کورونا وائرس کی عالمی وبا نے جس طرح پوری دنیا کی معیشت کو نقصان پہنچایا بالکل اسی طرح تعلیم کے نظام کو بے حد متاثر کیا کہیں آن لائن کلاسز کے نام پر خانہ پوری کی جانے لگی تو کہیں مکمل طور پر تعلیمی سلسلہ بند دیکھا گیا۔کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کے باعث پاکستان میں ہوئے تعلیمی فیصلوں اور اقدمات کو بیان کرنے سے پہلے کچھ تعلیم کی اہمیت اور منظر بتانا چاہوں گی۔تعلیم اپنے وسیع تر معنوں میں وہ حقیقت ہے جس کے ذریعے لوگوں کے کسی گروہ کی عادات اور اہداف ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل کرتے ہیں۔ اپنے تکنیکی معنوں میں اس سے مراد وہ رسمی طریقہ کار ہے جس کے ذریعے ایک معاشرہ اپنا مجموعی علم، ہنر، روایات اور اقدار کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرتا ہے اور عموماً یہ درس گاہ میں کی جانے والی تربیت کہلاتی ہے۔شاعر مشرق علامہ اقبال کی اگر بات کی جائے تو اقبال نے تعلیم کے عملی پہلوئوں پر کچھ زیاد ہ نہیں لکھا مگر ان کے افکار سے ایک تصور تعلیم ضرور پیدا ہوتا ہے۔ جس کو اگر مرتب کر لیاجائے تو اس پر ایک مدرسہ تعلیم کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔پاکستان جب سے قائم ہوا ہے اس میں رائج دوہرا تعلیمی معیار ہمیشہ سے ہمارے ملک کا المیہ رہا ہے۔سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی اداروں کا وجود ، ملک میں ہونا قطعا” غلط نہیں مگر حصول تعلیم کے دو ذرائع اگر احساس برتری اور احساس کمتری کا باعث بن جائیں تو یہ قوموں کے حق میں مناسب نہیں ہوتا پاکستان کے سرکاری تعلیمی اداروں میں بہتر تعلیم نظام نہ ہونے کے باعث لوگ اپنی اولاد کو پرائیوٹ اسکول میں داخل کرواتے ہیں مگر جو بچے سرکاری اسکول جاتے ہیں وہ اکثر پیلے اسکول کے طلبہ کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔پرائیوٹ اسکولوں میں بھی اب دو طرح کے اسکول موجود ہیں ایک وہ جو گلی محلوں میں کم فیس پر بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں دوسرے وہ پرائیوٹ اسکول جو منہ مانگی فیس وصول کر رہے ہیں۔ہمارے وطن عزیر پاکستان میں آج بھی کئی شہر اور دیہات ایسے ہیں جہاں اس دور میں بھی لڑکیوں کی تعلیم کی شدید مخالفت کی جاتی ہے جبکہ کچھ مقامات پر سیاسی وڈیروں اور جاگیر داروں نے تعلیم کی فراہمی عوام تک پہنچنے میں اسلئے رکاوٹ ڈال رکھی ہے تاکہ وہ غریب پر حکومت کر سکیں اور تعلیم حاصل کرنے کے بعد انسان میں جو ظلم کے خلاف بولنے اور حقوق کیلئے سوالات کرنے کا شعور اور حوصلہ پیدا ہوتا ہے وہ اجاگر نہ ہو سکے۔ظالموں کی اس سوچ نے یہ ثابت کر دیا کہ تعلیم عقل و شعور کے ساتھ حوصلہ دیتی ہے اور انسان کی زندگی کے نئے دروازے کھولنے کا سبب بنتی ہے۔ تعلیمی دروازے بند کر دینا قوم کو غلام بنانے جیسا ہے۔آج میرا دل بھی یہ سب دیکھ کر روتا ہے جب میرے وطن عزیر میں کورونا وائرس کی وبا آنے کے بعد پاکستانی بچوں کی تعلیم کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔بے شک کورونا وائرس کے خطرے نے ہمارے نظامِ تعلیم کو بہت متاثر کیا مگر ہم جس ملک میں رہتے ہیں یہاں ہنگامی حالات کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں بلکہ ہم مختلف حالات کے عادی بن چکے ہیں جس طرح پاکستان میں 26 فروری 2020 کو اچانک سندھ حکومت کی جانب سے سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی ادارے بچوں کی حفاظت کیلئے بند کیے گئے وہ اچھا فیصلہ تھا مگر مستقل حد نہیں۔ زندہ قومیں مشکل حالات میں بھی کسی نہ کسی طرح اپنے مسائل کا حل نکال لیتی ہیں۔کورونا کی صورتحال کے باعث حالات ہمارے نظامِ تعلیم کے لیے آزمائش بن کر آئے اور اسکی اصل آزمائش یہی تھی کہ اب ہمارا نظامِ تعلیم اس کا کس طرح مقابلہ کرتا ہے۔دنیا بھر میں کورونا وائرس کے سبب تعلیمی ادارے بند کیے جانے کے باعث آن لائن تعلیم کو عام کیا گیا کورونا وائرس کے خطرے نے ہمارے نظامِ تعلیم کو خاصا متاثر کیا۔پاکستان سمیت پوری دنیا پر کورونا وائرس نے اپنی دہشت پھیلائی اور کورونا وائرس سے بچاؤ کی خاطر اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بند کیے جانے کے بعد سعودی گھر اسکولوں میں تبدیل ہوگئے۔جبکہ مختلف ممالک میں طلبہ نے آن لائن تعلیم کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گھروں میں کورس مکمل کرنا شروع کردیا اور مواصلاتی کمپنیوں نے طلبہ کو انٹرنیٹ کی مفت سہولت فراہم کی۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں کے پاس آن لائن کلاسز کا بہتر نظام نہ ہونے کے باعث انٹرنیٹ پر پہلے سے موجود ذرائع جس میں گوگل پلس، زوم، یوٹیوب سمیت سوشل میڈیا ایپلیکیشنز کا سہارا لیا جانے لگا۔ہمارے ملک میں متبادل طریقے کی آزمائش یا تجربے کا وقت سب کیلئے یکساں بن کر نہیں آیا جس کے نتیجے میں آج مختلف سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا پر والدین اور عملے کے درمیان لڑائیاں ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔کورونا وائرس کی آزمائش کی موجودہ صورتحال نے ہمیں اس بات کا احساس دلایا ہے کہ اب ہمیں ٹیکنالوجی کے تقاضوں کے مطابق اپنے معیار کو بلند کرنا ہوگا اور پاکستان میں معیار تعلیم اور تعلیم کے فروغ دونوں کیلئے کام کرنا ہو گا۔کورونا وائرس کے باعث پاکستان کے مختلف تعلیمی اداروں کے اساتذہ فاقے کرنے پر مجبور ہو گئے اور کسی نے پھل بیچنا شروع کر دیئے تو کسی نے کوئی اور مزدوری شروع کر دی۔یہ تمام مشکلات دوہرے نظام تعلیم کی وجہ سے پیش آئیں۔پاکستان میں بیشتر مقامات پر بڑے نام والے اسکولوں کو والدین پریشان ہونے کے باوجود فیسیں ادا کرنے پر مجبور ہیں جبکہ جو گلی ، محلے اور کرایہ کی عمارتوں پر اسکول موجود تھے انکے بند ہونے کے باعث اساتذہ بے روزگار اور طالب علم آن لائن ایجوکیشن کے آسرے سے بھی محروم ہیں۔پاکستان کے مختلف صوبوں کے طالب علم اپنے گھریلو حالات دیکھتے ہوئے آن لائن ایجوکیشن اور بھاری فیسوں کے بوجھ تلے دبنے کے بعد سوشل میڈیا پر مختلف کیمپین چلاتے ہوئے نظر آتے ہیں طالب علم سوشل میڈیا پر یہ کہہ رہے ہیں کہ یونیورسٹیاں انہیں آن لائن تعلیم فراہم کرنے میں ناکام ہو گئی ہیں، اس لیے انہوں نے فیس کی جو رقم ادا کی تھی، وہ انہیں واپس کی جائے۔جبکہ جونیئر کلاسز طالبات کے والدین کا کہنا یہ ہے کہ آن لائن کلاسز کے نام پر ہمیں بچوں کے اسائمنٹ بھیج کر فیس وصول کی جا رہی ہے جبکہ نئے کورس کی فراہمی بھی ممکن نہیں ہو سکی ہے جب ہنگامی بنیادوں پر اسکول بند کیے گئے تھے اس وقت زیادہ تر سالانہ امتحانات ہونے والے تھے اور سال ضائع نہ ہونے کے پیش نظر ہی بچوں کو اگلی کلاس میں بغیر امتحان دیئے پروموٹ کر دیا گیا تھا جبکہ نویں، دسویں ، گیارہویں اور بارہویں جماعتوں کے طالب علم اس فیصلے کو میرٹ کا جنازہ کہتے ہیں اور کئی طالبات کا کہنا ہے کہ دن رات تعلیم کیلئے محنت کی اب سب کو برابر دیکھ کر کتابوں میں دل نہیں لگتا۔کورونا وائرس نے تنگی ، مفلسی سمیت ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں کو بھی بڑھایا ہے مگر پاکستان میں تعلیم کیلئے کوئی بہتر لائحہ عمل تیار نہ ہونے کے باعث والدین شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہیں عام مڈل کلاس عوام بھاری اسکول فیس کی ادائیگی کے ساتھ آن لائن ایجوکیشن،وائی فائی کا بل اور کمپیوٹر کے چلنے سے دوڑتے بھاگتے بجلی کے بل کا اضافی بل ادا کرنے سے قاصر ہے خاص کر اگر گھر میں تین سے چار بچے موجود ہوں تو وہاں یہ سب کرنا ناممکن ہے ایسا لگتا ہے کہ سارا بوجھ والدین پر ڈال دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے مطابق، کرونا وائرس کی عالمی وبا سے دنیا بھر میں 72 فیصد بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی ہے اور اب وہ تعلیم غیر روایتی طریقوں کے ذریعے حاصل کر رہے ہیں۔اب جب کہ بہت سے ممالک میں لاک ڈاؤن ختم ہو رہا ہے تو اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بھی کھل رہی ہیں۔دنیا کے مختلف ممالک اور شہروں میں ایس او پیز کے ساتھ تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کیلئے تعلیمی اداروں کو کھول دیا گیا ہے جس میں بنکاک ، تائیوان، ہانگ کانگ،برلن، چین، اسرائیل، جرمنی ، ویتنام، تھائی لینڈ اور بیشتر شامل ہیں۔ایس او پیز کا مطلب بنیادی طور پر ایسے اقدامات یا ایسا طریقہ کار وضع کرنا ہے جس پر عمل کر کے کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکا جائے۔ پاکستان میں ایس او پیز قومی ادارہ صحت نے دیگر محکموں اور اداروں کی مدد سے تیار کیے ہیں اور انھیں وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اپنے اپنے طور پر جاری کیا ہے۔ قومی ادارہ صحت کی ویب سائٹ کے مطابق اب تک دو درجن کے قریب ایسے ایس او پیز جاری کیے جا چکے ہیں۔ان ایس او پیز یا رہنما اصولوں میں کورونا وائرس کے بارے میں نئے اور حیران کن انکشافات سامنے آنے کے بعد ترامیم کی جا رہی ہیں۔جبکہ کورونا لاک ڈاؤن کے باعث بند کیے گئے تعلیمی ادارے ستمبر کے پہلے ہفتے میں سخت ایس او پیز کے ساتھ کھولے جانے کے فیصلے پر غور کیا جا رہا ہے اور اسکو حتمی منظوری کے بعد باقاعدہ اعلان کیا جائے گا۔ وفاق اور صوبائی حکومتوں کو اب تعلیم کیلئے سنجیدہ ہونا پڑے گا میری اعلی حکام سے درخواست ہے کہ تعلیمی سلسلے کو سخت ایس او پیز کے ساتھ رواں کیا جائے اور ایس او پیز کے نام پر اسکول کھولنے کے بعد بچوں کے نت نئے انداز کے یونیفارم کا بوجھ غریب والدین پر نہ ڈالا جائے نہ ہی کورونا سے بچاؤ کے نام پر کلاسز کے جدید فرنیچر کیلئے بچوں کی فیس میں اضافہ کیا جائے بلکہ تعلیم کا پہیہ ایک بار پھر سے چلانے کیلئے حکومتی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی جائیں اور موثر اقدمات کر کے طالبات اور والدین کو ان مشکلات سے بچایا جائے تاکہ چھوٹے علاقوں کے اسکول بھی تعلیم جاری کر سکیں۔حالات کیسے بھی ہوں بچوں کو تعلیم سے محروم نہیں کیا جائے کیونکہ میرے وطن کا بچہ اگر خود پڑھے گا تو فخر سے کہ سکے گا کہ “مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا یے” اور اگر میرے پاکستان کے بچے تعلیم سے محروم رہے تو وہ اپنے علم سے دشمن کے بچوں کو کبھی نہیں بتا سکیں گے کہ تعلیم ظلم اور دہشت گردی کے خلاف جگمگاتی وہ شمع ہے جسے شہداء آرمی پبلک اسکول پشاور کے بچوں نے اپنا لہو دے کر روشن کیا جس ملک کے بچوں کی کتابیں لہو میں ڈوبنے کے باوجود انکے لب کہتے رہے لب پر آتی ہے دعا بن کے تمنا میری۔پاکستان کی تمام مائیں سانحہ آرمی پبلک کے شہداء کی ماؤں کے حوصلوں سے ہمت سیکھیں جو شہید کی ماں ہونے کے باوجود کورونا سے پہلے اپنے بچوں کو صرف اسلئے اسکول بھیج رہی تھیں کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ زندہ قومیں اپنی تقدیر خود بدلتی ہیں اور اسکا واحد حل تعلیم ہے۔سانحہ آرمی پبلک اسکول کے شہید بچوں کی شہادت رائیگاں نہیں جائے گی تعلیم کی شمع کو روشن کرنا ہو گا کیونکہ میں اور اس وطن کی مٹی سانحہ آرمی پبلک اسکول کے شہداء کو ہمیشہ سلام پیش کرتی ہے۔کورونا وائرس کے باوجود اگر شاپنگ کی جا سکتی ہے دنیاوی رسم و رواج پورے کیے جا سکتے ہیں تو تعلیم کیلئے اسکول اور دیگر درس گاہیں کھولنا بھی بے حد ضروری ہے۔آئیں عہد کریں ہمیں ہمارے بچوں کو پڑھانا یے میرے ملک کے بچے دشمن کو نفرت ، ظلم اور دہشت گردی کے خلاف صرف تعلیم کے ہتھیار سے پڑھا سکتے ہیں۔پاکستان زندہ باد۔پاک فوج پائندہ باد۔
اہم بلاگز
حیا ! اسلامی شعار
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
انسان اگر ایک پھول ہے تو حیا اس کی خوشبو ہے ۔اور ہر انسان اپنی اسی خوشبو سے پہچانا جاتا ہے۔ہم جب بھی حیا کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد صرف لباس میں حیا نہیں ہے بلکہ بصری، سمعی اور قلبی حیا بھی ہے۔ جہاں لباس میں حیا سے انکار ممکن نہیں وہیں بصری، سمعی اور قلبی حیا کے بنا حیا مکمل نہیں ۔
بصری حیا کا تعلق ہماری آنکھوں سے ہے،یعنی اپنی آنکھوں کا درست استعمال یا نظروں کی پاکیزگی۔ یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ انسان جو کچھ دیکھتا ہے وہ اس کی سوچوں کو متاثر کرتا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ انسان فحش اور بے حیائی پر مبنی مناظر یا تصاویر دیکھے اور پھر بھی اس کا دل و دماغ پاک اور تقویٰ سے بھر پور ہو،اسی طرح سمعی حیا کو اختیار نہ کیا جائے اور اللہ کو ناراض کر نے والی موسیقی یا ڈراموں کے ڈائیلاگ سنیں جائیں اور ہمارا دل ایمان کی حلاوت سے بھرا ہوا ہو، یہی کیفیت قلبی حیا سے متعلق ہے، ہمارا قلب غیر اللہ کے ذکر سے پر ہو یا فحش سے بھرا ہوا ہو اور ہمارا ظاہر حیادار ہو؟
حیا کا تصور آتے ہی حجابی خواتین کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے۔ بے شک چادر، اسکارف اور گاؤن پردے کی علامت ہیں لیکن ان کا تعلق حیا کے ظاہری پہلو سے ہے جبکہ دل کی حیا ہمارے تقویٰ سے تعلق رکھتی ہے جب ہم اپنی آنکھوں، کانوں پر پابندی لگاتے ہیں کہ چاہے کچھ ہو جائے ہم فحش نہ دیکھیں گے اور نہ سنیں گے تو یہی بات ہماری باطنی حیا ہے۔
مکمل حیا کے حصول کے لیے جہاں خواتین و حضرات کا لباس اسلامی تقاضوں کو پورا کرتا ہو وہیں اپنی آنکھ ،کان اور دل کو حیا دار بنانا ضروری ہے۔
آج کے دور میں کہ جہاں مغربی تہذیب کی یلغار ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ تک رسائی ہر خاص و عام کو حاصل ہے۔ انٹرنیٹ جہاں ہماری ضرورت بن چکا ہے وہیں یہ بد نظری کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔بچے، بڑے، مرد اور خواتین سبھی اس بات سے بے پرواہ اپنا ایمان اور وقت اس کے ساتھ برباد کر رہے ہیں۔بجائے یہ کہ اس کااستعمال بہترین اسلامی روایات کے پھیلاؤ میں کیا جاتا الٹا چند ٹکوں کے لئے مسلمان اپنا اسلامی وقار داؤ پر لگائے ہوئے ہیں۔ٹک ٹاک،فیس بک اور انسٹا گرام وغیرہ پر اسلام کی ترویج کی بجائے حیا باختہ مواد پھیلایا جا رہا ہے۔ حیا باختگی کے نتیجے میں گھر اور رشتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ مرد اور عورت کا باہم اعتماد ناپید ہوتا جا رہا ہے۔طلاق کی شرح میں ہو شربا اضافہ ہو چکا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو"۔ واقعی جب ہمارا معاشرہ حیا سے خالی ہوا تو جس کے جو من میں آیا اس نے کرنا شروع کر دیا ۔قطع نظر اس کے کہ ان کاموں کے کیا نتائج نکلیں...
آسان نہیں مسلماں ہونا !
ایک تصویر میری نگاہوں کے سامنے ہے، کہنے کو تو یہ تصویر ہے اہل غزہ کی گھروں کی جانب روانگی کی، لیکن یہ دراصل داستان ہے ان مجاہدین اسلام کی جو حق کے لیے ڈیڑھ سال تنہا کمر بستہ کھڑے رہے ہیں، یہ راہ حق کے مسافران ، مجاہدین صدق وفا، پیکر صبر و استقامت اور علمبردار شجاعت ان میں کچھ چھوٹے ہیں کچھ بڑے بچے بوڑھے جوان عورتیں ان سب کی ایک منزل ہے یہ ایک ہی راہ کے راہی اور اللہ رب العزت کے سپاہی ہیں۔لٹے پٹے بے سروسامان گھروں کی جانب رواں جانتے ہیں وہ گھر اب کیا ہیں ؟ ملبوں کا ڈھیر،جہاں تعلیمی ادارے باقی ہیں نہ ہسپتال اور نہ ہی دیگر ضروریات زندگی،ان کےاپنے ان سے چھن گئے ہیں معذور ہوگئے زخمی ہیں لیکن اس سب کے باوجود ان کے چہروں پر امید اور رونق و بشاشت ہے ایسا آہنی حوصلہ نظر آرہا ہے کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہوگئی ہے ۔ یہ اہل غزہ درحقیقت فداک امی و ابی کی اعلیٰ مثال ہیں۔
ایک شعر ترمیم کے ساتھ انکی نظر ہے،،
اسی تے گلاں ای کردے رہ گئے
تے غزہ دے مجاہد بازی لیہہ گئے
انکی ایمانی طاقت کو، مقصد سے لگن کی قوت کو آفرین ہے سلام ہے ان کو ،ہم تو انکے لیے فقط دعا کرتے رہے۔ اور وہ تاریخ رقم کرتے رہے۔
شاید ایسے ہی ہمت اور حوصلے کے لیے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
ان اہل غزہ میں کوئی ماں سے محروم ہے توکوئی باپ سے کوئی اولاد سے کوئی شوہر سے کوئی بیوی سے کوئی بھائی بہنوں سے جدا ہے لیکن انکے حوصلے پر ہمارا دل فدا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دیگرصحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سےعرض کیا تھا! فداک امی و ابی سے نبی کریم ﷺ میرے ماں باپ آپﷺ پرقربان۔ یعنی اللہ اور اسکے رسول کے لیے ہمارا سب کچھ قربان اور حاضر ہے ۔ اسی کے مصداق اہل فلسطین نے فداک امی و ابی کی وہ اعلیٰ جیتی جاگتی زندہ و جاوید مثال قائم کی ہے جو ہمارے لیےمشعل راہ ہے۔ اب ان اہل فلسطین کے سامنے ایک اور سخت مشکل مرحلہ ہے
’’ری بلڈ فلسطین‘‘ یعنی فلسطین کی ازسرنو تعمیر
آج کل میڈیا پر لوگوں کی زبانوں پر اسی جملے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، ری بلڈ یعنی از سر نو تعمیر فلسطین۔
کہنے کو تو یہ جملہ منہ سے ادا کرنا بہت ہی آسان ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ پیسہ ہو تو سب کام آسان ہوجاتا ہے۔ لیکن اس فلسفے کی موجودہ حقیقت ہمارے سامنے آج اس شکل میں موجود ہے کہ امریکہ پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کا حامل ہوتے ہوئے بھی لاس اینجلس اور اطراف کے جنگلات میں بھڑکتی آگ اور ہوا تھپیڑوں سے اسے پھیلنے سے روکنےبمیں بازی ہار گیا، اب اعتراف شکست کرتے ہوئے پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ’’ری بلڈ لاس اینجلس‘‘ میں تیزی سے مصروف ہے، لیکن غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ اپنے مقصد میں کامیاب اپنے مشن سے...
مسئلہ کشمیر
مسئلہ کشمیر 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت پیدا ہوا جب مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کو بھارت میں شامل کر دیا، جسے کشمیری عوام اور پاکستان نے مسترد کر دیا۔ پہلی جنگِ کشمیر (1947-48) کے بعد اقوامِ متحدہ نے استصوابِ رائے کی قرارداد پاس کی، جو آج تک نافذ نہیں ہو سکی۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر بدترین ظلم ڈھائے، جن میں ماورائے عدالت قتل، پیلٹ گن حملے، اجتماعی قبریں، اور میڈیا و انٹرنیٹ کی بندش شامل ہیں۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی۔
پاکستانی حکومت سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتی رہی ہے، لیکن عملی طور پر زیادہ اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں، مگر بھارت پر مؤثر دباؤ ڈالنے میں کامیابی محدود رہی ہے
جماعت اسلامی کشمیر کی آزادی کے لیے مستقل سرگرم رہی ہے، جلسے، مظاہرے، اور سفارتی کوششوں کے ذریعے کشمیری عوام کی حمایت جاری رکھی ہے۔ جماعت نے مجاہدینِ کشمیر کی اخلاقی و سفارتی حمایت بھی کی
1990 میں جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد کی اپیل پر منایا جانے لگا۔ اس کا مقصد کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی اور دنیا کی توجہ اس مسئلے پر مرکوز کرنا ہے۔ پاکستان بھر میں اس دن مظاہرے، ریلیاں اور تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔
1۔ اقوامِ متحدہ، OIC اور عالمی طاقتوں کو بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے متحرک کیا جائے۔
2۔دوطرفہ مذاکرات : بھارت کو مذاکرات پر آمادہ کر کے کشمیری عوام کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔
3۔اعتماد سازی کے اقدامات : تجارتی تعلقات اور ثقافتی روابط کو بحال کر کے تعلقات بہتر بنائے جائیں تاکہ مسئلہ حل کی طرف بڑھے۔
4۔کشمیری عوام کی حمایت: کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے کے لیے میڈیا اور سفارتی ذرائع استعمال کیے جائیں۔
- سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا جائے۔
- مقامی و بین الاقوامی مظاہروں میں شرکت کی جائے۔
- حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ زیادہ مؤثر اقدامات کرے۔
- کشمیری عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کی جائے۔
اگر یہ تمام اقدامات مؤثر طریقے سے کیے جائیں تو مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے ۔
معلوم تاریخ کے پہلے ماحولیاتی ماہر
گلوبل وارمنگ، ماحولیات، آلودگی، صنعتی فضلہ یہ وہ اصطلاحات ہیں جو آج کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہر محفل میں کہیں نہ کہیں ان کا ذکر نکل ہی آتا ہے۔ جہاں چند لوگ بیٹھے ہوں تو یہ موضوع نہ چاہتے ہوئے بھی گفتگو میں شامل ہوہی جاتا ہے۔ پھر وہاں موجود افراد کسی ماہر ماحولیات کی طرح سنے سنائے حل بتانے لگتے ہیں اور اپنی باتوں میں وزن ڈالنے کے لیے اس بات کو کسی حقیقی ماہر سے جوڑ دیتے ہیں۔ یعنی ماحولیات کی اہمیت آج کے دور کا اہم ترین موضوع ہے، لیکن معلم اعظم محسن انسانیت نبی مکرمﷺ کی ذات مبارکہ کی تعلیمات اس مسئلے پر انسانی تاریخ کی پہلی اور جامع رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ تاہم نادانستہ ہم اس کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ حالانکہ آپ ﷺکی حیاتِ طیبہ کے ایسے بے شمار پہلو موجود ہیں جو ماحولیاتی تحفظ، وسائل کے اعتدال کے ساتھ استعمال اور قدرتی توازن کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
انسانی معلوم تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں واضح پتا چلتا ہے کہ جدید ماحولیاتی ماہرین کی رہنمائی، ان کے سائنسی اصول اور عملی تدابیر نبی کریمﷺ کے بیان کردہ اصولوں ہی سے اخذ کردہ ہیں۔ یہاں یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ جب دین اسلام رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے ہے تو پیغمبر اسلام کی تعلیمات بھی زندگی کے ہر شعبے میں قیامت تک رہنمائی کے لیے ہیں۔ ماحولیات کی جب بات کی جائے تو اس میں ہمارے اطراف میں موجود سب کچھ شامل ہے، یعنی انسان، ہوا، پانی، پہاڑ، درخت، چرند پرند، غرض کہ سب کچھ۔ بہ حیثیت انسان یہ ہماری بنیادی ذمے داری ہی نہیں بلکہ لازم (فرض) ہے کہ ہم ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار نہیں کرسکتے تو کم از کم اس کی خرابی میں بھی اپنا حصہ نہ ڈالیں۔ بلاوجہ درختوں کو نہ کاٹیں، جانوروں کو تنگ نہ کریں، پانی کے ذخائر کی حفاظت کریں یا پھر پانی کو احتیاط سے استعمال کریں کیونکہ اگر یہ سب یا ان میں کچھ بھی ہماری ملکیت میں ہے تو بھی اس کو ضائع کرنے کا حق ہمیں کسی صورت نہیں۔
جدید دنیا میں تحفظ ماحولیات کی باتیں بہت ہیں لیکن پیغمبر اسلامﷺ نے اپنی تعلیمات میں ان سب کی تلقین و نشان دہی بہت پہلے ہی کر دی تھی۔ احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے شجرکاری کو صدقہ جاریہ قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا یا ٹہنی ہو تو اگر وہ اسے لگا سکتا ہو تو ضرور لگائے‘‘(مسند احمد :حدیث نمبر 12902) (یہ حدیث قیامت کے قریب ترین حالات میں بھی ماحول کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے)۔ نبی کریمﷺکے دور میں زراعت کی حوصلہ افزائی کی گئی اور زمین کو بنجر رہنے سے بچانے کے لیے اصول مقرر کیے گئے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے:’’جو شخص زمین کو زندہ کرے (قابلِ کاشت بنائے)، وہ اس کا حق دار ہے‘‘(سنن ترمذی :حدیث نمبر1378) پھل دار اور سایہ...
فلسطین میں جنگ بندی
فلسطینی مجاہدین کی استقامت رنگ لائی اس کا نتیجہ جنگ بندی کی صورت میں سامنے ہے۔ اسرائیلی حکومت جو کچھ عرصہ پہلے فلسطینیوں کوختم کرنے کے دعوے کر رہی تھی اب اپنے قیدی چھڑوانے کے لئے حماس کی شرائط کو ماننے پر مجبور ہے،یہ خدا کی مدد کی ایک جھلک ہے۔
فلسطینی مجاہدین کے عزم ہمت اور حوصلوں کی داستانیں ہر شخص کی زبان پر عام ہیں وہ جس بلند مقصد کے لیے لڑ رہے ہیں وہ اللہ کو پسند ہے وہ اپنے وطن کی آزادی مسجد اقصیٰ کی حفاظت اور مظلوم فلسطینیوں کے حقوق کے لیے برسر پیکار ہیں انہوں نے اپنے گھر بار، عزیز ، رشتہ دار ، مال ، دولت حتی کہ اپنی جانیں بھی اس مقصد کے لیے قربان کر دیں۔ حماس کے رہنماؤں کی شجاعت زبان زد عام ہے ان کی زندگی ، ان کی ترجیحات کے بارے میں ایک دنیا جانتی ہے کہ وہ ظلم اور تشدد کے خاتمے کے لیے بد نیت اور بد اصل صیہونی افواج کے خلاف لڑتے رہے۔
اسرائیل ایک عالمی دہشت گرد ہے اس کے وزیراعظم کو عالمی عدالت نے جنگی مجرم قرار دیا ہے جسے اپنے مذموم انتہا پسند عزائم کا اعلان کرتے ہوئے ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ اس نے جنگ کے عالمی اصولوں کو بھی توڑا بچوں، عورتوں اور زخمیوں کا قتل عام کیا مگر آخر کار مجاہدین کی یلغار کے سامنے ٹھہر نہ سکا اور جنگ بندی پر مجبور ہو گیا۔
ہر چند کہ یہودیوں نے اسرائیل کی جنگ میں پیسہ پانی کی طرح بہا دیا نشریاتی اداروں کو خریدا سوشل میڈیا پر مہم چلائی تاکہ اپنے آپ کو مظلوم ثابت کر سکے لیکن شہیدوں کا خون رنگ لایا ، جذبہ جہاد کی بدولت مجاہدین کی مٹھی بھر فوج نے جدید ہتھیار رکھنے والی اسرائیلی فوج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔فلسطینی مجاہدین نے اسرائیلی حکومت کا غرور خاک میں ملا دیا اور اس نے جنگ بندی کے ساتھ حماس کی شرائط پر قیدیوں کے تبادلے کو قبول کر لیا۔
اسرائیل اپنے حواری امریکہ برطانیہ اور فرانس کی پشت پناہی کی بدولت جنگ کو مسلسل پھیلا رہا تھا جس میں بے گناہ انسانی جانوں کا ضیاع اس کی انسانیت دشمنی کی کھلی دلیل ہے۔ سول آبادی پر بمباری اسپتالوں اور اسکولوں کو نشانہ بنا دینے کے ساتھ کھلے عام فلسطینیوں اور ان کے بچوں تک کو ختم کرنے کے عزائم کا اظہار کر کے اسرائیل نے ثابت کر دیا کہ اس کی نظر میں انسانیت کا کوئی احترام نہیں اس کے برعکس حماس کی مٹھی بھر فوج نے یہ ثابت کر دیا کہ حق بات کے لئے آواز اٹھانے اور مظلوم کی مدد کے لیے لڑنے والوں کا مددگار اللہ ہے وہ ان کا رعب دشمنوں کے دلوں پر طاری کر دیتا ہے جس کی بدولت دنیا کی کوئی قوت انہیں شکست نہیں دے سکتی۔
دنیا بھر کے مسلمانوں نے فلسطینی عوام اور مجاہدین کے لیے آواز اٹھائی اور دعائیں کی۔ ان شاءاللہ فتح مجاہدین کا مقدر ہے مگر فلسطین میں اس وقت جنگ بندی میں مسلمان حکمرانوں کے لیے یہ سبق ہے کہ جب حماس کی...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔