86 سال بعد استنبول کی تاریخی مسجد” آیا صوفیہ “کی بازیابی ہوئی …..مسجد میں آزان کی دلکش صدائیں بلند ہوئیں …عالم اسلام میں خوشی کی لہر دوڑ گئ …..ترکی 600سال تک عثمانیہ کی بدولت مسلمانوں کی محبت اور عقیدت کا مرکز بنا رہا …..مگر پہلی جنگ عظیم کے بعد جب خلافت ختم ہوئ اور ترکی یورپی یونین کے قبضے میں چلا گیا اس کے بعد سازشوں کے زریعے اسے سیکولر اسٹیٹ میں تبدیل کر دیا گیا۔
انہی سازشوں کا بہت بڑا شاخسانہ عاقبت نا اندیش “کمال اتاترک” کا 100 سالہ معاہدہ بھی شامل ہے ْ جس کی رو سے اس عظیم الشان تاریخی مسجدکو ایک میوزیم کا درجہ دے دیا گیا ….مسجد سے بلند ہونے والی اذانوں کی روح پرور صدائیں جو کہ پروردگارعالم کی کبریائ بیان کرتی تھیں انہیں بھی فوری طور پر بند کروا دیا گیا ……تمام دنیا کے مسلمان شدید غم اور غصہ کی حالت میں تڑپ اٹھے…..پر کچھ کر نہی سکتے تھے ترکی کی۔کٹھ پتلی حکومت اسے ایک ماڈرن اسٹیٹ بنانے کی منصوبہ بندی کرنے میں لگی تھی …انہیں مسلمانوں کے جزبات کی کوئ پرواہ نہ تھی آج برسوں بعد مرد مومن ْ حق کے علم بر دار ْ اور مسلم امت کے ہیرو “رجب طیب اردگان ” نے مسجد آیا صوفیہ ” کی بحالی کا مقدمے جیتنے کے بعد اسے اس کی عظمت رفتہ اور شان و شوکت واپس دلوائی۔
ترک عوام نے اس تاریخی فیصلے پر تاثرات دیتے ہوئے کہا کہ” وہ ایسا محسوس کر رہے ہیں کہ جیسے کہ استنبول دوبارہ سے فتح ہو گیا ہو”…… ایسے ہی جزبات عالم اسلام کے تمام مسلمان محسوس کر رہے ہیں ۔گمشدہ عظمت رفتہ کی گواہ” مسجد آیا صوفیہ ” کے پر شکوہ درو دیوار مستقبل میں اسلامی انقلاب کی نوید دے رہے ہیں۔ صدر” رجب طیب اردگان ” وہ باہمت اور بے باک لیڈرہیں جنہوں نے ہمیشہ سازشی سفاک دشمنوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر کلمہ حق بلند کیا ۔ ان کی جرات مندانہ قیادت سے دشمنان اسلام کے ایوان لرزہ براندام ہیں۔
ہم سب صدر طیب اردگان اور ترکی کی عوام کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ۔اور دعا گو ہیں کہ ہمیشہ کی طرح پاکستان اور ترکی اسلامی اخوت کے رشتے میں بندھے رہیں اور آنے والا دور ہم سب کے لئے اسی طرح کامیابیاں لے کر آتا رہے ۔(آمین )
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
جو کرے گا امتیاز رنگ وخوں مٹ جائے گا
ترک خرگاہی ہو یااعرابی والا گہر
نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہو گئی
اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہگزر
تا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار
لا کہیں سے ڈھونڈکر اسلاف کا قلب و جگر
(علامہ اقبال)