تعلیم کی فراہمی معاشرے کا ایک ایسا جز ہے، جو سماجی رویوں، والدین کی ذہنی سطح، افراد کے زرائع آمدن، تہذیبی اور تمدنی اقدار، خاندانی پس منظر ، معلم کی ذہنی وسعت، زرائع تعلیم سمیت دیگر کئی عنوانات سے اس انداز میں جڑا ہے کہ اسے ایک الگ مسئلے کے طور پر دیکھنے سے نہ تو اس مسئلے کی مناسب تشخیص ہوتی ہے اور نہ ہی اس کے حل کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات بار آور ثابت ہوتے ہیں کیونکہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ کل کے بغیر کسی جز کو بہتر بنانا نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی کوئی ہوشمند حرکت، یہی وجہ ہے کہ دہائیوں سے قائم ہمارے ملک میں تمام تر کوششوں اور بندر کی طرح ایک درخت سے دوسرے درخت پر چلانگ لگا کر کچھ کرنے میں خود کو مصروف رکھنے کی اداکاری کے باوجود معیاری تعلیم کی فراہمی کا دیرینہ حل طلب مسئلہ ہنوز حل طلب ہی ہے اور مستقبل قریب میں اس کے پائیدار حل کی کوئی صورت نظر بھی نہیں آرہی۔
ملک میں کرونا کے ہنگامی حالات کی وجہ سے تعلیمی اداروں کی طویل ترین بندش کو غنیمت سمجھتے ہوئے اسکول آپریٹرز، اساتذہ کرام، والدین، تعلیمی امور کے ماہرین، متعلقہ ریاستی ذمے داران اور علم دوست افراد سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو تعلیمی مسئلے پر مفصل اور نتیجہ خیز گفتگو کا اہتمام کرتے ہوئے ہر بچے کو معیاری تعلیم کی فراہمی کے حوالے سے کوئی جامع اور قابل عمل پالیسی مرتب کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہئیے تھا لیکن منظر نامہ یہ ہے کہ مالکان تمام تر خطرات کو پس پشت ڈال کر اسکول کھلوانے پر مصر ہیں کہ ان کا کاروبار ٹھپ ہوتے ہوتے اب دیوالیہ ہونے کے قریب ہے جبکہ حکومتی نمائندے بچوں کی صحت کے حوالے سے جذباتی انداز میں حساسیت کا مظاہرہ دکھائے جارہے ہیں اور اس عزم کا اعادہ کرتے چلے جارہے ہیں کہ اسکول کسی بھی طور نہیں کھولے جائیں گے جبکہ باقی اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے قبرستان کی سی خاموشی چھائی ہے، اس خاموشی میں اگر کوئی صدا بلند ہوتی نظر آتی ہے تو بس یہ کہ اسکولز کو فیس وصولی سے روکا جائے یا ممکنہ طور پر زیادہ سے زیادہ رعایت کا پابند بنایا جائے ، گویا سب کی دانست میں ہماری ابتدائی تعلیم کا مسئلہ اسکولز کھلنے، فیس وصول کرنے یا اسکولز بند رکھے جانے اور فیسوں میں رعایت حاصل کرنے سے ہی تعلق رکھتا ہے۔ میری دانست میں یہ مسائل انتہائی سطحی اور وقتی ہیں، ابتدائی تعلیم کا شعبہ اس سے کئی گنا زیادہ بڑے مسائل سے دوچار ہے جن پر سنجیدہ انداز میں اگر اب بھی غورو خوض نہیں کیا گیا اور حل کی ممکنہ صورتیں نہیں تراشی گئیں تو دہائیوں سے ڈگریاں حاصل کرنے والی ذہنی طور پر بانجھ نسل مزید کئی عشروں تک اس ملک کا مقدر ٹھہرے گی اور وہ والدین جو محنت مشقت کرکے اپنی آنکھوں میں بچوں کے سنھرے مستقبل کے خواب سجائے اپنے بچوں کے تمام تر تعلیمی اخراجات ادا کرنے کی تگ و دو کرتے ہیں اور بچوں کی ثانوی سطح کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد اپنی بد بختی اور بچوں کی کند ذہنی کو روتے ہیں وہ آئندہ بھی بچوں کے بہترین مستقبل کے حوالے کئی کئی سال تو خوش فہمی میں رہیں گے اور پھر بچے کی عملی ناکامیوں کو اپنی سیاہ بختی سے تعبیر کرتے ہوئے افسردگی کے ساتھ اپنے جگر گوشوں کو بھی کسی مل اور فیکٹری کا ایندھن بنا لیا کریں گے۔ دوبارہ عرض کیئے دیتا ہوں کہ ہمیں نسل نو کو تعلیم دینے کے عمل کو ہر ہر پہلو سے جانچنا ہوگا جن میں سے چند درج ذیل ہو سکتے ہیں۔
یکساں نظام تعلیم کا نہ ہونا:
طبقات میں تقسیم ہمارے معاشرے کا براہ راست اثر خود ہمارے تعلیمی اداروں پر بھی پڑتا ہے، یہ آواز بارہا بلند ہوتی رہی ہے کہ ملک مجں یکساں نظام تعلیم رائج کیا جائے لیکن اس کی عملی صورت کا کوئی خاکہ کسی کے پاس بھی نہیں۔ اس معاملے پر شب و روز کام کرکے کوئی خاکہ مرتب کرنا اور اس میں رنگ بھرنا اولین ترجیح ہونی چاہئیے اور تعلیمی شعبے کے ماہرین، اساتذہ کرام، اسکول مالکان اور علم دوست والدین سے اس حوالے سے تجاویز طلب کی جانی چاہیے۔ واضح رہے کہ یکساں نظام تعلیم کے نفاذ سے پسماندہ اور مضافاتی و دیہی علاقوں میں ہی تعلیم کا معیار بلند ہوگا۔
ہم نصابی سرگرمیوں کا فروغ:
طلباء کی شخصیت اور کردار سازی میں ہم نصابی سرگرمیوں کی اہمیت مسلم ہے لیکن ہمارے ہاں اسے انتہائی بری طرح نظر انداز کیا جانا ایک عام سی بات ہےجس کی وجہ سے ہمارے بچے دیگر کئی محرومیوں کے ساتھ ساتھ:
– معاشرے میں رہنمایانہ کردار (Leading Role)ادا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔
– حسن گفتگو ( Communication Skills) سے نابلد ہوتے ہیں۔
– تاریخ سے ناواقف اور مستقبل کے حوالے سے کچھ طے کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔
– اپنی ذات میں چھپی تخلیقی صلاحیتوں سے ناواقف رہنے کی وجہ سے مقابلے کی اس دنیا میں اپنا لوہا منوانے سے محروم رہتے ہیں۔
– معاشرے کے بناؤ، بگاڑ کے بارے میں کوئی نقطہ نظر نہ ہونے کی وجہ سے اصلاح معاشرہ کے لیے کوئی کردار ادا کرنے سے معذور ہوتے ہیں۔
اساتذہ کی کم از کم تنخواہ کا تعین نہ ہونا:
ہمارے ہاں ریاستی سطح پر مزدوروں کی کم از کم اجرت تو معین کرلی جاتی ہے لیکن تدریس کے شعبے سے وابستہ افراد کا اس حوالے سے کوئی پرسان حال نہیں اور انھیں اسکول مالکان کے رحم و کرم پر چھوڑا گیا ہے جس کے نتیجے میں آج کے دور میں بھی 1800، 2000 اور 2500روپے ماہانہ کے عوض بھی اساتذہ اپنے فرائض انجام دیتے ہیں، ناقدین یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ اتنی کم اجرت پر پڑھانے کے لیے آمادہ ہونے والوں کی استعداد ہی کم ہوگی، اس اعتراض کو حقیقت مانتے ہوئے میں اسے ان بچوں کے لیے باعث تشویش سمجھتا ہوں جو ان اساتذہ سے پڑھنے پر مجبور ہیں، حکومت کو چاہیئے کہ اس مسئلے کا فوری تدارک کرتے ہوئے اساتذہ کج کم از کم تنخواہ کی مقدار مقرر کی جائے۔
اسکولز کا کم ریونیو:
مجھے اپنے پیشہ ورانہ تجربے کی روشنی میں یہ تسلیم کرنے میں ذرا بھی عار نہیں کہ ہمارے بہت سارے مضافاتی علاقوں کے اسکولز میں وصول کی جانے والی فیسز اتنی نہیں ہوتی کہ وہ اسکولز اپنے اخراجات میں اضافہ برداشت کرتے ہوئے اساتذہ کو پر کشش تنخواہیں پیش کرے، طلباء کے لیے بنیادی سہولیات اور سیکھنے کے ماحول کو مؤثر بنانے کے لیے معاون اشیاء فراہم کریں اور جدید تیکنیکس اپنائیں لیکن اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ایسے اسکولز لاکھ چاہیں تب بھی والدین سے فیسز میں اضافے کا مطالبہ نہیں کرسکتے کیونکہ ان کی استطاعت ہی اس سے زیادہ کی نہیں، ایسے میں ضروری ہے کہ ریونیو کی بنیاد پر اسکولز کی درجہ بندی کی جائے اور کم آمدن والے اسکولز کو کسی نہ کسی شکل میں سبسڈائز کیا جائے تاکہ بچوں کی معیاری تعلیم میں غریب علاقوں کے اسکولز کی غربت آڑے نہ آئے۔
بلا سوچے سمجھے اضافی کتابوں کا بوجھ:
میں نے جب بھی کسی اسکول کے وزٹ کے دوران ایڈمنسٹریٹرز سے کورس کے چناؤ کے حوالے سے ایک سوال کیا تو اکثر کا جواب یہ رہا کہ کورس تو ہمیں پبلشر/ڈسٹریبیوٹر/بک سیلر بتا جاتا ہے، یعنی درسگاہ میں اس پر کبھی سنجیدگی سے سوچنے کی نوبت ہی نہیں آتی کہ ہم بچوں کو جو کچھ پڑھنے کے لیے مجبور کیے جاتے ہیں وہ ضروری بھی ہے یا ایک اضافی بوجھ ہے، ابتدائی جماعتوں میں بچوں پر کتابوں کا بوجھ لادنے کے بجائے بہت بہتر ہوتا کہ ان کی زبان دانی ، ریاضی کی ذہنی مشق اور میل جول کی عادات کو عملی طور پر پروان چڑھایا جاتا۔
سائنسز کی تدریس کا روایتی انداز:
کون نہیں جانتا کہ سائنس مشاہدے اور تجربے کے بعد حاصل کیے جانے والے علم کا نام ہے لیکن ہمارے ہاں سائنسی مضامین کو جس غیر سائنسی حوالے سے پڑھایا جاتا ہے اس کی نظیر دنیا میں شاید کہیں اور نہ ملے۔ آپ حیاتیات میں خلیے کی ساخت کی مثال لیں یا کیمسٹری میں ایٹم کے اندر پائے جانے والے ذرات کی، اگر انھیں صرف کتاب اور لیکچر کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی جائے تو یہ تصورات بچے کے لیے ہمیشہ غیر حقیقی اور نامانوس رہیں گے ، تجربہ گاہوں کے قیام کو اسکولز کی سطح پر قائم کرنا اگر ممکن نہ ہو تو ویڈیو کلاسز کے ذریعے ان تصورات کو بچوں کے ذہن میں راسخ کرنا انتہائی آسان ہے، لیکن اگر اسے رائج نہیں کیا جاتا تو بس اس لیے کہ اس کے لیے پہل کون کرے، روایتی دائروں سے نکلنے کی زحمت کیوں کی جائے۔
اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت میں تساہل:
ہم میں سے بیشتر ایسے ہیں جو کسی عمارت پر اسکول کا بورڈ آویزاں کرکے ، دیدہ زیب انداز میں اندر اور باہر سے عمارت کی تزئین و آرائش تو کرلیتے ہیں اور اپنے اسکول کو علاقے کا واحد معیاری اسکول باور کرواتے ہوئے والدین کو اپنے بچے داخل کرنے کی ہر ممکن ترغیب تو دیتے ہیں لیکن ان بچوں کو سکھانے والے افراد کو سکھانے کا گر سمجھانے کی ذرا بھی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہر اسکول اپنے اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت کو ممکن بنانے کے لیے کوئی لائحہ عمل طے کرے کیونکہ سکھانا بہر حال ایک فن ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک معلم کے لیے بچوں کی نفسیات سے بھی آگاہ رہنا چاہیئے۔
اساتذہ کے روزگار کا تحفظ و دیگر مسائل:
ہماری امید ہمارے بچے ہیں اور بچوں کو بنانے اور سنوارنے میں سب سے اہم کردار اساتذہ کو حاصل ہے لیکن حیرت انگیز طور پر نجی اداروں میں پڑھانے والے اساتذہ کی اکثریت انتہائی کم تنخواہوں پر پڑھانے پر مجبور ہوتے ہیں بلکہ بیشتر کو گرمیوں کی چھٹیوں سے پہلے صرف اس لیے برطرف کردیا جاتا ہے کہ دو مہینوں کی تنخواہ بچائی جاسکے۔ ضروری ہے کہ کسی بھی طرح نہ صرف اساتذہ کو روزگار کا تحفظ فراہم لیا جائے بلکہ سوشل سکیورٹی اور ای او بی آئی میں ان کی رجسٹریشن بھی کی جائے تاکہ ان کو درپیش صحت کے مسائل کا تدارک کیا جا سکے اور بڑھاپے میں یہ اپنی چھوٹی چھوٹی حاجات پوری کرنے کے لیے دوسروں کے آگے دست سوال دراز کرنے سے بچے رہیں۔
اوپر بیان کیے گئے چند مسائل کے علاوہ تعلیمی شعبے مجں مزید بھی متعدد اصلاحات ہونی چاہئیں جن میں اسکول رجسٹریشن اور رینیوں کے عمل کو آسان بنانا، ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے اسکولز کی کارکردگی کی جانچ کرنا ، نجی اسکولز کے اساتذہ کی رجسٹریشن عمل میں لانا وغیرہ شامل ہو سکتی ہیں لیکن یہ سب تب ممکن ہوگا جب پرائیویٹ اسکولز کو مافیہ کہنے اور سمجھنے کی سوچ ختم ہوگی اور تمام اسٹیک ہولڈر اس بات پر متفق ہوں گے کہ ہم نے اپنے بچوں کو آنے والے دور کے چیلنجز کے لیے تیار کرنا ہے نہ کہ انھیں سند کی صورت میں کاغذ کا ایک ٹکڑا ہاتھ میں تھمانا ہے۔
یاد رہے کہ تعلیم کی فراہمی ریاست کی ذمے داری ہے، اگر ریاست براہ راست یہ ذمے داری نبھانے سے قاصر ہے تو چھوٹے اسکولز کی معاونت و رہنمائی کرکے اپنی ذمے داری کا کچھ حصہ ادا کرسکتی ہے۔