سستی ایک دلکش دشمن

ایک طالب علم ڈاکٹر کے پاس گیا اور کہنے لگاسرمیرا دل کام میں بالکل نہیں لگتا ہے ۔مجھے کوئی دوا تجویز فرمادیجیئے ۔ڈاکٹر نے کہا بیٹا آ پ کو کوئی بیماری لاحق نہیں ہے بلکہ آپ سستی اور کاہلی کا شکار لگتے ہو۔طالب علم تھوڑی دیر تک سوچتا رہا پھر پوچھنے لگا سر سستی اور کاہلی کو طبی زبان(میڈیکل اصطلاح)میں کیا کہتے ہیں اگر بتا دیں تو بڑی عنایت ہوگی تاکہ میں اپنی والدہ کو جاکر بتا سکوں۔ اسے ایک لطیفہ ہی سمجھئے۔ لیکن میں آپ کو بتادوں کہ ’’سستی اورکاہلی‘‘ جیسا لفظ نفسیاتPsychology) (اور طب (Medical)کی لغات میں کہیں نہیں ملتاہے۔ سستی اور کاہلی کا شکار انسان دنیا میں ہنسی مذاق کا موضوع ہی بن جاتا ہے۔ تساہل و کاہلی خود فریبی کی بدترین کیفیت اور ایک ایسا نشہ ہے جو دنیا کے کسی بھی نشے سے سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ کاہلی اور سستی ایکاایسا سکون ہے جو انسان کو ایک گوناں گو عارضی سکون توفراہم کرتی ہے لیکن مستقبل میں اس کی بھاری قیمت بھی چکانی پڑتی ہے۔وقتی لذت دائمی مصائب کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔سستی و کاہلی کی وجہ سے طلبہ پشیمان اور شرمندہ تو رہتے ہی ہیں اس کے علاوہ ان میں شکستگی مزاجی اور اپنی ذمہ داریوں سے فرار کی کیفیت بھی عام طور پر پائی جاتی ہے۔ یہ ایک بہت ہی لطیف اورمسرت انگیز نشہ ہے کہ طلباء اپنی بیماری سے آگاہ ہوتے ہوئے بھی علاج سے کترا تے ہیں۔ طلبہ تساہل اور کاہلی کی وجہ سے خود کوبے بس و بے یارو مددگار سمجھنے لگتے ہیں۔بعض اوقات اپنے اڑیل اورسخت موقوف ’ہمیں کوئی پرواہ نہیں‘‘ سے خود مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔کاہلی و تساہل کے باعث طلبہ ہر قسم کی دستیاب سہولتوں اور وسائل سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا پاتے جس کی وجہ سے وہ شاندار اور عظیم کامیابی سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ کاہلی کوئی بیماری نہیں ہے بلکہ یہ ایک قسم کی کمزوری ہے ۔اہم کام پر کسی دلچسپ کام کو فوقیت دینا ہی دراصل کاہلی ہے۔

تکان بمقابلہ بوریت؛

کاہلی دوقسم کی ہوتی ہے ایک جسمانی اور دوسری ذہنی کاہلی۔جسمانی الکسی یا کاہلی کی ابتدا جسمانی تھکاوٹ سے ہوتی ہے جس کے زیر اثر آدمی جسمانی آرام کا خوگر ہونے لگتا ہے۔آدمی ہمیشہ آرام و راحت سے رہنا پسند کرتا ہے ۔تھکاوٹ کو اسی لئے وہ آرام کی ضد سمجھتا ہے۔قرآن کر یم فرماتا ہے کہ’’ ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔‘‘ پھر کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنے سے ٹال مٹول اور تساہل سے کام لیں۔ آرام اسی قدر مناسب ہوتا ہے جو جسم کو راحت و توانائی فراہم کر نے میں مدد گار ہو نہ کہ آرام طلبی کی وجہ سے انسان اپنے مقاصد اور منزلوں سے گمراہ ہوجائے۔ذہنی کاہلی سے مراد بے دلی ،مایوسی اور ناامیدی کی وہ کیفیت جو انسان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے جسے نفسیاتی اصطلاح میں بوریت بھی کہا جاتا ہے۔اساتذہ ،والدین اور طلبہ بوریت اور تھکاوٹ میں فرق کو ملحوظ رکھیں یہ دونوں کیفیات ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔تھکن بیشک ایک فطری تقاضہ ہے لیکن ہر وقت ہمارا ذہن و جسم آرام کا طلب گار نہیں ہوتا ہے ۔ کام یا مضامین میںدلچسپی کی کمی کو اساتذہ ،والدین اور طلبہ ہرگز تھکاوٹ پر محمول نہ کریں۔ تھکاوٹ اور بوریت میں واضح فر ق پایا جاتا ہے۔ طلبہ ہی نہیں بلکہ اکثراساتذہ بھی تھکاوٹ اور بوریت میں فرق کرنے سے چو ک جاتے ہیں جس کی وجہ سے طلبہ کے مطالعہ کے دوران در آنے والی بو ریت کو بھی تھکاو ٹ قرار دیتے ہیں۔ جب طلبہ پڑھائی کے دوران اپنی درسی کتب کو یہ کہتے ہوئے کہ ’’ وہ پڑھ کر بہت تھک چکے ہیں ان سے اب مزید ایک لفظ نہیں پڑھا جاسکتا ہے۔‘‘ درسی کتاب پھینک کر جب کوئی میگزین(جریدہ) یا اخبار اٹھاکر پڑھنے لگتے ہیں۔ یہ کیفیت تھکاوٹ نہیںبلکہ بوریت کی عکاس ہوتی ہے۔

درسی کتابوں سے اضطراب؛درسی کتابوں سے خوف طلبہ کی اکتاہٹ اور اضطراب کی غمازی کرتا ہے۔انسانی فطرت ہے کہ وہ جس کام کو بے کیف اور غیر خوش گوار محسوس کرتا ہے لاتعداد حیلے بہانے تراش کر اس کام کو معطل یا موخر کردیتا ہے۔لیکن طلبہ ذیل میں درج کردہ مشوروں پر عمل پیرائی کرتے ہوئے اس مضر عادت پر کامیابی سے قابو پاسکتے ہیں۔

(1)پڑھائی کےمقام یا میز کے سامنے پڑھائی کے آغاز سے دومنٹ قبل بالکل خاموش کھڑے ہوجائیں۔کتابوں کو بے چینی اور اضطراب کے بجائے بہت ہی خوش دلی اور دلچسپی سے ہاتھ میں لیں۔

(2)روزانہ پڑھائی کے لئے ایک وقت مقرر کر لیں اور باقاعدگی سے اسی وقت اپنی پڑھائی انجام دیں۔ہفتے میں مسلسل پانچ روز مقررہ شیڈول پر مطالعہ کرنے سے نہ صرف آپ کا میلان پڑھائی کی جانب بڑھنے لگے گا بلکہ آپ آسانی سے ایک مبسوط لائحہ عمل پر کامیابی سے عمل کرتے ہوئے امتحان کی تیاری میں خود کو مصروف رکھ سکیں گے۔

(3)کمزور ارادوں ،مضمحل قوت ارادی کے ساتھ کتابوں میں گھورتے نہ بیٹھے اور نہ کتابوں کو ہاتھ میں تھام کر خوابوں کی دنیا کی سیر میں نکل پڑیں۔آپ کا یہ عمل آپ کو پشیمانی اور خود اعتمادی سے محروم کردیتا ہے۔طلبہ کتاب تھام کر اگر خیالوں کی دنیا کی دنیامیں غلطاں ہوجائیں طلبہ ہی کیا کبھی کبھار ہم سبھی اس فعل کے مرتکب ہوتے ہیں۔پریشان نہ ہوں بلکہ کتابوں سے منہ موڑکر کھڑے ہوجائیں لیکن پڑھائی کے کمرے سے ہرگز باہر نہ نکلیں۔طلبہ کا کتاب سے منہ پھیر کر کھڑے ہونے والایہ جسمانی فعل ان کو پھر سے اپنے کام میں واپس لانے میں مددگار ہوتا ہے۔ طلبہ جستجو و کوشش کریں ۔خود کلامی جیسے ’’میں اب بالکل کمر کس کر مطالعہ کے لئے کھڑا ہوچکا ہوں اور کام مکمل کر کے ہی دم لوں گا‘‘سے کام لیں۔یہ جملے طلبہ کو صحیح ڈگر پر گامزن کرنے کے لئے کافی ہوتے ہیں۔

(4)طلبہ پڑھائی میں بوریت کا شکارہونے پر تنوع سے کام لیں۔اگر وہ مطالعہ میں مصروف ہوتو کسی تحریری کام کو انجام دیںیا پھر کمپیوٹر پر اپنے نصاب سے متعلق معلومات اکٹھا کریں یا مواد و تصاویر پر سرسری نظر ڈالیں۔ احقر خوداپنے کام اسی طریقہ سے انجام دیتا ہے اور میرے تجربے کے مطابق یہ تکنیک اکتاہٹ اور بوریت کے خاتمے میں نہا یت سود مند اور کارگر ہے۔

(5)طلبہ ہمیشہ محنتی ،ذہین اور اچھے تعلیمی ریکارڈ کے حامل بچوں کی صحبت کو اختیار کریں۔کاہل افراد کاہل دوستوں کو ہی پسند کرتے ہیںاسی لئے سست ،کاہل اور لاپرواہ دوستوںسے اجتناب کر یں۔ذہین طلبہ کے کام کرنے کے طریقہ کار کا بغور جائزہ لیں اور موازنہ کریں کہ آپ جو کام کررہے ہیں وہ اسی کام کو کس انداز سے بغیر کسی بوریت اور تھکاوٹ کے انجام دے رہے ہیں۔ مشاہد ے کی عادت طلبہ کو تھکاوٹ سے نبرد آزمائی کے ساتھ مشام جاں کو کامیابی کی خوشبو سے معطرکر تی ہے۔ جماعت میں امتیازی مقام حاصل کرنے پر طالب علم والدین ،اساتذہ ،دوست اور احباب کی ستائش سے تحریک پا کر اپنے تعلیمی مظاہر ے میں اور بہتر ی لاتا ہے۔والدین جب اپنے بچے کو دوسرے بچوں کے سامنے ایک مثالی طالب علم کے طور پر پیش کرتے ہیں تب بچہ کا سینہ فخر سے پھول جاتا ہے۔والدین اساتذہ اور دوستوں کی ستائش اس کی حوصلوں میں نئی توانائی اور طاقت بھر دیتی ہے۔

صحت اور تھکان؛طلبہ کی ذہنی صحت کا دارو مدار جسمانی صحت پر منحصر ہوتا ہے۔طلبہ اپنی روز مرہ کی سرگرمیوں میں اپنی صحت اور جسم کی صافی ستھرائی بھی شامل رکھیں۔یہ بڑی بدبختی ہے لوگ اپنی ظاہری وضع قطع اور لباس پر تو توجہ دیتے ہیں لیکن صحت سے لاپرواہی اختیار کر تے ہیں۔طلبہ کو نہ ہی والدین اور ان کے اساتذہ عمر کے ابتدائی سالوں میں حفظان صحت کے بنیادی اصولوں سے واقف نہیں کر تے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنی صحت پر کوئی توجہ دیتے۔میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی سطح پر پیشہ وارانہ کورسس کی مسابقت طلبہ کو ایک مشین بنا دیتی ہے جس کو وجہ سے وہ جسمانی ورزش کو بالکل ہی نظر انداز کردیتے ہیں۔طلبہ کی چستی اور سستی غذا اور مائعات(مشروبات) کا خاص کردار ہوتا ہے۔

جنک فوڈ (Junk Food) جیسے پیزا ،برگر،فاسٹ فوڈز،تیل والی غذائیں اور چاکلیٹ بچوں میں غنودگی پیدا کرتے ہیں۔غذائی اطوار میں تبدیلی کے ذریعہ طلبہ سستی و کاہلی کے خلاف اعلان جنگ کر سکتے ہیں۔ذیل میں چندسستی و کاہلی دور کرنے کے لئے چند تجاویز پیش کی جارہی ہیں۔

(1)پڑھائی کے دوران پانی کا زیادہ استعمال کریں یہ آپ کو ترو تازہ اورچست رکھنے میں بہت مددگار ہوتا ہے۔

(2)بائیس اقسام کے امینو ایسڈ(Amino Acids)پائے جاتے ہیں جن میں 8ایسے ہوتے ہیں جو جسم میں پیدا نہیں ہوتے ہیںجن کو غذا کے ذریعہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔سویا بین طلبہ کے لئے تغذیہ سے بھر پور غذاہے ڈاکٹرز بھی اس کے استعمال کی حمایت کررہے ہیں۔یہ سفوف کی صورت میں دستیاب ہوتا ہے جس کو طلبہ دودھ اور پھلوں کے رس میں ملا کر دن میں دوبار استعمال کرتے ہوئے ترو تازہ رہ سکتے ہیں۔

(3)پروٹین،بینس(پھلیاں) نٹس(خشک میوے) انڈا اور دودھ انسا ن کو چست رکھنے میں معاون ہوتے ہیں۔اگر طلبہ فربہی (موٹاپے) کاشکار نہ ہو تورات کو سونے سے پہلے ایک کیلا اور ایک گلاس دودھ یا پھر دونوں میں سے کوئی ایک شئے کو استعما ل کریں۔لیکن پڑھائی کے دوران طلبہ ان اشیاء کو قطعی استعمال نہ کریںخاص طور سے رات میں مطالعہ کے دوران تو اجتناب ضروری ہے کیونکہ ان کا شمار نیند آور اشیا ء میں ہوتا ہے۔

(4)بسیار خوری(خو ب کھانا) سے آدمی سستی اور نیند کا غلبہ ہوتا ہے اسی لئے دوپہر اور رات کے کھانے میں حسب ضرورت تخفیف

(25%)ضروری خیال کی جاتی ہے۔یہ عمل سنت کے عین مطابق بھی ہے ۔لیکن صبح میں بھر پور ناشتہ لیں اور شام کے وقت بھی ہلکی پھلکی غذائی اجناس سے اپنی سستی اور کاہلی کو بھگانے کا انتظام کریں۔

(5)ناشتہ اور دوپہر کے کھانے میں کاربوہائیڈریٹس(نشاستے سے پرغذا)سے پر غذا،چاول ،گیہوں اور دالوں کو استعمال کریں۔

(6)کسی بھی انسان کو دن بھر میں 2500کیالوریز(حراروں) کی ضرورت ہوتی ہے۔جنک فوڈ چپس وغیرہ کی ایک سوگرام کی ایک پیاکٹ یا ایک چاکلیٹ میں 300تا 480کیالوریز(حرارے)پائے جاتے ہیں۔اسی لئے جنک فوڈ سے طلبہ بہر حال پرہیز کریں۔

(7)مٹھائیاں اور ٹھنڈے مشروبات کا جب ہم استعمال کرتے ہیں ان میں پائی جانے والے سادہ نشاستے(Simple Carbohydrates)اور شکر فوری خون میں شامل ہوجاتے ہیں۔انسولین کے اخراج کے ذریعہ ہمارا جسم ان مادوں سے مدافعت پید ا کرتاہے اور اسی مدافعت کی وجہ سے اعصابی نظام کو مدافعت کے لئے ز یادہ گلوکوز کی ضرورت ہوتی ہے ۔گلوکوز کے زائد استعمال کی وجہ سے بعد میں جسم کو گلوکوز کی قلت کا سامنا کرناپڑتا ہے ۔شکر کو گلوکوز میں تبدیل کرنے کے لئے جسم کو زیادہ مقدار میں آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے ۔جس کی وجہ انسان غنودگی اضطراب ،بے چینی ،سردرد،اور پیاس کی شکایت کرنے لگتا ہے۔طلبہ پڑھائی کرنے سے پہلے اور پڑھائی کے دوران میٹھی ا شیاء کے استعمال سے خصوصا پرہیز کریں۔امتحانات سے ایک مہینہ قبل تو میٹھی اشیا ء کا استعمال بالکل تر ک کردیں۔

(8)چٹ پٹے ،مسالہ دار کھانے ذائقہ کی وجہ سے ہر ایک کو مرغوب ہوتے ہیں۔مرچ میں پائے جانے والا ایک کیمیائی مادہ(Capsocycin)دماغ کو ہل من مزید کا پیغام بھیجتا ہے جس کی وجہ سے لوگ ضرورت سے زیادہ کھالیتے ہیں اسی لئے طلبہ چٹ پٹے اور مسالہ دار غذا سے پرہیز کریں تاکہ بسیار خوری اور سستی اور کاہلی سے خود کو محفوظ رکھ سکیں۔

(9)لوگ عموما رات کے کھانے میں روٹی اور دوپہر کے کھانے میں چاول شامل کرتے ہیں جب کہ روٹی دیر سے ہضم ہوتی ہے اور بھر پور توانائی فراہم کرتی ہے جس کی وجہ سے دوپہر میں روٹی کھا کر آدمی خود کو ہلکا پھلکا اور چست و توانارکھ سکتا ہے جب کہ چاول جلد ہضم ہوجاتا ہے لیکن اس کے کھانے سے طبیعت میں بھاری پن پیدا ہوجاتاہے۔اسی لئے چاول کو اگر رات میں استعمال کیاجائے تو مناسب ہوتا ہے ۔جس کی وجہ سے دن کی سرگرمیوں کو بغیر کیسی سستی کے انجام دے سکتے ہیں۔

(10)ایک غیر منظم طرز زندگی گزارنے ولا طالب علم روزانہ 30منٹ کی ورزش جیسے چہل قدمی، دوڑ (Jogging)او دیگر بیرون خانہ کھیل کود کے ذریعہ اپنے آپ کو چست و تندرست رکھ سکتا ہے۔30منٹ کی چہل قدمی 100 کیا لوریز کو جلاتی ہے جب کہ ورزش گاہ (جم) میں کثرت کے ذریعہ 150کیالوریز خرچ ہوتی ہیں۔تین منزلہ بلڈنگ پر چارمرتبہ چڑھنے اور اترنے سے 120کیالوریز خرچ ہوتے ہیں۔ایک گھنٹہ سر کو دیوار سے ٹکرانے سے 150کیالوریز خرچ ہوتے ہیں۔ایک پیزا میں 600کیالوریز پائی جاتی ہیں غور کر یں کہ طلبہ ایک پیز ا کھانے کے بعد کیالوریز کو جلانے کے لئے چار گھنٹے سر کو دیوارسے ٹکرانا پڑئے گا۔اب فیصلہ آپ کے ہاتھ کہ آپ کو کیا کھانا اور کیا نہیں کھانا ہے۔آپ شکایت کرنے لگے کہ مزے دار اور لذیذ غذا کے استعمال سے پرہیز کرتے ہوئے دیگر تفریحات (ٹیلی ویژن،کھیل کود) سے احتراز کرتے ہوئے کیسے زندہ رہیںگے۔لذیذ کھانوں اور تفریحات سے ہم آپ کو مکمل اجتناب سے منع نہیں کر رہے ہیں اور نہ آپ کو ایک راہبانہ اور درویشانہ زندگی گزارنے کے لئے کہہ رہے ہیں۔لذیذ کھانوں کے لئے ہفتہ میں ایک دن مختص کر لیں تاکہ آپ کی تعلیمی سرگرمیوں میں کوئی خلل نہ پڑسکے۔غذا سے پرہیز کا مطلب کم خوارک نہ سمجھیں بلکہ اپنی مرغوب غذا کو مناسب مقدار میں لینا ہی پرہیز کہلاتا ہے۔مناسب مقدار میں غذا لینے سے ہارمونس کا اخراج معتدل رہتا ہے۔کیا لوریز کے حصول میں محتاط رہیں۔دل کو لبھانے والے ہر ذائقہ دار غذا صحت کے لئے ضروری نہیں ہے۔ٹھنڈے مشروبات میں استعمال ہونے (Polyethyelen Gycolکوگاڑیوں میں انجماد کے خاتمے کے لئے کیا جاتا ہے۔یہ آنتوں کے لئے نہایت مضر ہوتی ہے جس کی وجہ سے معدے کی تیزابیت کے مسائل سر اٹھاتے ہیں۔بوتلو ں پر چسپاں غذائیت سے بھر پو ر مشروب(Diet Drink)کے لیبل سے گمراہ نہ ہوں۔ٹھنڈے مشروبات میں مستعمل شکرین(Saccharin)کی وجہ سے انسان بے خوابی،چڑچڑے پن،چکر ،سردرد ،اور کمزوری جیسے متعدد مسائل کا شکار ہوجاتا ہے۔

سستی اور کاہلی سے بچانے والی غذائیں؛ طلبہ سستی کاہلی اور اپنے چہرے سے کیل مہاسوں سے چھٹکارا او ر بالوں کے گرنے پر قابو پانے، اپنی صلاحیتوں کو دگنا اور اپنے جسم کو چستی و توانائی سے معمور کرنے کے لئے یہاں بیان کردہ غذائی عادات کو اپنائیں۔

(1)علی الصبح بیداری پر دوگلاس سادہ پانی ،ایک کٹورا بھر میوہ جات سیب،کالے انگور،آم تربوز،پپائی اور سنتر ے کی شاخوں کو استعمال کریں۔اگرآپ تمام میوہ جات کے خرچے کے متحمل نہ ہوتو کم از کم روزانہ اپنی پسند کا کوئی ایک پھل ضرور استعمال کریں۔ترش میووں سرخ چکوترا(Redgrape Fruit) اور لیمو جسم سے فاسدے مادوں کے اخراج اور توانائی وتازگی فراہم کرنے میں مدد گار ہوتے ہیں۔کھٹے پھل ،ٹماٹر،انناس بھی جسم کو تروتازہ رکھنے اور توانائی فراہم کرنے میں مددگار ہوتے ہیں۔صبح کے ناشتے میں تین سنتروںکے رس میں آدھا سرخ چکوترے (Redgrape Fruit)ملا کر استعمال کریں ۔یہ صبح میں سب سے تیز توانائی اور ترو تازگی فراہم کرنے والا فوڈ سپلیمنٹ ہے۔ہر ایک گھنٹے کے بعد چھانج کا ایک گلاس ،گاجر یا سنترے کا رس سویا بین کا سفوف ملا کر استعمال کریں۔بازار میں سویا بین اور مختلف پھلوں کے رس پلاسٹک کی گلاسوں میں دستیاب ہیں جن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے اور ان کو ساتھ رکھنے میں کوئی پریشانی بھی نہیں ہوتی ہے۔اسکول ،کالج یا کام پر روانہ ہونے سے پہلے اڈلی،دوسہ ،سینڈوچ ،کارن فلیکس ،پوری،روٹی چپاتی یا پھر آپ کی پسند کی کوئی بھی غذا استعمال کرسکتے ہیں۔لیکن خیال رکھیں کہ کیالوریز کی مقدار 600سے تجاوز نہ کرنے پائے۔کیالوریز سے پر اور بھاری غذا کے متعلق چھوٹی سے وضاحت آپ کے لئے مددگار ثابت ہوگی۔شکم سیر ی کے لئے 10اڈلی یا 5پوری کا اگر استعمال کررہے ہوتو مونگ پھلی یا ناریل کی چٹنی کے استعمال سے گریز کریںاس کے استعمال سے کیالوریز کی مقدار میں دگنا اضافہ ہوجاتا ہے اسی لئے ان سے گریز یا پھر غذا میں تخفیف ضروری ہوجاتی ہے۔

دوپہر کا کھانا؛انڈے کے سالن ،پکی ہوئی سبزیوںیا بغیر تیل والی دال اچار اور چٹنی کے دو روٹیوں کااپنی دوپہر کی غذا میں شامل کریں۔

شام کا ناشتہ ؛تیل سے پاک اشیاء گاجر اور سلاد کا استعمال شام کے وقت مناسب ہوتا ہے۔

رات کا کھانا؛سالن کے ساتھ چاول لیں دہی اور گوشت سے ہفتے میں کم از کم تین دن ضرور پرہیز کریں۔

رات کے وقت ؛رات میں پڑھائی کے دوران کم از کم تین گلاس پانی اور ایک گلاس چھانج ضرور لیں۔سونے سے پہلے اگر آپ موٹا پے (فربہی)کا شکار نہ ہوتو ایک کیلا اور اگر چاہیںتو ایک گلاس دودھ ضرور پی لیں۔پھل اور گاجر کے استعمال دماغ پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔دماغ کو فعال بنانے کے لئے تازہ پھلوں کا استعمال کریں۔پھلوں میں پائے جانے والی قدرتی شکر دماغ کو فعال بنانے میں مددگار ہوتی ہے۔پھلوں کے استعمال سے فکر تیز اور حافظہ مضبوط ہوتا ہے۔ذیل میں دماغ پر منفی اثرات مرتب کرنے والی غذائوں میں میدہ ،پنیر،ریفائنڈ شکر،پروٹین (گوشت کا ذیادہ استعمال)،اورنشاستہ (آلو) جو دیر سے ہضم ہوتے ہیں جس کی وجہ سے سستی اور نیند کا غلبہ ہوتا ہے ۔جنک فوڈ جیسے پانی پوری،پائو بھاجی،چاٹ،مرچی بھجیوں کا پڑھائی سے پہلے ہر گز استعمال نہ کریں۔وافر پانی کا استعمال ،چھانج اور پھلوں کے رس کا استعمال جسم سے کاہلی و سستی کو دور کرتے ہوئے چست کو بھر دیتا ہے۔سستی کاہلی ایک کیف آور نشہ ہے سستی سے لڑنا نفس کے خلاف جہاد کرنا ہے۔اس کمزوری پر مسلسل کوشش سے ہی قابو پایا جاسکتا ہے۔اپنی اصلاح کے ذریعہ ہی سستی اور کاہلی کو دور کیا جاسکتا ہے۔ایک آدمی میں اپنے کام میں مصروف تھا اس چھوٹا سا بیٹا اس کے کام میں مسلسل خلل پیدا کر رہا تھا۔آدمی نے میز پر رکھے ہوئے ایک نقشے کو پھاڑ کر بچے کو اسے جوڑ کر لانے کو کہا۔وہ سوچ رہا تھا کہ اب اس کو تین چار گھنٹوں تک بچہ سے فرصت مل جائے گی۔لیکن اس کی حیرت کی انتہا نہیں رہی جب بچہ صرف پندرہ بیس منٹ میں نقشے کو جوڑ کر حاضر ہوگیا۔والد نے پوچھا بیٹا اتنا مشکل کام تم نے اتنی جلد ی کیسے انجام دیا۔لڑکا کہنے لگا ابو جب آپ نقشے کو پھاڑ رہے تھے تب میں نے دیکھا کے اس کے پیچھے ایک بڑی تصویر بنی ہوئی ہے ۔میں تصویر درست کر دی اور نقشہ اپنے آپ درست ہوگیا۔عزیز طلبہ ہم بھی جب اپنی تصویر درست کرلیں گے نقشہ اپنے آپ درست ہوجائے گا۔ہم اپنے ماحول،حالات اور تعلقات کو درست کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن نقشہ ٹھیک ہی نہیں ہونے پاتا کیونکہ تصویر ہی ٹھیک نہیں ہوتی ہے۔جب تصویر ٹھیک ہوجائے گی حالات ،تعلقات اور ماحول اپنے آپ درست ہوجائیں گے۔طلبہ پہلے اپنی اصلاح اور تنظیم کی طرف توجہ دیںتبھی سستی اور کاہلی ان کا پیچھا چھوڑے گی۔طلبہ اپنی طبیعت مزاج ،عادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کام اور اصلاح کا طریقہ کار اپنائیں اساتذہ،والدین اور بزرگوں سے مفید صلاح و مشورہ کریں،اہم کاموں کو نوٹ کرتے ہوئے انھیں چھوٹے چھوٹے حصوں میںمنقسم کردیں تاکہ سہولت ہو اور آپ سستی،کاہلی اور بوریت کا شکار نہ ہوپائیں۔اپنے ہر کام میں توازن اور تواتر کو برقرار رکھیں۔معمولی سی کامیاب کا جشن مناکر خواب خرگوش میں نہ چلے جائیں ورنہ کچھوا اپنی مسلسل کوشش و جستجو سے یقینا آگے نکل جائے گا اور آپ کف افسوس ملتے رہ جائیں گے۔

نوٹ؛اس مضمون میں طلبہ کے دلکش دشمن کے زیر عنوان صرف سستی کو زیر بحث لایا گیا ہے دیگر دلکش دشمنوں جیسے تساہل ،قوت فیصلہ کا فقدان،تنظیم اوقات کا فقدان اور دیر تک جاگنا اور دیر تک سونا وغیرہ پر اگلے مضامین میںروشنی ڈالی جائے گی۔

حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔

22 تبصرے

جواب چھوڑ دیں