتحقیق الزامات کی بوچھاڑ، انتہائی سطحی موضوعات پر مباحثوں ، بے معنی مسائل پر طبع آزمائی اور خود اپنی انا کی تسکین کے لیے لکھتے چلے جانے کی ریت میں ہمارے کارکنان بھی نہ رنگ جائیں اور بدقسمتی سے ایسا نہ ہو کہ تحریک اسلامی سے وابستہ افراد اور اپنی زندگیاں اللہ کی راہ میں وقف کرنے والے کارکنان خود اپنا انفرادی اور قابل رشک تشخص ہی نہ کھو بیٹھیں۔ اس لیے ضرورت محسوس کی جارہی ہے صاحبان فکر اس موضوع پر گاہے بگاہے رہایٹئی فراہم کرتے رہا کریں کہ سوشل میڈیا کے سمندر میں تیرتے ہوئے اس میں موجود غلاظت سے کیسے خود کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے کہ ہر آن نظر منزل پر مرتکز رہے، وہ منزل کہ جس کے بارے میں خود سید ابوالاعلی مودودی رحمتہ اللہ علیہ دینیات میں فرماتے ہیں کہ ‘مسلمان دنیا میں اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ حسن اخلاق، شرافت اور نیکی کا بہترین نمونہ بنے اور اپنے اصولوں سے دلوں کو تسخیر کرے’۔ واضح رہے کہ دلوں کی تسخیر بذات خود کوئی مقصد یا نسب العین نہیں بلکہ یہ اس طویل تر جدوجہد کا ایک زینہ ہے جس کی وضاحت سید قطب شہید رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ‘جادہ و منزل’ میں کیا خوب الفاظ میں کی ہے کہ ‘اسلام صرف عقیدہ و فکر کا نام نہیں کہ وہ دلوں تک محض وعظ و بیان کے ذریعے اپنا پیغام پہنچانے پر اکتفا کرلے۔ اسلام ایک طریق زندگی ہے جو منظم تحریک کی صورت میں انسانی آزادی کے لیے عملی اقدام کرتا ہے۔’ جبکہ مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ اس بحث کا منطقی انجام بیان کرتے ہوئے’تحریک اسلامی کا آئندہ کالائحہ عمل میں سخن دراز ہوتے ہیں کہ’ اسلام محض ایک مذہب نہیں جو دوسرے مذاہب کی طرح ہر نظام زندگی کے اندر رہ سکتا ہو بلکہ وہ ایک پورا نظام زندگی ہے جو تمام شعبہ حیات پر اپنا تسلط چاہتا ہے’
بالکل ایسے ہی جیسے اسلام ہر نظام زندگی کے اندر سموئے جانے کے لیے نہیں کہ اس کی ایک مکمل اور جداگانہ شناخت ہے، ویسے ہی اس کے نفاذ اور قیام کے علمبرداروں کی بھی ہر محاذ پر اپنی ایک شناخت ہونی ضروری ہے کجا یہ کہ وہ کسی اور کے رنگ میں رنگے رہیں۔
اس لیے سوشل میڈیا پر متحرک افراد درج ذیل اور اس نوعیت کی دیگر باتوں کو لازماً ملحوظ خاطر رکھیں-
دوسرے افراد کی ذات پر حملوں سے گریز:
سوشل میڈیا پر متحرک کارکنان کی ہداہت و رہنمائی کے لیے سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ کسی بھی دوسری جماعت کا عام کارکن بھی حکمرانوں کی عوام دشمن پالیسیز سے اتنا ہی متاثر ہوتا ہے جتنا کہ تحریک اسلامی کے کارکنان، کوئی بعید نہیں کہ وہ اپنی قیادت سے مایوس ہوکر کبھی کسی وقت آپ کے ہمنوا بنیں اس لیے حکمرانوں کی پالیسیز اور ان کی نااہلی پر تنقید کرتے وقت کبھی بھی کسی دوسرے سیاسی کارکن کی ذات کو تنقید کا نشانہ نہ بنائیں بلکہ بہتر ہوگا کہ ایسے انداز گفتگو کو اختیار کیا جائے کہ آپ کا مخالف بھی حکمرانوں پر تنقید کو اپنے حالات کی عکاسی اور اپنے جذبات کی ترجمانی سمجھے
فرقہ وارانہ موضوعات پر طبع آزمائی سے اجتناب:
سید مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ پوری زندگی مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کے لیے سرگرداں رہے اور اس پر اتنے یکسو رہے کہ خود پر لگنے والے بے بنیاد الزامات کی صفائی تک پیش کرنے سے گریزاں رہے۔ سوشل میڈیا پر موجود کئی گھاٹیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اپنے مسلک کو بلند تر ثابت کرتے ہوئے دوسروں کو رگیدا جائے، بہتر ہوگا کہ کارکنان جماعت اسلامی سید کی پیروی کرتے ہوئے خود کو اس لاحاصل اور خلیجیں بڑھانے والی بحث سے دور رکھیں۔
مقصدیت:
سوشل میڈیا کے متعدد پلیٹ فارمز نے آج کے نوجوانوں کو اس درجہ گلیمرائز کیا ہے کہ ان کی زندگی مقصدیت سے خالی ہوتی چلی جارہی ہے۔ کارکنان کو کچھ بھی لکھنے، پوسٹ کرنے یا تبصرہ کرتے وقت اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہیئے کہ ان کے عمل میں مقصدیت کا عنصر کس حد تک موجود ہے کہ یہی ایک مومن کی شان اور خود سید مودودی واحب کی زندگی کا خاصہ رہا ہے۔
الفاظ کا انتخاب:
کسی مناسب بات کے لیے بھی اگر سستے الفاظ چنے جائیں تو بات کی اثرپزیری کم ہوجاتی ہے اس لیے تفریح طبع یا دوسروں کی دیکھا دیکھی نامناسب الفاظ استعمال کرنے سے شعوری طور پر بچا جانا چاہئیے اور اپنی بات قطعیت کے ساتھ پیش کرنے کے لیے ہمیشہ مناسب الفاظ منتخب کرنے چاہئیں۔
ہر مظلوم کی بلا امتیاز حمایت و داد رسی:
آج کے دور میں انٹرنیٹ کی بدولت لوگوں کے مابین فاصلے جتنے کم ہوئے ہیں، ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی یہی وجہ ہے کہ اب یہ ممکن نہیں رہا کہ ہم اپنے دکھوں پر تو دنیا سے ہمدردی چاہیں اور دوسروں کے دکھوں کو اس وجہ سے نظر انداز کرتے پھریں کہ اس کا تعلق نجانے کس سے ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ہر وقوعے کو ایک ہی اڈول پر پرکھیں کہ ظالم کون اور مظلوم کون ہے اور اصولی مؤقف اختیار کرتے ہوئے مظلوم کی دادرسی کریں اور اس کے ساتھ انصاف اور قانون کے مطابق برتاؤ اختیار کرنے پر زور دیں ، اس کی ایک مثال ماورائے عدالت ریاستی قتل اور افراد کی جبری گمشدگی ہو سکتی ہے۔
عوامی مسائل کی نشاندہی:
ہم جس سماج میں رہتے ہیں وہاں قدم قدم پر مسائل بکھرے پڑے ہوتے ہیں، ہمارے لیے از حد ضروری ہے کہ لوگوں سے مؤثر رابطہ کاری اور ان کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے ہم نہ صرف ان کے مسائل اجاگر کرتے رہیں بلکہ ان کے حل کے لیے بھی مؤثر تجاویز دیتے رہنے کے ساتھ عملی اقدامات میں بھی کریں۔
اپنی غلطیوں کا اعتراف اور محاسبہ:
ہم یا ہمارے ساتھیوں سے اگر کوئی غلطی سرذد ہوجائے تو وقتی مفاد کے لیے اس کا دفاع کرنے کے بجائے ہمیں اپنا محاسبہ کرکے غلطی تسلیم کرلینی چاہئیے اور اس کے اصلاح کے لیے قدم اٹھانا چاہئیے۔
بلاوجہ کی نکتہ چینی سے گریز:
باطل قوتوں کی سرکوبی اور ان کے پالیسی سازوں کی بھر پھور مخالفت کے ساتھ ہمیں یہ پہلو سامنے رکھنا چاہئیے کہ اگر ہمارے گردوپیش کا کوئی فرد ان کے سحر میں مبتلا ہے تو اس کی ذہنی سطح یا کم نظری پر ایسا کچھ نہ کہیں جس سے وہ خود ہماری ذات سے بدگمان ہو یا انانیت کی وجہ سے اپنے باطل نظریات پر مزید ڈٹتا چلا جائے۔
مطالعے کا ذوق:
تحریک اسلامی کے کارکنان کو ہر حال میں کتاب دوست، اسلامی تاریخ، فقہی مسائل، قرآن اور احادیث سے واقف اور اپنے لٹریچر سے آگاہ رہنا چاہئیے، ضروری ہے کہ مطالع کی دم توڑتی دنیا میں ہم خود بھی مطالعے کی عادت بڑھائیں اور اپنے کارکنان کو بھی اس کی ترغیب دیں تا کہ ہر محاذ پر ہم جو بھی کہیں مدلل انداز میں کہیں۔
حق کی دعوت ببانگ دہل:
حق بات کے اظہار میں کوئی جھجھک ، کوئی عار نہ آنے پائے اور ہم بلند آہنگ کے ساتھ ہی حق کی دعوت دیتے رہا کریں جو بلاشبہ خود سید ابوالاعلی مودودی صاحب کے الفاظ میں یہ ہے کہ ‘ہم جب اقامت دین کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے ہمارا مطلب محض مسجدوں میں دین قائم کرنایا چند مذہبی عقائد یا اخلاقی احکام کی تبلیغ کردینا نہیں ہوتا بلکہ اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ گھر اور مسجد، کالج اور منڈی، تھانے اور چھاونی، ہائیکورٹ اور پارلیمنٹ،ایوان وزارت اور سفارت خانے سب پر اسی ایک خدا کا دین قائم کیا جائے جس کو ہم نے اپنا رب اور معبود تسلیم کیا ہے۔ (سید مودودی، تحریک اور کارکن)