دنیا بھر میں عالمگیر وبا کی سنگینی میں خطرناک حد تک اضافہ تشویشناک ہے اور اس وقت ماہرین کی واحد امید ویکسین کی جلد ازجلد دستیابی ہے۔تازہ پیش رفت کے مطابق بھارت میں کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے اور بھارت اب روس کو پیچھے چھوڑتے ہوئے شدید متاثرہ ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر آ گیا ہے جبکہ امریکہ اور برازیل بالترتیب پہلے اور دوسرے نمبر پر ہیں۔ بھارت میں متاثرہ مریضوں کی مجموعی تعداد ساڑھے سات لاکھ تک پہنچ چکی ہے جبکہ یومیہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ بھی بیس ہزار سے زائد دیکھنے میں آ رہا ہے۔اسی طرح اب تک ملک میں ساڑھے بیس ہزار سے زائد اموات بھی ہو چکی ہیں۔
بھارت کے بڑے شہر نیو دہلی اور ممبئی بھی وبا کے باعث بری طرح متاثر ہوئے ہیں جبکہ ناقدین کے خیال میں ملک میں ٹیسٹنگ کی بھی محدود صلاحیت ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ متاثرہ مریضوں کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔وبا میں تیزی سے اضافے نے بھارتی حکام کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ ہوٹلوں،شادی ہالوں،مذہبی مقامات حتیٰ کہ ریلوے کوچز کو بھی نگہداشتی مراکز میں تبدیل کر دیں۔شدید وبائی صورتحال کے باوجود بھارتی حکومت نے اقتصادی سرگرمیوں کو رواں رکھنے کے لیے پابندیوں میں نرمی بھی کی ہوئی ہے۔
اگر ممبئی کی ہی بات کی جائے تو یہاں دھاراوی جھونپڑ پٹی کا شمار ایشیا کی سب سے بڑی کچی آبادیوں میں کیا جاتا ہے جبکہ ملک بھر میں بے شمار ایسی بستیاں موجود ہیں جو ناکافی سہولیات اور بنیادی ضروریات زندگی سے محرومی کے سبب وائرس کے خاموش پھیلاؤ کا موجب ہو سکتی ہیں۔اسی طرح بھارت کا شمار ایسے ممالک میں کیا جاتا ہے جہاں غربت سے دوچار آبادی کا ایک بڑاحصہ رہائش پزیر ہے لہذا ملک میں وبا کی سنگینی شدید رخ اختیار کر سکتی ہے۔ماہرین نے یہ خطرہ بھی ظاہر کیا ہے کہ بھارت میں وبائی صورتحال نومبر کے وسط تک عروج پر ہو سکتی ہے اور آئی سی یو بیڈز، وینٹیلیٹرز اور دیگر طبی سامان کی کمی ہو سکتی ہے۔
ایک جانب اگر بھارت میں نوول کورونا وائرس کی تباہ کاریاں جاری ہیں تو دوسری جانب مودی سرکار بھی اپنے اوچھے ہتھکنڈوں اور توسیع پسندانہ عزائم سے خطے کے امن کو تباہ کرنے کے درپہ ہے۔ پندرہ جون کو وادی گلوان میں چین۔بھارت سرحدی دستوں کے درمیان ہونے والی جسمانی جھڑپ اور تصادم کو ابھی چند ہی روز گزرے تھے کہ بھارتی وزیر اعظم مودی بجائے کشیدہ صورتحال اور تناو میں کمی لانے کے خود سرحدی علاقے لداخ کے دورے پر نکل پڑے اور فوجیوں سے خطاب میں ایک مرتبہ پھر اپنی توسیع پسند ذہنیت اور اشتعال انگیز ارادوں کا کھل کر اظہار کیا۔دنیا یہ امید لگائے بیٹھی تھی کہ مودی دونوں ممالک کے درمیان قیام امن کے لیے رہنماء کردار ادا کریں گے لیکن اُن کے لداخ کے دورے نے بھارتی قیادت کی اشتعال انگیز اور بالادستی پر مبنی سیاست کی اصلیت بے نقاب کر دی۔
مودی کا فوجیوں سے خطاب بھی قول و فعل میں تضاد سے بھرپور تھا۔چین کا نام لیے بغیر انہوں نے کہا کہ توسیع پسندی کا دور اب ختم ہو چکا ہے اور توسیع پسند قوتیں دنیا کے لیے ہمیشہ ایک خطرہ رہی ہیں۔مودی جی نے بالکل درست کہا کہ واقعی اب ایسی قوتوں کی ہرگز گنجائش نہیں ہے اور چین نے اپنے عملی قدم سے بھارت کو باور بھی کروا دیا کہ اگر اُ س کی سرزمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی تو نتیجہ بھارت کی شرمندگی اور عالمی سطح پر جگ ہنسائی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔چین،پاکستان،نیپال یہ تینوں ممالک تو اس وقت بھارتی اشتعال انگیزی کا براہ راست سامنا کر رہے ہیں لیکن خطے کے دیگر ممالک بنگلہ دیش،سری لنکا وغیرہ بھی بھارتی ریشہ دوانیوں سے محفوظ نہیں ہیں۔
چین پر الزام تراشی سے قبل بھارت کو اپنا ماضی دیکھنا چاہیے کیونکہ 1962میں اسی توسیع پسند ذہنیت کے باعث بھارت کو چین کے ہاتھوں بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔اُس وقت دونوں ممالک کے درمیان اکیس سو میل طویل “حقیقی کنٹرول لائن” پر اتفاق کیا گیا تھا مگر بھارت کی جانب سے متعدد مرتبہ اس کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور یہی تنازعے کی اصل جڑ ہے۔پاکستان کے ساتھ بھی لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزی بھارت کا وطیرہ ہے اور اب چین کے ساتھ سرحد پر چھیڑخانی بھی خطے میں اپنی چوہدراہٹ قائم کرنے کے بھارتی رویے کا مظہر ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ بھارت نے ماضی کے تنازعات سے کچھ نہیں سیکھا ہے۔ابھی تین برس قبل ہی ڈوکلام میں چین اور بھارت کے سرحدی دستوں کے درمیان ایک کشیدہ صورتحال دیکھنے میں آئی تھی اور اس مرتبہ پندرہ جون کو تو بھارتی دستوں نے سرحد عبور کرتے ہوئے چینی سرزمین میں گھسنے کی کوشش کی جو براہ راست ایک اشتعال انگیز کارروائی ہے۔اس کارروائی کا خمیازہ اسے کئی فوجیوں کی ہلاکت کی صورت میں برداشت کرنا پڑا ہے اور عالمی و علاقائی سطح پر شرمندگی الگ اٹھانا پڑی ہے۔اس وقت اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کے بعد ایک مثبت پیش رفت دیکھنیمیں آئی ہے جسمیں فریقین نے دو طرفہ سرحدی صورتحال کی بہتری کے لیے چار امور پر اتفاق کیا اور دونوں اطراف سے فرنٹ لائن پر موجود فوجیوں کو جلد از جلد ” ڈس اینگیج” کرنے پر بھی اتفاق ہوا ہے لیکن اس سب کا دارومدار مودی حکومت کے رویوں پر ہے کہ وہ کیسے طے شدہ امور پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔
مودی حکومت کو سوچنا چاہیے کہ یہ وقت عالمگیر وبا کے خلاف “اتحاد و تعاون” کا ہے ناکہ علاقائی تنازعات میں الجھنے کا، بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت کی کووڈ۔19کے خلاف غیر موثر پالیسی کی بدولت پہلے ہی بارہ کروڑ سے زائد لوگ اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ ملک میں بے روزگاری کی شرح بھی رکارڈ ستائیس فیصد سے بڑھ چکی ہے۔ایسے میں محاز آرائی یا کسی مہم جوئی کی صورت میں بھارت کو مزید نقصان برداشت کرنا ہو گا اور بھارتی عوام میں اب اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ مودی سرکار کے توسیع پسندانہ عزائم کی قیمت چکا سکیں۔لہذا بہتری اسی میں ہے کہ اشتعال انگیز روش ترک کرتے ہوئے اپنے عوام کی فلاح و بہبود اور انھیں کووڈ۔19کے عفریت سے بچانے کی کوشش کی جائے۔