کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ صرف کشمیری ہی کر یں گے۔ یہ فیصلہ کرنا کشمیریوں کا انسانی اور فطری حق ہے۔جب تک کشمیریوں کو یہ حق نہیں ملتا اس وقت تک اس منطقے میں تعمیری، اقتصادی اور ترقیاتی منصوبوں کی کوئی پائیدار ضمانت نہیں۔ اگر کشمیریوں کو اُن کا حق خودارادیت نہیں دیا گیا تو اس سے کشمیریوں کی تحریکِ آزادی دبے گی نہیں بلکہ اپنا رُخ تبدیل کر لے گی۔ اگر یہ تحریکِ آزادی منطقی راہِ حل کے بجائے غیر منطقی طور پر اپنا رُخ بدل لیتی ہے تو پھر اس منطقے کی تمام ریاستوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
اس منطقے کو آزادی دلانے کیلئے آزاد کشمیر کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ اسی لئے آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو رام کرنے کیلئے ہندوستان پھرپور انداز میں فعالیت کر رہا ہے۔آئیے دیکھتے ہیں کہ گزشتہ چند دہائیوں میں کشمیریوں پر خصوصا آزادکشمیر پر ہندوستان کے ذرائع ابلاغ ، پروپیگنڈوں اور ہندوستانی سیاست کے کتنےاثرات مرتب ہوئے ہیں اور یہاں کی مقامی آبادی اس وقت جدوجہد آزادی کیلئے کتنی تڑپ رکھتی ہے۔
:آزاد کشمیر کی اہمیت
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ آزاد کشمیر در اصل جدوجہد آزادی کا بیس کیمپ ہے۔ اگر یہ کیمپ کمزور ہوگا تو جدوجہد آزادی پربراہِ راست منفی اثرات مرتب ہونگے، ہمیں اگر کشمیریوں کیلئے کچھ کرنا ہے تو آزاد کشمیر کے ذریعے سے ہی کچھ ہو سکتا ہے۔ 24 اکتوبر 1947کو آزاد کشمیر حکومت قائم ہوئی۔ بھارت باقی ماندہ کشمیر کو بچانے کے لئے یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں لے گیا، اقوام متحدہ نے کشمیر میں استصواب رائے کا فیصلہ کیا جسے پاکستان و ہندوستان دونوں نے تسلیم کیا۔آزاد کشمیر حکومت کا اعلان در اصل مقبوضہ کشمیر کے بیس کیمپ کے طور پر کیا گیا تھا۔ اس ریاست نے ابھی تک چھبیس صدور کا دورانیہ گزارا ہے اور مجموعی طور پر آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے زیادہ عرصہ حکومت کی ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ جب آزاد کشمیر میں ہر وقت مقبوضہ کشمیر کی وجہ سے دردوغم کا سماں طاری رہتا تھا، درسی کتابوں میں تاریخ کشمیر، مشاہیر کشمیر اور کشمیری تمدن اور تہذیب و ثقافت کو بڑے جوش و جذبے اور اپنائیت کے ساتھ پڑھایا جاتا تھا، نیز کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ بچے بچے کی زبان پر ہوتا تھا موجودہ صورتحال شاید کچھ مختلف ہے۔عوام میں اب بھی مقامی طور پر کشمیر سے جذباتی لگاو تو موجود ہے لیکن اس لگاو میں وہ پہلی سی آب و تاب نہیں رہی۔آئیے بیس کیمپ میں سرد مہری کی وجوہات کا منصفانہ جائزہ لیتے ہیں۔
بیس کیمپ میں اس سردمہری کی چھ بنیادی وجوہات ہیں:۔
۔ ہندوستانی فلموں، ڈراموں اور گانوں کی یلغار
بلاشبہ ہندوستان کی فلم انڈسٹری دنیا کی موثر ترین فلم انڈسٹری ہے، پاکستان کی طرح ہندی فلمیں اور گانے آزاد کشمیر میں بھی مقبولیت عام کا درجہ رکھتے ہیں۔ کشمیر کے موضوع پر ہندوستان نے متعدد فلمیں بنا ئی ہیں، ان فلموں کے ذریعے ہندوستان رائے عامہ پر اثر انداز ہونے میں کافی حد تک کامیاب ہواہے۔ اس کے علاوہ فحش گانے اور لچرموسیقی ویسے بھی انسان سے دینی و قومی غیرت ختم کر دیتی ہے۔ چنانچہ ہندوستانی ڈراموں، فلموں،گانوں اور ثقافت کا اثر پبلک ٹرانسپورٹ، ہوٹلوں، گھروں اور شادی بیاہ میں عام دیکھنے کو ملتا ہے۔لہذا اب بیس کیمپ میں حقِ خودارادیت کے نعروں اور آزادی کے ترانوں کی جگہ آشتی، پریم اور پیار کے سندیسوں نے لے لی ہے۔
۔ جہادی کیمپوں سے عوام کا متنفر ہونا
اس مسئلے نے شدت کے ساتھ تحریک آزادی کی ساکھ کو متاثر کیا۔ مقبوضہ کشمیر میں بعض شدت پسند ٹولوں نے اپنی آزاد عدالتیں لگا کر مقامی لوگوں کو ہندوستان کے لئے مخبری کے جرم کے شبے میں موت کے گھاٹ اتارا جس سے لوگوں میں جہادی کیمپوں کے خلاف شدید نفرت کی لہر پیدا ہوئی اور ہندوستانی حکومت نے اس کو بھرپور انداز میں کیش کیا، اسی طرح آزاد کشمیر میں متعدد جگہوں پر جہادی کہلانے والوں نے پولیس کی پٹائی کی، بعض مقامات پر لوگوں کو اغوا کیا اور کچھ مقامی بااثر شخصیات حتی کہ ایم این اے وغیرہ کو بھی مارا پیٹا گیا۔یہ وہ حقائق ہیں جو ارباب دانش سے پوشیدہ نہیں ہیں لہذا ابھی بھی ضرورت ہے کہ کشمیر میں جہادی سرگرمیوں کو دہشت گردوں کی سرپرستی، اسلحے کی نمائش،فرقہ واریت، اغوا برائے تاوان اور شدت پسندی کی ڈگر سے ہٹایا جائے۔
۔ پاکستان میں فرقہ وارانہ قتل و غارت
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر انسان اس لئےقربانی دیتا ہے تاکہ اس کے ہم فکر، ہم عقیدہ اور ہم وطن محفوظ رہیں، کوئی بھی شخص اس لئے اپنی جان نہیں قربان کرتا کہ اس کے بعد اس کے بچوں کو سکولوں میں گولیاں مار دی جائیں اور اس کے عزیزوں کے گلے کاٹے جائیں۔ پاکستان میں ہونے والے فرقہ وارانہ قتل و غارت نے بھی اہلِ کشمیر پر اثرات مرتب کئے ہیں۔
جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ کشمیر میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان منقسم ہے۔ جب لوگ پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ ، خود کش دھماکوں اور قتل و غارت کے واقعات سنتے اور دیکھتے ہیں تو وہ قطعا یہ نہیں چاہتے کہ ہم اتنی قربانیاں دینے کے بعد ہندوستان کے کھشتریوں کی غلامی سے نکل کر پاکستان کے تکفیریوں کے غلام بن جائیں۔
کچھ سال پہلے توآزاد کشمیر میں بھی صورتحال اتنی سنگین ہو گئی تھی کہ بعض شدت پسند حضرات پبلک ٹرانسپورٹ میں سوار ہوجاتے تھے اور ڈرائیور سے کہتے تھے کہ یہ کیسٹ لگاو، ان کیسٹوں میں مکمل فرقہ وارانہ تقریریں اور کافر کافر کے نعرے ہوتے تھے۔ بعد ازاں مظفر آباد کی امام بارگاہ میں خود کش دھماکے میں کئی لوگ شہید ہوئے۔ دھماکے کی تفصیلات کے مطابق ماتمی جلوس جب امام بارگاہ میں پہنچا تو خود کش حملہ آور جلوس میں شامل ہو گیا تاہم جلوس میں جورضا کار شامل تھے انہوں نے اسے پہچان لیا اور اسے روکنے کی کوشش کی تو اس نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا لیا۔ جس سے انسانی اعضا اور گوشت کے چیتھڑے دور دو رتک بکھر گئے۔اسی طرح ٹارگٹ کلنگ نے بھی لوگوں کو چونکا دیا ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ شدت پسندوں نے پاکستان کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر میں بھی اپنا نیٹ ورک مضبوط کیا ہے۔
ہندوستانی ذرائع ابلاغ نے اس قتل و غارت کو خوب اچھالا جس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیرکے لوگ اب یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ پاکستان تو اس لئے بنایا گیا تھا کہ اس میں سارے مسلمان آزادی کے ساتھ زندگی گزاریں گے لیکن اب تو یہاں کوئی عبادت گاہ ، بچوں کے سکول، مساجد، چرچ، مندر اور عام شہریوں کی زندگی تک محفوظ نہیں۔
۴۔ نصابِ تعلیم
اقوام کی زندگی میں نصابِ تعلیم کو لوحِ محفوظ کی سی حیثیت حاصل ہے۔ اقوام کی تقدیر نصابِ تعلیم کے مرہونِ منت ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر کے تعلیمی اداروں کا نصابِ تعلیم جدوجہدِ آزادی کی پٹڑی سے اتر چکا ہے۔ معیاری تعلیم کی آڑمیں آکسفورڈ اور کیمرج کے نام پر تاریخ کشمیر ، کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت، کشمیری مشاہیر اور شہدا نیز کشمیری ثقافت نیز تہذیب و تمدن کو تقریبا فراموش کر دیا گیا ہے۔اب پاکستان کی طرح آزاد کشمیر کا نصابِ تعلیم بھی بہترین اقتصاد اورخوب کماو تک محدود ہے۔ چنانچہ اب جو نسل پروان چڑھ رہی ہے اس نے بھی آئندہ ماقتصادی منافع اورخوب کماو کی عینک سےہی مسئلہ کشمیر کو دیکھنا ہے۔
۵۔ فکرِ معاش اور مہاجرت
پاکستان کی طرح آزاد کشمیر میں بھی فکرِ معاش سب کو دامن گیر ہے۔ یہاں کے لوگوں کی اکثریت روزگار کی تلاش میں عربی یا مغربی ممالک کا رخ کرتی ہے ۔اکثر اوقات فطری اور طبیعی طور پر یہ لوگ جہاں جاتے ہیں وہیں کی بودوباش اختیار کر لیتے ہیں۔ جہاں محنت اور خدمت کرتے ہیں وہاں کے روزمرہ مسائل میں ہی الجھ جاتے ہیں، اگرچہ دوسرے ممالک میں مقیم کشمیری اپنے کشمیری بھائیوں کے حقِ خودارادیت کیلئے جلسے جلوس اور ریلیاں نکالتے رہتے ہیں لیکن اُن کی اس فعالیت پر کشمیری ثقافت، سیاست اور تمدن کی چھاپ نہیں ہوتی۔ بعض جگہوں پر تو فنڈز ریزنگ کی خاطر ریلیاں وغیرہ فقط فوٹو سیشنز اور خانہ پُری کیلئے ہی نکالی جاتی ہیں۔
۶۔سیاست میں اقربا پروری
آزاد کشمیر کی سیاست میں برادری ازم کومرکزی حیثیت حاصل ہے، برادری کی چھتری کے نیچے ہی آپ کی شناخت قائم رہتی ہے۔ اگر آپ کے نام ساتھ کسی برادری کا سابقہ یا لاحقہ نہیں ہے تو آپ کچھ بھی نہیں ہیں۔پاکستان کی طرح یہاں بھی آپ کی شخصیت کی میزان آپ کی برادری کو سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ یہاں بھی عام طور پر لوگ اپنی پہچان اپنے کردار و اخلاق کے ساتھ کروانے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ اپنے ناموں کے ساتھ چودھری، راجہ، سید،شاہ، سردار، بٹ ، آرئیں، ملک راجپوت،سدھن، وغیرہ وغیرہ لگاکر اپنی پہچان کرواتے ہیں۔ یہی یہاں کی سیاست کا بھی چلن ہے۔ یوں یہاں کی سیاست کا بھی کردار و اخلاق اور جدوجہد آزادی کے ساتھ کوئی سروکار نہیں ، آزاد کشمیر کی سیاست میں داخل ہونے کے لئے کشمیر کی آزادی کا نام صرف ایک نعرے کے طور پر باقی ہے جبکہ سیاست میں قدم رکھنا ہوتو یہاں برادری ازم کے علاوہ کوئی دوسرا دروازہ کھلا ہوا نہیں۔ چنانچہ جولوگ سیاست میں چھاجاتے ہیں وہ جدوجہد آزادی کے بجائے اقربا پروری میں ہی مصروف رہتے ہیں۔
نتیجہ : ۔
ہندوستان اور پاکستان کی بقا اور سلامتی کشمیر سے وابستہ ہے۔ حقِ خود ارادیت کشمیریوں کا فطری، پیدائشی اور جمہوری حق ہے۔ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق صرف کشمیری ہی رکھتے ہیں، اُنہیں یہ حق دلوانا ہر باشعور انسان کی انسانی، نظریاتی، اخلاقی اور سیاسی ذمہ داری ہے۔
ایسے میں پاکستان کیلئے بیس کیمپ یعنی آزاد کشمیر کی صورتحال پر نگاہ رکھنا بہت ضروری ہے۔ مذکورہ بالا عوامل کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ ضروری ہے کہ پاکستان اور آزادکشمیر کے عوام اور مقتدر ادارے ان عوامل کا جائزہ لیں اور تحریک آزادی کشمیر پر منفی اثرات مرتب کرنے والے عوامل کا قلع قمع کریں۔کشمیر میں شہید ہونے والے لاکھوں شہدا کا خون ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم بیداری اور بصیرت کے ساتھ ان کے خون کا تحفظ کریں اور ان کی جدوجہدِ آزادی کو منزلِ مقصود تک پہنچائیں۔