میرے خالو جان مرحوم اللہ جنت الفردوس نصیب فرمائے بڑی معزز شخصیت تھے ۔ ماشاء اللہ ان کے چھ بیٹے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کی عمریں دراز فرمائے اور ان کے نیک کاموں میں برکت عطا فرمائے ۔ ما شاء اللہ سب دنیا میں اعلیٰ مقام پر ہیں اور دینی لحاظ سے بھی الحمدللہ اللہ نے بڑا نوازا ہے ۔ خالہ جان ایک اسکول ٹیچر انتہائی معصوم اور قابل خاتون تھیں جنہو ں نے اپنے بچوں کی اعلیٰ تربیت کی۔ سارا اسٹاف انکا گروہ تھا ۔ میں خود بھی انکی شخصیت سے بہت متاثرتھی ۔ میں نے کبھی انہیں اونچی آواز میں بات کرتے نہیں سنا ۔ اللہ تعالیٰ انہیں بھی جنت الفردوس عطا فرمائے ( آمین ) ۔
خالو جا ن کا تو انتقال ہارٹ اٹیک سے مزدلفہ میں ہوا ۔ نہ جانے انکے دل کی کیفیت کیا ہوگی جب انہوں نے اپنے تمام بچوں کیلئے ایک خط لکھا ۔ وہ کیا تھا سمجھیں وصیت بمع نصیحت تھی جو بچوں کیلئے انتہائی بے بسی میں لکھی گئی تھی ۔ لیکن یہ ان کے لئے ہی نہیں ہم سب کیلئے بلکہ آنے والی نسلوں تک کیلئے ایک قیمتی اور مئوثر نصیحت ہے ۔اس وقت بھی اس خط نے ہمیں متاثر کیا اور آج بھی پڑھیں تو عجیب احساس ہوتا ہے لیکن جب ہم نے خود حج کیا اور حج کے مرا حل طے کئے غلطیاں کو تاہیاں سہی لو گوں کا جم غفیر اور ایک ہی منزل اور ایک ہی مقصد کیلئے انسانوں کا ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر اپنے اندر ایک روح پر نظارہ سبحان اللہ یقین بڑھاتا اور ہمیں آگے لے جاتا ہے ۔ اللہ کا فضل شامل حال ہوتا ہے ورنہ انسانوں کے بس کی بات نہیں ۔
وہی دلوں کو ہدایت دیتا ہے اور دلوں کو سکون فرماتاہے یقینا میرے خالو جان نے یہ خط گو یا عالمی نصیحت نامہ لکھ کر ایک تحریر صدقہ جاریہ چھوڑ دیا مگر ان کی روح یقینا سکون پا گئی ہوگی کیونکہ اسکو پڑھکر پڑھنے والے بھی تسکین محسوس کرتے ہیں۔ عمل سدھارتے ہوئے تبلیغی عمل کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ شروع میں عمرہ کرتے وقت اور دیگر مقامات پر ممکن ہیں ان سے کچھ غلطیاں ہوئیں جسکی وجہ سے شعوری طور پر وہ احساس ندامت میں گھر گئے ۔انتقال سے ہفتہ دس دن پہلے ہی انہوں نے یہ خط لکھا ہو گا جو عید کی قربانی کے بعد ان کے بچوں کو پہلے فون پر انتقال کی اطلاع ملی اور دوسرے دن یہ خط ملا ۔
خالو جان بینک میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے مگر وہ اس نوکری سے خوش نہ تھے ، ایک دن ایک کلرک نے اچانک استعفیٰ دیکر خالو کو حیران کر دیا کہ یہ نوکری سودی کاروبار اللہ اور رسولؐ کے خلاف اعلان جنگ نامنظور ہے ۔ کہتے تھے کتنا دلیر آدمی ہے کتنا توکل ہے نوکری چھوڑدی !!! شاید یہ بھی ندامت تھی وہ ابھی ریٹائر نہیں ہوئے تھے کہ انکے بیٹے کو بھی بینک میں آفر آئی مگر انہوں نے اپنے بیٹے کو یہاں پر نوکری کرنے سے روک دیا ۔ یہ احساس ندامت ہی تو تھا بہر حال انہیں بھی یہ سودی کاروبار نہ بھایا ۔
یہ انکا پچھتاوا تھا یا ملال ، دکھ تھا تکلیف تھی گویا وہی احساسن ندامت جو رب کو بہت پسند ہے ۔ ایک قاری صاحب ، قاری حبیب الرحمٰن صاحب ان کے ساتھی گروپ کے سربراہ تھے بہرحال ان کے ساتھ طواف کیا چکروں کا کچھ مسئلہ ہوا ۔ مزید نہ جانے کہاں کہاں کیا کیا غلطیاں ہوئی ہونگی ؟ جن کا ملال لیکر انہوں نے نہ جانے کس وقت انتہائی درد اور احساس کے ساتھ یہ خط لکھا ۔
بچے لوگ
مہمانان گرامی
الحمد للہ شکر الحمد للہ ہمارے زبان پر بھی اللہ جل تعالیٰ صحیح مقام پر لبیک الّٰھُمَّ لبیک : لبیک لا شریک لک لبیک : ان الحمد والنعمتٰی لک ولملک لا شریک لک : ورد کرنے کی سعادت عطا فرمائی ہے ۔ اجنبی بندہ ، زبان سے قاصر ، ماحول سے کورا ۔ جنگل سے پکڑ لائے ہو ئے جانور کی طرح ہر چیز ہر قدم پر یہی محسوس ہوتا ہے کہ بہت پہلے سے اسکی تیار کرتے اور اسکو اصل میں یہاں کرتے ۔ اٹھتے ہی اصل پر آئے ہیں تو نا تجربہ کاری کا احساس شدت سے ہوتا ہے ۔ اللہ سبحان تعالیٰ۔ رب العالمین بندوں کی کمزوریوں کو پہچانتے ہیں ۔ غیب کی باتیں جانتے ہیں ۔ دل کا حال جانتے ہیں اور ہر چیز کو درست اور صحت مکرتے ہوئے اپنے فضل و کرم سے کثیر کرتے ہیں ، قبول کرتے ہیں اور بخشتے ہیں ۔ وہ جو مشکل کی حالتوں کو جاننے والے ہیں ۔ وہی ہیں جو بار بار غلطیوں کو بخشتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ حاجت روا ہیں ۔ ہم محتاج وہ ہماری محتاجی کو عطیات سے پورا کرتے ہیں ۔ یا اللہ تو ہم سب کو حفظ و امان میں رکھ ۔ ایمان پر قائم رکھ اور ایمان پر خاتمہ ہو ۔ آمین ثمہ آمین۔
رحمت اللہ راقم
قاری صاحب کے مطابق وہ عرفات میں ظہر سے چلنا شروع ہوئے وہاں سے مزدلفہ جانے کیلئے بس میں بیٹھے۔ باتیں کرتے رہے ۔ بس سے اتر کر کچھ درد محسوس کیا تو خالو جان نے قاری صاحب سے کہا مجھے دبائیں ، زور سے دبائیں اور میرے لئے ایمبولینس کا انتظام کردیں اور ہاں یہ کنکریاں آپ لے لیں میری طرف سے شیطان کو مار دیجئے گا اور کہا کہ میں تو جا رہا ہوں !!! قاری صاحب نے فوراً ایمبولینس کا بندوبست کروادیا اور دیکھا وہ خود جلدی جلدی ایمبولینس میں لیٹ گئے قاری صاحب بھی انکے ساتھ چلے گئے ۔ ہسپتال پہنچ کر ڈاکٹروں نے بار بار جھٹکے دیئے مگر خالو جان اللہ کو پیارے ہو چکے تھے ۔ “انا للہ و انا الیہ را جعون ” اللہ تعالیٰ انکی بہترین مغفرت فر مائے۔ آمین ۔
قاری صاحب انہیں وہیں ہسپتال کے کولڈ اسٹوریج میں رکھوا کر باقی ارکان حج پورے کرنے اپنے گروپ میں واپس آگئے خالہ کو اطلاع نہیں دی وہ پوچھتی رہیں مگر دوسرے دن رات میں سب سے مشورہ کرنے کے بعد خالہ جان کو بتا یا ۔ خالو جان مستورات کا کافی خیال رکھتے تھے ۔ اب تک انہیں کھانا پینا اور دیگر سہولیات دینے میں پیش پیش تھے ۔ تمام مستورات انتہائی افسردہ ہوئیں خالہ جان کو سمجھا یا ۔ دعا کی اور خالہ جان نے قاری صاحب سے اپنے مرحوم شوہر کی زیارت کی خواہش ظاہر کی جو انہوں نے واپس ہسپتال کے کولڈ اسٹوریج لے جا کر چہرہ دکھا دیا اور سب نے دعا کی اور وہیں مسجد نمرہ میں تدفین کیا اور پھر میری خالہ گروپ کے ساتھ واپس آئیں بمشکل عدت پوری کرکے مہینہ دو مہینہ ہوئے تھے کہ ان کا بھی اچانک انتقال ہوگیا کراچی میں اور وہ قاری صاحب جو حبیب الرحمٰن کے نام سے جانے جاتے تھے ان کاا بھی دو مہینے پہلے انتقال ہوا۔ اللہ پاک سب کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس عطا فرمائے ۔
انہوں نے اس وقت خا لو جان کے تمام بچوں کو جمع کیا اور ساری باتیں بتا ئیں کہ کس طرح خالو جان نے ان کے ساتھ وقت گزارا کلمہ پڑھا اور انتقال فرمایا اوربڑی اچھی جگہ انکی تدفین ہوئی ۔ انہیں شعوری ندامت ملی ۔ زندگی تو جیسے تیسے گزار گئے مگر مقام انہیں بہت اعلیٰ مل گیا ۔ یہ خوش نصیبی اور اللہ کا فضل ہے۔ واقعی یہ ایک حج کا سفر انکے حق میں وسیلئہ ظفر رہا اور میں سوچتی ہوں کہ حج کا سفر صحیح معنوں میں انسان کو سمیٹ کر زندگی کا پورا نچوڑ سامنے لا دیتا ہے ۔ رب کی پہچان اور ملاقات کا یقینی احساس دیتا ہے ۔ میدان حشر کا حشر وا ضح کرتا ہے ۔ ہمیں ضرور اس سے درس آخرت لینا چاہئے ۔
نصیحت بھی ان ہی کو ملتی ہے جو نصیحت قبول کرنا چاہتے ہیں ۔ سنتے ہیں اور تیار رہتے ہیں تو گویا خالو جان کی یہ کہانی ایک خط کی زبانی “وصیت بمع نصیحت” ہم سب کیلئے اصل راہنمائی ہے ۔ ایک لائٹ ہے جس کے ذریعے ہم اپنی
زندگیوں کے جہالت کے اندھیروں کو دور کرکے صحیح معنوں میں رب سے ناطہ جوڑ کر اپنی دنیا اور آخرت دو نوں سنوار سکتے ہیں ۔ کہانی میں سب سے اہم سبق ہی تو ہوتا ہے۔ وہ سبق جو ہمارے عمل کو بدل دے اور ہمیں غفلت کی تاریکی سے ایمان کی روشنی میں لے آئے ۔ میرے خالو”رحمت اللہ” مرحوم واقعی اپنے نام کے ہم معنی تھے ۔ آج انکی اولاد اور ہم سب ہی اپنی سی کوششیں کرتے ہیں انکا صدقہ جاریہ بننے کی ۔ اللہ اپنی رحمت سے ،اپنے نور سے خالو جان خالہ جان اور انکی نسلوں کو لواحقین کو عزیز و اقارب کو صراط مستقیم عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین۔