عالمگیر وبا کووڈ۔19 کے وار بدستور جاری ہیں بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ہر گزرتے لمحے نوول کورونا وائرس کی شدت میں تیزی آ رہی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں یومیہ کیس پچاس ہزار سے تجاوز کر چکے ہیں،ایشیا میں بھارت وبا کا گڑھ بن چکا ہے ،لاطینی امریکی ممالک بھی وائرس کی تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں اور نئے کیسز کی تعداد کے اعتبار سے پاکستان میں بھی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے۔ البتہ یہ بات خوش آئند ہے کہ ملک میں مریضوں کی ایک بڑی تعداد صحت یاب بھی ہو چکی ہے۔
ایسی صورتحال میں جہاں دنیا بھر میں اقتصادی شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے وہاں سماجی شعبہ بالخصوص تعلیمی نظام پر بھی وبا کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور تمام سطحوں کی تدریسی سرگرمیاں بالکل منجمد ہو کر رہ گئی ہیں۔وبا کے باعث طلباء کے آن لائن تعلیم کے ایک نئے رحجان کو دنیا بھر میں مقبولیت ملی ہے اور اکثر ممالک میں بدستور یہی طریقہ رائج ہے۔ایسے میں وبا سےاولین متاثرہ ملک چین سے ایک خبر نے پوری دنیا کو حیرت میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ یہ خبر چین میں طلباء کے قومی کالج داخلہ امتحان کی ہے جس میں سات سے دس جولائی تک ایک کروڑ ستر لاکھ سے زائد طلباء شریک ہو رہے ہیں جبکہ عملے کے تقریباً ساڑھے نو لاکھ افراد بھی شامل ہوں گے۔
اس اجتماعی سرگرمی کو بیجنگ سمیت چین بھر میں وبا کی روک تھام و کنٹرول کی ایک اہم آزمائش قرار دیا جا رہا ہے۔ چین کے تعلیمی نظام کی اس سب سے بڑی سرگرمی قومی کالج داخلہ امتحان کو”گاو کاو” کہا جاتا ہے۔یہ سرگرمی چین میں وبائی صورتحال کے بعد اب تک کا سب سے بڑا اجتماع ہو گا بلکہ کووڈ۔ 19 کے بعد دنیا میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی بڑی سرگرمی ہو گی لہذا چینی حکام کی کوشش ہے کہ انسداد وبا کے حفاظتی اقدامات میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے۔
بیجنگ شہر میں اس امتحان میں شریک طلباء کی تعداد انچاس ہزار سے زائد ہے جبکہ شہر بھر کے ایک سو بتیس اسکولوں میں امتحان کا انعقاد ہو گا۔چین بھر میں تمام نگران عملے اور دیگر اسٹاف کے لیے لازم ہے کہ وہ امتحان سے قبل اپنا منفی نیو کلک ایسڈ ٹیسٹ پیش کریں گے ،اسی طرح انہیں ہدایات جاری کی گئیں ہیں کہ وہ امتحان سے چودہ روز قبل ہی اپنی صحت سے متعلق صورتحال پر نظر رکھیں گے۔اسی طرح اسکولوں کو بھی لازمی طبی سامان مثلاً ماسک اور صفائی وغیرہ کا سامان فراہم کر دیا گیا ہے۔کالج داخلہ امتحان کے دوران اسکول انتظامیہ کو پابند کیا گیا ہے کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں امتحان جاری رکھنے کے لیے کم ازکم تین اضافی کمرے تیار رکھیں جبکہ ہر اسکول میں چین کے قومی ہیلتھ کمیشن کا نمائندہ بھی موجود رہے گا۔ تمام طلباء کا کمرہ امتحان میں داخلے سے قبل جسمانی درجہ حرارت نوٹ کیا جائے گا جبکہ امتحان کے دوران ماسک کی پابندی بھی لازم ہے۔
طلباء کو نفسیاتی طور پر مضبوط رکھنے کے لیے ماہرین نفسیاتی امراض امتحان سے قبل اور بعد میں بھی موجود رہیں گے۔ اس ضمن میں ایسے طلباء جن میں داخلہ امتحان کے روز بخار یا نوول کورونا وائرس کی کوئی دوسری علامت دیکھنے میں آتی ہے تو ،اُن کے لیے الگ سے کمرے ترتیب دیے گئے ہیں۔کالج امتحان میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کیا جائے گا تاکہ دھوکہ دہی ، نقل یا دیگر سرگرمیوں کو روکا جا سکے۔
چین میں تقریباً ہر طالب علم کو بارہ سالہ اسکول کے بعد کالج داخلہ امتحان میں شامل ہونا ہوتا ہے۔اگرچہ ہر سال اس امتحان کا انعقاد سات جون کو کیا جاتا ہے مگر اس مرتبہ وبائی صورتحال کے باعث ایک ماہ کی تاخیر سے امتحان کا انعقاد ہو رہا ہے۔ گاو کاو کا شمار دنیا میں تدریسی اعتبار سے مشکل ترین امتحان میں کیا جاتا ہے بلکہ چین میں کہا جاتا ہے کہ یہ امتحان ایسا ہے جیسے ہزاروں افراد بیک وقت لکڑی کے ایک پتلے پل کو عبور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔یہ امر دلچسپ ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ چین کی اقتصادی سماجی ترقی اور جدت کے اثرات گاو کاو پر بھی مرتب ہوئے ہیں۔مثلاً 1977 کے موسم سرما میں منعقد ہونے والے کالج داخلہ امتحان میں شریک طلباء کی تعداد ستاون لاکھ تھی۔آئندہ آنے والے چالیس برسوں کے دوران طلباء کے اندراج کی شرح میں 81.13 فیصد اضافہ ہوا ہے۔اس کے پیچھے چین میں تعلیمی نظام کی تیز رفتار ترقی نمایاں عنصر ہے۔ یہ تعلیم یافتہ نوجوان گزشتہ کئی دہائیوں سے چین کی ترقی کی اہم قوت ہیں۔
چین میں مالیاتی وسائل کی بہتری کے بعد چینی طلباء کی ایک بڑی تعداد بیرونی ممالک کا رخ بھی کر رہی ہے اور چین اس وقت بیرونی ممالک میں طلباء بھیجنے والا سب سے بڑا ملک ہے ۔اعداد و شمار کے مطابق سالانہ ساڑھے چھ لاکھ سے زائد طلباء بیرونی ممالک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں جبکہ قابل زکر بات یہ ہے کہ ان میں سے 84 فیصد سے زائد طلباء تعلیمی مراحل کی تکمیل کے بعد روزگار کے لیے واپس اپنے وطن کا رخ کرتے ہیں۔روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ چین کی کوشش ہے کہ ہنرمند افرادی قوت پر بھی توجہ دی جائے اسی باعث اعلیٰ معیار کے فنی تربیتی اداروں کے علاوہ کالج کورسز میں بھی اس پہلو کو مدنظر رکھا گیا ہے ۔
چین کی وزارت تعلیم نے امتحان کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے بھی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے متعدد اقدامات اپنائے ہیں ۔اس ضمن میں کسی بھی دھوکہ دہی کی صورت میں امیدوار کے خلاف سخت انضباطی کارروائی کی جائے گی اور اسے کسی بھی کالج یا یونیورسٹی میں داخلے کا اہل نہیں سمجھا جائے گا۔چینی سماج میں بھی اس اہم سرگرمی کی اہمیت کے پیش نظر اعلیٰ اخلاقی قدروں پر عمل کیا جاتا ہے مثلاً شہری امتحان گاہ کے نزدیک اپنی گاڑیوں کے ہارن نہیں بجاتے ہیں ، سڑکوں پر ٹریفک کی روانی یقینی بنائی جاتی ہے تاکہ طلباء بروقت امتحان کے لیے پہنچ سکیں بلکہ کئی شہروں میں میٹرو اسٹیشن پر طلباء کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس امتحان میں والدین کے جذبات بھی دیکھنے کے لائق ہوتے ہیں، والدین اپنے بچوں کے ہمراہ امتحان گاہ آتے ہیں ،بچوں کے لیے مختلف تحائف وغیرہ خریدے جاتے ہیں اور موسم کی شدت کی پرواہ کیے بغیر اسکولوں کے باہر اپنے بچوں کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں۔یقیناً والدین کی ساری امیدیں اور آس بچوں کے مستقبل سے جڑی ہوتی ہیں اور اس کی بنیاد یہی کالج داخلہ امتحان گاوکاو ہوتا ہے۔اب دیکھنا یہ کہ موجودہ وبائی صورتحال میں چین کیسے اس بڑے اجتماع کا کامیاب انعقاد کرتا ہے اگرچہ ماضی قریب میں ہم نے دیکھا کہ ووہان اور صوبہ حوبے سمیت چین بھر میں انسداد وبا میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں اور اس وقت معمولات زندگی اور اقتصادی سماجی سرگرمیاں تیزی سے بحال ہو رہی ہیں لہذا قومی کالج داخلہ امتحان کا انعقاد دیگر دنیا میں تعلیمی سرگرمیوں کی بحالی لیے بھی ایک ماڈل ثابت ہو سکتا ہے۔