“نواز شریف کا دور اچھا تھا لیکن سب سے اچھا دور پرویز مشرف کا تھا بھٹی صاحب، آٹا 12-15 روپے کلو تھا اس وقت”
“کل بیگم نے 100 روپے دئیے اور کہا ایک کلو آٹا لے آؤ. آج کل تو پچاس ساٹھ روپے کلو ہے”
کتنا آٹا لائے؟ میں نے حیرانگی سے پوچھا۔
کہنے لگے “ایک کلو آٹا”
اور میں رو دیا
کراچی پریس کلب میں جب اس سینئر صحافی نے کہا کہ میں کل صرف ایک کلو آٹا لایا ہوں اپنے اہل خانہ کے لئے تو میں رودیا،آنسو چھپانے کے لئے کلب کے بیک یارڈ آیا.فون نکالا اور رضوان بھٹی کو کال ملائی،
“السلام علیکم بھائی کوئی راشن پیک پڑا ہے ابھی تک؟”
نہیں بھائی لیکن کس کو چاہیے؟ رضوان بھٹی نے استفسار کیا
جب میں نے بتایا کہ یہاں لوگ صرف ایک کلو آٹا خرید رہے ہیں تو شاید وہ بھی رودیے
کہنے لگے آپ کے اکاؤنٹ میں پیسے بھیج رہا ہوں فوری طور پر اس بندے کو دے دیں
“بلکہ پیسے فوری طور پر دے دیں، آپ کے اکاؤنٹ میں آجائیں گے تھوڑی دیر میں”
اللہ گواہ ہے یہ لوگ رضوان بھٹی، شعیب احمد، مقصود یوسفی، نصراللہ چوہدری، اور ان جیسے نہ جانے کئی اور کیا کیا کرتے رہتے ہیں خلق خدا کے لئے….
لیکن مسئلہ تو ان کا ہے جو اب صرف ایک کلو آٹا خریدنے کی سکت رکھتے ہیں اور چند شاید اتنی بھی سکت نہیں رکھتے اب۔
کرونا وائرس کے بحران نے تو کئی سفید پوشوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے لوگوں کا کیا حال ہے یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔
اور بارہ پندرہ ہزار روپے کی تنخواہ سے ہوتا بھی کیا ہے؟
اور وہ بھی جو کئی مہینوں کی تاخیر سے ملتی ہو
جب بندہ دوائی کی پرچی لے کر آتا ہے اور کہتا ہے کہ “وقار بھائی دوا تو لکھ دی ہے ڈاکٹر نے خریدوں کہاں سے”
تو احساس ہوتا ہے کہ خلق خدا کس مشکل میں ہے.
میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ ہم اس شعبے میں آئے ہی کیوں ہیں آخر؟
دوسروں کے حقوق کے لیے پسینا بہاتے، جوتیاں چٹخاتے اور ماریں کھاتے رپورٹر اور فوٹوگرافر خود کس حال میں ہیں کوئی کیا جانے؟
95 ہزار کمانے والے کی تنخواہ 39000 کر دی گئی ہے.اور وہ بھی کئی مہینوں سے ادا نہیں کی گئی-
کچھ کو جانتا ہوں جو اب بچوں کو اسکول میں پڑھانے کی سکت بھی نہیں رکھتے کیوں کہ ماہانہ فیس ادا کرنے کے قابل نہیں رہ گئے۔
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں؟
وقت آگیا ہے کہ آئیں، مل کر بیٹھیں اور کچھ سوچیں
صرف
انا للہ وانا الیہ راجعون
پڑھنے
اور
اللہ ان کی مغفرت کرے، اہل خانہ کو صبر دے
سے کچھ نہیں بنے گا۔
جزاک اللہ خیر
شکوۂ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے