اسلام جو ہر شعبہ ہائے زندگی میں انسانی زندگی کی رہنمائی کرتا نظر آتا ہے اورانسانی زندگی کو اصول و ضوابط کا قاعدہ بتاتا ہے،وہ کسب حلال کے معاملے میں اسے کیسے بےمہار چھوڑ سکتا ہے؟ دین اسلام نے انسان کومختلف طریقوں سے محنت، معاشی جدوجہداور حصول رزق پر نا صرف آمادہ کیا ہے بلکہ صحیح طریقہ کار کے مطابق رزق حلال کمانے کو ہر انسان پر لازم بھی قرار دیا ہے.
نبی کریم ؐ نے رزق حلال کمانے کو عبادت قرار دیکر تمام عالم اسلام کیلیئے نیکی کا ایک ایسا راستہ بتلایا ہے کہ جس کے ذریعے قدم قدم پر نیکیاں مقدر بن سکتی ہیں۔
آج کل رشوت ، سود اور حرام خوری کا بازار گرم ہے مگر اچھائی ہر دور میں غالب رہی ہے ، اور اس اچھائی میں اپنا حصہ ادا کرتا تصویر میں نظر آنے والا یہ ۱۲ سالہ وقاص گزشتہ پانچ سالوں سے شہر کراچی میں اپنی بیمار ماں اور دو چھوٹے بہن بھائیوں کیلیئے رزق حلال کمارہا ہے،وہ تین بہن بھایئوں میں سب سے بڑا ہے۔
شہر کراچی کی سب اہم اور مصروف ترین سڑک، شاہراہ فیصل پر واقع “آئی بیکس گلوبل ٹاور” کے نیچے موجود کوئٹہ وال ہوٹل پر آنے والے لوگوں کے جوتے پالش کرتا یہ بچہ راقم الحروف کی نظروں کے سامنے جیسے ٹھہر سا گیا، عام بوٹ پالش کرنے والوں کی طرح یہ بچہ نہ ہی کسی سے کھانا مانگ رہا تھا اور نہ ہی کسی کے جانب سے منع کرنے کے بعد اس کی منتیں کررہا تھا.
ہم نے اسے بلایا اور اپنی پٹھانی چپل پالش کیلیئے اسے تھمادی ، حالانکہ ہم کبھی بھی جوتے صاف رکھنے کے روادار نہیں رہے۔
چائے پینے کے ساتھ ساتھ گفتگو کرتے اس بچے کی آنکھوں میں ایک کشش سی تھی جو ہمیں اس سے مزید بات چیت کرنے پر مسلسل اکسا رہی تھی۔
بچے نے بتایا کہ اس کے والد کی وفات کو پانچ برس گزرچکے ہیں وہ کالا پیلیا کی بیماری میں مبتلا ہونے کے باعث داعئ اجل کو لبیک کہ گئے تھے، حیدرآباد شہر کے نواحی علاقے ‘فتح چوک’ کا رہائشی یہ ۱۲ سالہ وقاص اپنے ماموں کے ساتھ کراچی کینٹ اسٹیشن پر مقیم ہے، وہ صبح 7 بجے اپنے ٹھکانے سے اپنے اوراپنے گھر والوں کے پیٹ کی آگ بجھانے کے غرض سے نکلتا ہےتو سورج ڈھلے ہی واپس لوٹتا ہے، ذات کے لحاظ سے سندھی راجپت یہ بچہ روزانہ کی بنیاد پر ۵۰۰ سے ۶۰۰ روپے کمالیتا ہے ،۳۰۰ روپے تک روز مرہ کی ضروریات میں خرچ ہوجا تی ہیں جس میں روزانہ کا ۵۰ روپےچارپائی کا کرایہ اور کھانا پینا شامل ہے،وہ اپنے ماموں کے ساتھ وقتاً فوقتاً اپنے گھر بھی جاتا رہتا ہے۔وقاص نے بتایا کہ وہ جب بھی حیدرآباد میں واقع اپنے گھر جاتا ہے تو وہاں بھی یہ محنت جاری رکھتا ہے تاکہ اس کی ماں اور چھوٹے بہن بھایئوں کو کسی بھی قسم کی تکلیف نہ ہو۔
وقاص کےتعلیم کے حصول اور شوق کے بارے میں دریافت کرنے پر اس کا کہنا تھا کہ ابو کے انتقال سے پہلے میں اسکول بھی پڑھتا تھا تو اور مدرسہ بھی مگر ابو کے انتقال کے بعد سے یہ ممکن نہیں، اور اب اس کی زندگی صرف محنت مزدوری کرکے گھر والوں کا پیٹ پالنے تک محدود ہوگئی ہے۔وقاص کا کہنا تھا اس کو ابھی تک کسی نے راستے میں تنگ نہیں کیا نہ ہی کبھی کسی سیکورٹی ادارے کی جانب سے کوئی روک ٹوک کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ وہ رزق حلال کماتا ہے اور کسی سے بھی بھیک نہیں مانگتا، ابوکے انتقال کے بعد صرف چند سو روپے لیکر گھر سے نکلا تھا جس سے جوتے پالش کا سامان خریدلیا تھا اور ان چند سو روپوں کی برکت اوراللہ کے فضل سے پورے گھر کا کفیل ہے،اس نے بتایا کہ وہ اکثرو بیشتر شہرکے مختلف حصوں میں پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے سفر بھی کرتا ہےتاکہ وہ اپنی ماں اور چھوٹے بہن بھائیوں کے زندگی آسان اور سہل بنا سکے۔
پیشہ ور بھکاریوں کے بجائے محنت ومشقّت سے رزق حلال کمانے والے وقاص جیسےمستحق بچوں سے بلاضرورت بھی کام کرانا کوئی مضائقہ کی بات نہیں ، بس ضرورت اس امر کی ہے مکمّل احساس کے ساتھ اپنی ذمّہ داری کو سمجھتے ہوئے ہم ایک ذمّہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیں۔