فروری کے آخر میں اسکول بند کر دیے گئے ۔ بعد ازاں اس بندش کو یکم جون تک موسم گرما کی تعطیلات کا نام دے دیا گیا تاہم یکم جون کو کرونا کیسز میں اضافہ کی وجہ سے اسکول نہیں کھل سکے اور وفاقی وزیر صاحب نے ستمبر کے وسط تک اسکول بند کرنے کا اعلان کیا۔ یکم جون سے نجی اسکولوں نے اپنے طور پر آن لائن ایجوکیشن کے مختلف ماڈل اپناۓ ہیں کیونکہ بہ حیثیت قوم ہمارا مزاج یہ ہے کہ ہم ہنگامی اور عارضی بنیادوں پر کام کرتے ہیں اس لیے پہلے سے کوئی تیاری نہیں تھی۔
حکومت کی طرف سے کسی قسم کی نہ تو انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنانے تکنیکی سہولت اور نہ ہی کوئ معاشی مدد فراہم کی گئی ۔ اس لیے آن لائن ایجوکیشن سے نابلد اساتذہ اور طلبہ کو اس نطام سے آشنا کرنے میں مختلف قسم کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ جس میں ٹکنالوجی کا استعمال ، لرننگ منیجمنٹ سسٹم سے آگاہی اور اس کا استعمال، انگریزی زبان کی مہارت، انٹرنیٹ اور بجلی کی بلا تعطل فراہمی ، گھروں میں آن لاین ایجوکیشن کے لیے ضروری ڈیوایسز ، بجلی اور انٹر نیٹ کی موجودگی وغیرہ شامل ہیں –
سب بڑا مسئلہ والدین اور اساتذہ دونوں کو ذہنی طور پر آمادہ کرنا ہے کہ یہ نظام واقعی ڈیجیٹل عہد کے بچوں کی قابلیت اور رجحانا ت کے عین مطابق ہےاور ہمارے بچے اتنےاسمارٹ ہیں کہ وہ اس نظام میں اپنی صلاحیتیں کا مظاہرہ روایتی نظام تعلیم سے بہتر کرسکتے ہیں- والدین اور اساتذہ کی اکثیریت روایتی طرز تعلیم کی پروردہ اور میکانی عہد کا ذہن رکھتی ہے اس لیے وہ ٹکنالوجی بیسڈ نظام کی افادیت کو قبول نہیں کر پارہے ہیں۔
اس تمام صورتحال میں اساتزہ کی اپنی تدریسی مہارت ، نفس مضمون پر عبور، اعتماد کے ساتھ ابلاغ کی صلاحیت کا بھرم بھی کھل گیا ہے اسی لیے بیشتر اساتذہ آن لائین کلاس لینے میں متذبذب ہیں۔ دوسری طرف یہ توقع کی جارہی ہے کہ اسکول ستمبر میں کھل جایئں گے تو روایئتی تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو جاے گا تو نیم دلی سے اساتذہ ، والدین اور طلبہ اس کو قبول کر رہے ہیں۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ ایک سنہری موقع ہے کہ ہم ٹکنالوجی کو تعلیم میں زیادہ سے زیادہ استعمال کریں کیونکہ 21 ویں صدی کا یہ ہی مطالبہ ہے۔ آیندہ چند سالوں میں ور چوئیل اسکولز کا دور ہو گا کیونکہ آن لائن تعلیم کا ایک فائدہ یہ ہے کہ طلبا کسی مقررہ شیڈول کے پابند نہیں ہوتے۔ روایتی تعلیم کے برخلاف وہ کلاس روم کے نظم و ضبط اور ترتیب کے پابند نہیں ہوتےہیں وہ اپنی مرضی سے اپنے اوقات میں پڑھتے اس طرح وہ اپنی زندگی کے دوسرے شعبوں میں تعلیم کے ساتھ توازن قایم کر لیتے ہیں۔دوسرا فایدہ یہ ہے کہ مختلف وجوہ کی بنا پر یہ رویتی تعلیم کے مقابلے میں کم خرچ ہے ۔
ان وجوہ کی بنیاد پروہ اسکول مستقبل میں کامیاب رہیں گے جو روایتی اور جدید تعلیم کی آمیزش سے اپنا تعلیمی نطام بنا لیں گے۔ ہمیں اپنا لرننگ منیجمنٹ سسٹم بنانا ہو گا جہان لیکچرز ،ہوم ورک اور اسیسمنٹ کی ریکارڈنگ موجود ہو اور طلبہ اپنی سہولت کے مطابق اس کی رسائ حاصل کر سکیں ۔ ابھی ہمارے ہاں آن لاین کا تصور یہ ہے کہ اساتذہ مقررہ وقت میں اور روایتی طریقہ سے روزانہ براہ راست تعلیم دے رہے ہیں اور طلبہ بھی انہی اوقات میں تعلیم حاصل کر رہے ہوں جو کہ آن لاین ایجوکیشن کا ایک غلط تصور ہے۔ کیونکہ یہ ان تمام فایدوں کی نفی کردیتا ہے جو کہ آن لاین ایجوکیشن سے جڑا ہے لیکں بہر حال پاکستان جیسے ملکوں میں اس کی ابتدائ شکل میں یہ قابل قبول ہے۔
کرونا کی وبا نے خوف کے ساتھ ساتھ امید اور تعلیم کے نئےزاویے اور رجحانات کے دریچہ وا کیے ہیں کوئ ہے جو ان تازہ ہوا کے جھونکوں سے مستقبل کی تعلیم کی منصوبہ بندی کر سکے؟