بچپن میں سکول ٹیچر نے ایک حدیث سنائی۔
نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
” اللّٰہ کے ننانوے نام ہیں، سو سے ایک کم۔ جو ان کو یاد رکھے گا۔ جنت میں داخل ہو گا”۔
ساتھ ہی انھیں نے فخریہ انداز میں بتایا کہ انھیں اللّٰہ تعالیٰ کے ننانوے نام یاد ہیں۔ کلاس میں کچھ اور ہم جماعتوں کو بھی اللّٰہ تعالیٰ کے ننانوے نام یاد تھے۔ یہ سب سن کر مجھے بہت افسوس ہوا کہ میں نے کبھی ننانوے نام کیوں نہیں یاد کیے؟ اس کے بعد یاد کرنے کی کوشش بھی کی۔ لیکن ایک سوال ذہن میں ہمیشہ سے موجود رہا کہ کیا صرف اللّٰہ تعالیٰ کے ننانوے ناموں کو ذہن نشین کر لینے سے جنت مل جاتی ہے؟
اس سوال کا جواب کچھ عرصے بعد ملا۔ جب مولانا جلیل احسن ندوی صاحب کی کتاب “راہ عمل” کو پڑھنے کا موقع ملا۔ اس میں انھوں نے واضح طور پر بتایا تھا کہ صرف ننانوے نام ذہن نشین کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ بلکہ ان ننانوے ناموں کا تقاضا یہ ہے کہ ان کو اپنی شخصیت میں جذب کیا جائے اور ان کے تقاضوں کو پورا کیا جائے۔ مثال کے طور پر اللّٰہ رحمان و رحیم ہے۔ ان صفات کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اس ڈھنگ سے زندگی گزارے کہ اللّٰہ کی کبھی نہ ختم ہونے والی رحمت کے دروازے اس پر ہمیشہ کھلے رہیں۔
اسی طرح زمانہ جاہلیت میں لوگ تکبر اور غرور کی وجہ سے اپنے تہبند اور شلواریں ٹخنوں سے نیچے باندھتے تھے۔ جس سے ہمارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا۔ دراصل اللّٰہ کے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبر سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ لیکن ہم نے شلوار یا پتلون کو ٹخنوں سے اونچا باندھنے پر اکتفا کر لیا۔ جبکہ اس حکم کا اصل مقصد تو اپنے دلوں کو تکبر اور غرور سے پاک رکھنا ہے۔ جو کہ یقیناً ایک مشکل عمل ہے۔
صدیق اکبر حضرت ابو بکر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا کا تہبند ڈھیلا ہو کر ٹخنوں سے نیچے چلا جاتا تھا۔ انھوں نے اس بارے میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا۔ اس پر آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
” تم گھمنڈ سے تہبند گھسیٹنے والوں میں سے نہیں ہو”۔
دین کو سطحی طور پر جان لینا کافی نہیں ہے۔ بلکہ اس کا صحیح فہم اور سمجھ ہونا ضروری ہے۔ انسان یا انسانیت کی بھلائی اس میں نہیں ہے کہ وہ اللّٰہ کے ننانوے ناموں کو رٹ لے یا شلوار کو ٹخنوں سے اونچا باندھ لے۔ نہ ہی محض ایسا کرنے سے اللّٰہ کا قرب حاصل ہو سکتا ہے۔ ان احکامات کی روح کو سمجھنے اور ان کے تقاضوں کو پورا کرنے سے ہی ہم درحقیقت اپنے آپ کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ اللّٰہ کے قرب کا بھی یہی ایک ذریعہ ہے۔
دین کی صحیح سمجھ تو اللّٰہ تعالیٰ ہی عطا کرتا ہے۔ جیسا کہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
“اللّٰہ جس سے بھلائی کا ارادہ کرتا ہے۔ اس کو دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے”۔
اس کے لیے اسی سے دعا کرنی چاہیے۔ لیکن انسان اپنے تئیں جو کوشش کر سکتا ہے وہ قرآن، حدیث اور مستند دینی لٹریچر کا مطالعہ ہے۔ اس کو اپنی عادت بنانا اور غذا کی طرح اپنی زندگی میں شامل کرنا ضروری ہے۔ آجکل انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا دور دورہ ہے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر دینی کتب، تحریروں اور مختلف مبلغین کی تقریروں کی صورت میں کثیر مواد موجود ہے۔ جن تک رسائی بھی بہت آسان ہے۔ لیکن اس مواد کے مستند ہونے پر سوالیہ نشان ہے۔ لہذا “نیم ملا خطرہ ایمان” کے پیش نظر کوشش کی جائے کہ دین کے فہم کو بڑھانے کے لیے اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کے ساتھ ساتھ مستند دینی کتب کا ہی مطالعہ کیا جائے۔