بھارت میں مسلمان بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں اور اندازے کے مطابق اگر مردم شماری میں ہیر پھیر نہ کیا جائے تو یقیناً یہ تعداد پاکستان کی مسلم آبادی سے بھی زیادہ ہے لیکن وہ وہاں پر مقہورو مجبور ہیں ان کی نہ سیاسی سطح پر کوئی حیثیت ہے نہ ہی انتظامی لحاظ سے ۔ رہی بات حقوق کی تو ہندوتوا کے کنٹرول کے بعد تو جانوروں سے بھی بدتر حالات کا سامنا ہے، انہی خدشات کے پیش نظر قائداعظم اور انکے ساتھیوں نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ ریاست کا مطالبہ کیا جسے اللہ سبحان و تعالیٰ نے قبولیت بخشی لیکن جلد ہی چند مفادپرستوں نے پاکستان کے وجود کی وجہ جواز کو انانیت، علاقائیت، لسانیت کے ذریعے ذاتی مفاد کی بھینٹ چڑھادیا اور اس کے کڑوے ثمرات کو سانحہ 1971 کی صورت نگلنے پہ مجبور بھی ہوے۔
لیکن اس کے باوجود بھی سبق حاصل کرنا تو دور احساس تک نہ ہوا کہ کتنی قربانیوں کے بعد جو عمارت کھڑی کی تھی وہ پل بھر میں ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھا دی گئی اور ”گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں” کے مصداق جو گزر گیا وہ کسی اعتبار سے بھی ہماری دسترس میں نہیں، لیکن ماضی کے تجربات سے منفی و مثبت پہلو ضرور معلوم ہوتے ہیں کہ کس طرح 60 کی دہائی میں تیزی سے ترقی کرتا پاکستان پیچھے کی جانب دھکیلا گیا اور کون سے وہ عوامل تھے جن کی بنیاد پہ مشرقی پاکستان کی عوام کو آسانی سے ورغلایا گیا، دوسری طرف مغربی پاکستان یعنی موجودہ پاکستان کو کمزور سے کمزور تر کیا جاتا رہا، ساٹھ کی دہائی میں پاکستان اور جنوبی کوریا نے ایک ساتھ سفر شروع کیا، آج وہ کہاں پہنچ گئے اور ہم ابتک غداری کی حقیقی تعریف کا تعین نہیں کرپائے۔
1961 میں جنوبی کوریا میں پرک چنگ ہی نے مارشل لاء لگایا تو پاکستان کی پالیسیوں کو نافذ کیا اور آج وہاں نہ تو فیوڈل سسٹم ہے نہ کوئی الیکٹیبل، ایوب خان کی بہترین پالیسی کے نتیجے میں پاکستان 1965 تک تمام مشرقی ایشیائی ریاستوں سے آگے جارہا تھا، جاپان سے بہتر مزدوری، اجرت اور روزگار کے زیادہ مواقع تھے، دنیا کی تیزی سے بڑھتی معیشت تھی، بھارت سے 6 گنا چھوٹا ہونے کے باوجود صنعتی ترقی بھارت سے چھ گنا زیادہ تھی، زرعی ترقی میں غیرمعمولی اضافہ ہوا اور اینرجی کی بہتات ہوگئی۔ بھارت سے یہ برداشت نہ ہوا تو 1965 میں رات کی تاریکی میں دھوکے سے حملہ کردیا تو جواباً پاک فوج نے دشمن کا غرور خاک میں ملادیا اور اپنے سے کئی گنا طاقتور دشمن کو دھول چٹاکر ایک بار پھر طارق بن زیاد کے لشکر ایسی تاریخ رقم کردی۔
لیکن افسوس کہ جو جنگ ہمارے جوانوں نے اپنے سینے پیش کرکے میدان میں جیتی وہ جنگ ہم نے مشرقی و مغربی پاکستان کے شہروں، دیہاتوں، چوک و چوراہوں پہ ہار دی، اقوام کی تاریخ کھنگال لیں جب کسی قوم پر بیرونی دشمن حملہ آور ہوتا ہے تو پوری قوم ایک ہوکر مقابلہ کرتی ہے ایسا پاکستانیوں نے بھی کیا 48 کی جنگ ہو یا 65 کی، غیور قبائل ہوں یا اہلیان پنجاب، سندھ میں حر رضاکار ہوں یا مہاجرین و بلوچ یا پھر مشرقی پاکستان کے بنگالی بھائی سب ایک جسم ایک جان نظر آئے، نہ کوئی لسانیت تھی نہ علاقائی نفرت بس ایک ہی رشتہ تھا ”لاالہٰ الااللہ” اور مشترکہ دشمن بھارت تھا لیکن افسوس کہ 65 کی جنگ میں فتح کو اندرون ملک بار بار شکست میں بدلا گیا، کبھی شیخ مجیب کے پروپیگنڈوں کی صورت کہ مشرقی پاکستان کو صدر ایوب نے بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور موقع غنیمت جان کر جھٹ سے چھ نکات پیش کردئیے جس میں متنازعہ ترین علیحدہ فوج علیحدہ دفاعی یونٹ بنانے کا مطالبہ تھا۔
نوزائیدہ ریاست تھی اور شروع سے ہی بیرونی سازشوں و نیشنلزم کی آڑ میں اندرونی عدم استحکام پیدا کرنے والوں سے سابقہ اور پھر کمزور معیشت ہو تو ایک حد تک ہی فوج و دفاعی سازوسامان ہوسکتا ہے، لیکن بدنیت لوگوں کو تو فقط موقع کی تلاش ہوتی ہے، رضاکارانہ طور پر تو غیور قبائلی بھی لڑے آزاد کشمیر و گلگت بلتستان آزاد کروانے میں اہم کردار ادا کیا، اس کے علاوہ سندھ میں حُر رضاکار اور اہلیان پنجاب، بلوچ، مہاجرین فوج کے شانہ بشانہ دشمن کے مقابلے میں پیش پیش رہے لیکن شیخ مجیب نے بنگالیوں کی مجاہدانہ خدمات کو بھی منفی رنگ دیا اور کون ہے جو نہیں جانتا کہ کوئی بھی ریاست ہو جنگ کے بعد معاشی طور پر مشکلات کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے بالکل ایسا ہی پاکستان کے ساتھ ہوا لیکن جمہوریت کے علمبرداروں کے کیا کہنے جب ملک اور قوم کو اتحاد و صبر کی ضرورت تھی تو موقع پرستوں نے موقع سے فائدہ اٹھاکر میدان میں حاصل کی گئی فتح کو گلیوں، چوک چوراہوں میں جاکر تار تار کردیا۔
عارضی معاشی مشکل صورتحال کو پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کیا جانے لگا، شدید سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی رہی جبکہ دوسری طرف پڑوسی ملک میں نوبت یہاں تک آگئی تھی کہ لال بہادر شاستری کشکول ہاتھ میں لیکر اپنی عوام کے سامنے جانا پڑا، وہاں کوئی روٹی کپڑے کے نعرے کے ساتھ شاستری کے مقابل نہ آیا، وہاں بلا تفریق رنگ نسل مذہب سب ریاستی استحکام کے لیے ایک پیج پر آگئے، آج بھی نظام کے 55 ہزار کلو سونے کی امداد پر شاستری کا شکریہ کا لیٹر اس بات کا گواہ ہے کہ جنگ کے بعد معاشی مشکلات بھارت کے حصے میں بھی آئیں حالانکہ وہ پاکستان سے کئی گنا زیادہ طاقتور تھا لیکن وہاں کسی نے شاستری کو مورد الزام نہ ٹھہرایا کہ اس کی پالیسیوں کی وجہ سے دولت چند ہاتھوں میں آگئی، بھارت میں اس وقت آدھی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے جی رہی تھی لیکن وہاں کسی طرف سے یہ بات دیکھنے میں نہیں آئی جس طرح کہا گیا کہ مشرقی پاکستان کے ساتھ ناروا سلوک ہے۔
موقع پرستوں کی ریشہ دوانیوں اور سیاسی عدم استحکام و انفارمیشن وار کے نتیجے میں 1971 کی جنگ میں مشرقی پاکستان کو کھونا پڑا۔ نائن الیون کے بعد جو جنگ پاکستان پر مسلط کی گئی بفضل اللہ ملکی سلامتی کے اداروں نے جان پر کھیل کر داخلی سطح پر دہشتگردوں کا صفایا کیا اور بیرونی محاذ میں پاکستان کو تنہا کرنے کے خواب دیکھنے والے آج خود تنہائی کی لپیٹ میں ہیں، ایسے میں جب پاکستان جنگ کی لعنت سے آزاد ہورہا ہے تو قوم کو باہمی اتحاد کی اشد ضرورت ہے تو اسی انداز سے بے بنیاد جھوٹے پروپیگنڈوں و زہرافشانی کے زریعے ملکی سلامتی کے اداروں پر مکروہ یلغار جاری ہے کبھی کہا جاتا ہے کہ ملک کا 80 فیصد بجٹ دفاع پہ خرچ ہورہا ہے لیکن اعداد و شمار دیکھیں تو یہ حقیقت سے ہزاروں نہیں لاکھوں کوس دور ہے۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد زیادہ تر شعبے صوبائی تحویل میں چلے گئے اس لیے وفاقی بجٹ کا حجم بھی کم ہوگیا، اس سال کا کل وفاقی بجٹ 7137 ارب جبکہ صوبائی سطح پر پنجاب کا بجٹ 2240 ارب، سندھ کا 1224 ارب، کے پی کے کا 923 ارب اور بلوچستان کا 465 ارب جوکہ کل ملاکر 11989 ارب بنتے ہیں اور دفاعی بجٹ کے لیے 1200 ارب رکھے گئے ہیں جوکہ تقریباً 10 فیصد بنتا ہے۔ اسی طرح جب سے جعلی ڈگریوں، سیاسی و سفارشی بھرتیوں، سیاسی ٹرانسفر پوسٹنگز کے خلاف ریاست کی پالیسی سامنے آئی ہے اور میرٹ کا راستہ اختیار کیا جارہا ہے تو اچانک سے ایک مخلوق نے جرنیلوں پر تنقید شروع کردی ہے کبھی کہتے ہیں کہ فوجی جرنیل ریٹائرمنٹ کے بعد باہر کیوں چلے جاتے ہیں اور کبھی کہتے ہیں کہ سویلین محکموں میں کیوں لگایا جاتا ہے؟
ہر ذی شعور جانتا ہے کہ جرنیل خواہ کسی بھی قوم کی سپاہ سے ہو اس کی بصیرت و قدر قیمت ایک عام آدمی سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ امریکہ، برطانیہ، بھارت، فرانس ودیگر ممالک میں ریٹائر جرنیلوں کو بطوراثاثہ سمجھ کر اہم حکومتی عہدوں یا تھنک ٹینک یعنی پالیسی ساز اداروں یا پھر اسٹرٹیجک نوعیت کے عہدوں پر رکھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ قومیں ترقی پر ہیں جبکہ ہمارے ہاں اگر کسی کو اسٹرٹیجک عہدے پہ تعینات کردیا جائے تو پروپیگنڈے شروع اور اگر کوئی جرنیل باہر چلا جائے تو بھی معاف نہیں، جب ملک میں قدر نہیں کی جائیگی تو باہر تو جائینگے ہی اور باہر ان کی قدر و قیمت کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ ایک ایک لیکچر کے انہیں لاکھوں ڈالرز ملتے ہیں۔
ظاہر ہے کچھ بات ہے تب ہی تو ایک آدھ گھنٹے کے لیکچر کے اتنے پیسے دیتے ہیں،ذرا سوچئے کہ ایک ہم ہیں جو قانون سازی کے لیے ان لوگوں کو منتخب کرکے اسمبلی بھیجتے ہیں جنہیں انگریزی تک پڑھنی نہیں آتی، جنہیں انگریزی تک پڑھنا نہ آتی ہو وہ قانون سازی کیا کرینگے اور رہی بات پالیسی کی تو پالیسی کیسی مرتب کرینگے؟ اسی لیے اسٹرٹیجک نوعیت کی پوزیشنوں پر مخصوص افراد کو تعینات کیا جاتا ہے خواہ وہ جرنیل ہو یا کوئی سویلین۔ آخر میں بس اتنا کہ بحیثیت مجموعی ہمیں پروپیگنڈہ بریگیڈ کو شکست دیکر ملکی استحکام میں حصہ ڈالنا چاہئے۔
well elaborated
مفصل سیاق کے ساتھ
خوب
اگلی دفعہ سباق بھی ضرور دیجیئے