جےآئی ٹی،ایس او پی اور نظام عدل

سب سے پہلے تو اپنی قومی زبان میں SOP اور JIT کا مطلب سمجھانا اپنافرض سمجھتا ہوں۔ کسی کام کو سرانجام دینے کا ایک میعاری طریقہ کارمرتب کرنے کو انگریزی زبان میں Standard Operating Procedure یعنی SOP کہتے ہیں، اسی طرح سے کسی رونما ہونے والے واقع یا حادثے کی منصفانہ اور شفاف جانچ پڑتال کیلئے مختلف اداروں پر مشتمل مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنائی جاتی ہے جسے انگریزی میں Joint Investigation Team یعنی کہ JIT کہا جاتا ہے۔

ہم پاکستانیوں کی سہل پسندعادت کی بدولت باآسانی کسی بھی زبان کے الفاظ کو اردو کے رنگ میں ڈھال کے اسکا حصہ ہی بنا کر چھوڑدیتے ہیں یہ جانے بغیر کے کیا ہماری قومی زبان میں ان الفاظ کر ترجمہ موجود ہے کہ نہیں۔ سونے پر سوہاگا ہمارے ارباب اختیارجو قومی زبان کو اہمیت دینے سے قاصر رہے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ ہم پاکستانی ان ناموں کو اصطلاحی طور پر تو سمجھ گئے ہوں لیکن قومی زبان میں آگہی پہنچانا ہم نے اپنا فرض سمجھا ہے۔

جیسا کہ کورونا کی وجہ سے لفظ SOP بہت زیادہ استعمال کیا جارہا ہے جس میں سب سے اہم ترین SOP اور سب سے کارگر احتیاطیں ایک دوسرے سے مصافہ نا کرنا،بار بار ہاتھ دھونا یا سینیٹائزر کا استعمال کرنا، چھینک آئے تو منہ کو ڈھانپنا، ماسک پہننا یعنی جب باہر نکلیں یا ایک سے زیادہ افراد کی موجودگی ہو تو ناک اور منہ کو ڈھنپیں رکھیں، ایک دوسرے سے تقریباً تین فٹ کا فاصلہ رکھیں اور غیر ضروری طور پر باہر نا نکلیں۔ اس بنیادی SOP پر عمل درآمد کیلئے مخصوص اوقات کار طے کئے گئے کہ کتنے بجے سے کتنے بجے تک گھر سے ضرورت کے مطابق باہر نکلا جاسکتا ہے۔ SOP کو نافذ العمل بنانے کیلئے قانون کو بھی بھرپور حرکت میں لایا گیا اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ایک بار پھر عوام میں آگہی پہنچانے اور ساتھ ساتھ دیگر کاموں میں بھی ہر اول دستے کے طور پر سامنے آئے۔

موجودہ حالات میں سب سے اہم کردار ادا کرنے والے  طب کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں، یہ وہ مجاہدین ہیں جو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبہاتے ہوئے اگر اپنی زندگی ہار بیٹھیں تو انہیں شھید کا درجہ دیا جائے گا۔ کورونا کی مرہون منت تقریباً ہر شعبہ ہائے زندگی کیلئے SOP تیار کی گئیں ہیں (یہ اور بات ہے کہ ان پر کہاں تک عمل کیا جارہا ہے)، ان SOP کی بدولت سنگین حالات کو کسی حد تک عام کیا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ SOP جوکہ آنے والے وقتوں میں بھی مختلف معاملات سے نبرد آزما ہونے کیلئے بھی ترتیب پاتے رہیں گے اور امید کی جاتی ہے اس طریقے SOP سے عوام میں معاشرتی شعور بھی اجاگر ہوگا۔

آئیں JIT کو جتنا سمجھتے ہیں اس میں کچھ اضافہ کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں اورہم صرف ان تین الفا ظ کے مرکب پر بات کرینگے۔ جیسا مذکورہ بالا سطور میں یہ تو واضح کردیا گیا ہے کہ کسی رونما ہونے والے واقع یا حادثے پر منصفانہ اور شفاف جانچ پڑتال کرنے کی JIT تشکیل دی جاتی ہے۔ JITکی تشکیل واقع یا حادثے کی نوعیت پر منحصر ہوتی ہے۔پچھلے زمانوں میں جب تکنیکی صلاحتیں محدود تھیں اور لوگ جیب میں موبائل کی صورت مکمل تحقیقاتی آلہ لئے نہیں گھومتے تھے اور نا ہی جگہ جگہ حفاظتی کیمرے نصب ہوتے تھے اور لوگوں کے پاس کرنے کیلئے اور بہت سارے کام بھی ہوتے تھے، تب کچھ مخصوص لوگ کسی بڑے حادثے یا سانحے کے کچھ عرصے کے بعد انکشافات کیا کرتے تھے، یہ انکشافات کتابی صورت میں ہوتے تھے یا پھر کسی ادارے کو دئے گئے انٹرویو کی بدولت عام ہوتے تھے لیکن تب تک سارا معاملہ ٹھنڈا ترین ہوچکا ہوتا تھا اور لوگ صرف جان کاری کیلئے پڑھ یا دیکھ لیتے تھے اور بہت ہی قلیل وقت میں یہ سب تاریخ کا حصہ بن جاتا تھا۔

JITملک کے نامی گرامی شخصیات سے تحقیقات کیلئے بنتی رہی ہیں اور افسوس اس بات کا ہے کہ JIT تو غائب ہوجاتی ہے(تحریر بھی اور تحریر کرنے والے بھی) لیکن وہ قابل قد ر شخصیات اور بااثر ہوکر منظر عام پر ہی رہتے ہیں۔گو کہ JIT ایک اچھا اقدام ہے لیکن کیا ابتک کسی JIT پر عمل درآمد ہوا ہے؟کیا آجتک بننے والی JITبغیر کسی تنقید کے من و عن تسلیم کر لی گئی ہے؟ کیا JIT میں شامل لوگوں پر سوال نہیں اٹھائے گئے؟اور بھلا کیا JIT کی اہمیت سے قانون کی بالادستی کو تقویت میلی ہے؟کیا JIT ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر سوالیہ نشان نہیں ہے؟یہ وہ سوالات جو جب کبھی بھی JIT کاکے الفاظ پڑھے جاتے ہیں تو ہم پاکستانیوں کے کانوں میں سرگوشیاں کرتے ہیں۔ نا چاہتے ہوئے بھی JIT کی ادھیڑ بن میں چلے گئے۔ ہماری سیاست کا یہ ایک جدید جز ہے کہ پاکستانیوں کو کسی نا کسی اصطلاح میں الجھائے رکھا جائے۔

حالات کی سنگینی دیکھئے کہ ملک کے مختلف شہروں سے راایجنسی کے ہر کارے بھی پکڑے جا رہے ہیں لیکن ہمارے سیاست دان وہ کام سرانجام دینے پر تلے ہوئے ہیں کہ جو ان ہرکاروں کے بس میں نہیں ہوتا۔ کوئی ان سیاسی بازیگروں سے یہ سوال کیوں نہیں کرتا کہ آپ جس چیز پر تنقید کر رہے ہیں بھلا کیا آپکے دور میں اللہ واسطے مل جایا کرتی تھی یا عوام نے آپ کے دور میں کبھی سکھ کا سانس لیا تھا۔ ہمیشہ ہی تین ماہ یا چھ ماہ میں حکومت کے خاتمے کی باتیں ہوتی رہی ہیں لیکن جیسے تیسے وقت پورا ہو ہی جاتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ موجودہ ٹوٹی پھوٹی مخالف جماعتوں پر مبنی اپوزیشن کسی خوف میں مبتلاء ہو اور اپنے ڈر سے باہر نکلنے کی کوششوں میں موجودہ حکومت پر بس تنقید کے نشتر پھینکے جا رہی ہے اور حکومت کی دفاعی لکیر اتنی مضبوط ہے کہ ایوان مراد سعید کے کھڑے ہوتے ہی تقریباً مخالفت کا زہر اگلنے والے الٹے پیر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔

صورتحال کی سنگینی ہمیشہ تلخ سے تلخ ہی ہوتی رہی ہے، جسکی وجہ سے اونٹ کو کسی کروٹ بیٹھنے ہی نہیں دیا گیالیکن اب کی بار اونٹ نے بیٹھنے کی ٹھان لی ہے جس کیلئے غالب گمان ہے کہ تمام طرح سے غیی امداد بھی کی جارہی ہے، یہ غیبی امداد کی بدولت ہی ممکن ہے کہ بڑے بڑے زور آور اپنے ہاتھ پاؤں پکڑے بیٹھے ہیں اور کچھ اس امید پر ہیں کہ شائد ہواؤں کا رخ بدل جائے جوکہ اب ممکن نہیں دیکھائی دے رہا کیوں کہ ہر کھلاڑی اگلے قدم پر کھیلتا دیکھائی دے رہا ہے (یعنی جارحانہ اندازسے)۔حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے اپنا مکمل دھیان ملک کی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے میں مبذول کر رکھا ہے، جسکا ایک اور منہ بولتا ثبوت ایک دیرینہ ڈیم کا افتتاح ہے۔ اپنے مضمون کے عنوان کے تیسرے حصے پر مختصراً یہ لکھنا چاہونگا کہ اگر ہمارے ملک کا نظام عدل صحیح معنوں میں کام کرنا شروع کردے تو مذکورہ اور پوشیدہ تمام مسائل بغیر دیکھے ہی حل ہوجائینگے اور ہم جیسے لکھنے والوں کیلئے سوائے چین کی بانسری بجانے کہ اور کچھ نہیں بچے گا۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں