اب جب کہ کرونا وبا کے بعد پاکستان میں اسکولوں کو چار مہینے کے تعطل کے بعد کھولنے کے امکانات پر بات چیت ہو رہی ہے تو ہر سطح (وفاقی، صوبائ، ضلعی، اور شہری) پر تعلیمی رہنماؤں اور ذمہ داروں کو اسکول کھولنے سے پہلے بچوں کو بحفاظت اسکول لانے کے لیے ان سوالوں کے جوابات تلاش کرنا چاہیے:
1۔ اسکولولوں کو دوبارہ کھولنے کا موزوں وقت کب ہو گا؟
2۔ کس گریڈ کے طلبہ اور اساتذہ کے لیے اسکولوں کو کھولا جاسکتا ہے؟
3۔ اسکولوں کو کھولنے کے صحت اور حفاظت کے کن کن اصولوں اور طریقہ کار پر عمل کرنا ہوگاَ؟
4۔ اور یہ کہ اس ضابطہ کار پر عمل درامد کیسے کروایا جائے گا۔؟
ان سوالات کا جواب اتنا آسان نہیں ہے بلکہ حقیقتا یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ اور اس مسئلہ کا حل قیادت کی دانشمندی اور اہلیت کا امتحان بھی ہے۔ اسکول کب تک بند رکھے جاسکتے ہیں؟؟ اور اب جب کہ تقریبا پورا کاروبار زندگی معمول کے مطابق جاری ہو گیا ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسکولوں کو بند رکھنے کا جواز کیا ہے اور اگر اسکولوں کو دوبارہ کھولنا ضروری ہے تو کن شرائط اور کس قیمت پر تعلیمی نظام کو جاری رکھنا ہو گا؟
اسکولوں کو کھولنے کا موزوں وقت کیا ہو گا؟ اس کا فیصلہ صوبائ اور مقامی حکموتوں کو کرنا چاہیے کیونکہ معاشرہ کے مختلف طبقات میں کرونا سے مدافعت اور کرونا وبا کی شدت مختلف ہے اس لیے اسکولوں کو کھلنے کا فیصلہ مقامی طور پر کیا جاے تو بہتر ہے نہ کہ وفاقی اور صوبائ سطح پر ایک نوٹیفیکشن کے ذریعے سب کو ایک لاٹھی سے ہانکا جاۓ۔ ہم ابھی تک ضلعی سطح پر کرونا کے متاثرین کے لحاظ سے ان علاقوں کی درجہ بندی نہیں کر سکے ہیں کہ کونسے علاقے ایسے ہیں جہاں کرونا کے اثرات بہت معمولی یا بالکل نہیں ہیں وہاں اسکول کھلنے میں کوئ قباحت نہیں اور وہاں کے ضابطہ کار بھی ان علاقوں سے مختلف ہوں گے جہاں متوسط درجے یا انتہائی شدت کے اثرات موجود ہیں۔ اسی طرح سے کرونا کے متوسط درجے کے متاثر علاقوں میں نسبتا سخت ضابطہ اور طریقہ کار کے مطابق اسکول کھولنا ممکن ہو گا۔اور وہ علاقے جہاں کرونا کے متاثرین کثرت سے ہیں وہاں اسکول بند رکھنا ہی دانشمندی ہو گی۔
دنیا کے143 ممالک میں ابھی بھی نرسری سے انٹر تک کے اسکول مکمل طور پر بند ہیں۔جبکہ امریکہ میں 43 ریاستوں نے پورے تعلیمی سال اسکول بند رکھنے کا اعلان کیا ہے جبکہ باقی ریاستوں مین جزوی طور پر اسکول کھلے ہیں اسطرح چین، روس اور آسٹریلیا میں بھی اسکول جزوی طور پر کھلے ہوئے ہیں۔ اسکنڈی نیوین ممالک کے علاوہ فرانس، ترکمانستان، اور چند دوسرے مملک میں پورا نطام زندگی احتیاطی تدابیر کے ساتھ معمول کے مطابق جاری ہے۔
ایسے میں پاکستان جیسے کمزور معاشی ملک میں اسکول کھولنے کے بعد کرونا کی واپسی اور صحت کے نظام پر دوبارہ دباؤ بڑھنے کے مکمل امکانات موجود ہیں جو کہ معشیت پر ایک بڑا دھچکہ ہو گی –
تعلیمی قائیدین کو اسکول کھولنے کے ممکنہ وقت کا تعین کرتے ہوئےاس سے جڑے ہوے ان عناصر پر توجہ کرنا ہوگی… وہ یہ کہ صحت عامہ کو لاحق خطرات، اسکولوں کی معاشی سرگرمی کی اہمیت، طلباء پر پڑنے والے اثرات اور نظام کے طور پر قابل قبول بنانے کا ارادہ اور عمل کرانے کی قوت نافذہ کا تعین۔ اس پورے عمل میں محکمہ صحت اور محکمہ تعلیم کے ذمہ داران کو مل بیٹھ کر باہمی مشاورت سے فیصلے کرنا ہوں گے۔
اس وقت سب سے بہتر نظام تعلیم آن لاین ایجوکیشن ہے لیکن اس کے لیے تیاری اور سہولیات کی فراہمی بذات خود ایک بڑا چیلنج ہے جس کے لیے شاید حکومت تیار نہیں ہے جبکہ کچھ خطرہ کے ساتھ محدود تعداد کے ساتھ بچوں کو اسکولوں میں آنے دیا جائےاور تمام تر احتیاطی تدابیر کے ساتھ وہ بچے ایک ہی استاد کے ساتھ کلاس میں قیام کریں اور وہ ان کو دوسرے بچوں کے ساتھ خلط ملط ہونے نہ دیا جاے تیسرا ماڈل یہ ہے کہ اسکول کو نارمل طریقے سے کھول دیے جایئں اور جملہ سرگرمیوں کے ساتھ تعلیمی نطام جاری کر دیا جائے۔ کونسا نظام ہمارے لیے قابل عمل ہوگا اس کا فیصلہ تو ذمہ داران کو کرنا ہے –
بہر حال اسکول کھولے جایئں تو حقیقی اورعملی ضابطہ کار بنایا جاے جس میں تمام قسم کے اسکولوں کا خیال رکھا جائے ایسے ضابطے نہیں بنائے جایئں جس پر عمل پیرا ہونا مشکل ہو اور وہ صرف کاغذی کاروائ بن جایئں۔ یہ ایک بہتر وقت ہے جب ہم اپنے نطام تعلیم کو حقیقی اور درست خطوط پر استوار کر سکتے ہیں –
ہاتھ دھونے سے، ماسک پہننے، باڈی ٹمپریچر کی جانچ اور اس کا ریکارڈ کا انتظام کرنے اور اسکولوں میں عمارت اور فرنیچر کے ڈس انفیکشن کو یقینی بنایا جائے یہ کرونا سے بچاؤ کا بڑا ذریعہ تو ہے لیکن عام حفظان صحت کے اصول بھی اس کی پابندی کا تقاضا کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں پینے کے صاف پانی کی فراہمی، باتھ روم کی صفائی اور چیزوں کے مشترکہ استعمال میں احتیاط ضروری ہے -غیر ضروری تقریبات اور سرگرمیوں کو محدود کیا جائے۔بچوں اور اساتذہ کی صحت اور حفاظت کو ہر صورت میں مقدم رکھا جائے۔
لب پہ آتی ہے تمنا میری۔۔ یہ دعا سننے کو کان ترس گئے ہیں۔