ذندگی کی دوڑ میں آج کا انسان ہر حدود کو توڑتا ہوا بھاگ رہا تھا جس میں نہ اس نے اپنوں کا خیال
کیا نہ دوسروں کااسکا مقصد حیات تو صرف دوسروں کو شکست دینا اور خود کو سب سے آگے رکھنا بن کے رہ گیا تھا اور اسکے لئے اس نے اپنی جان مال وقت اور صحت سب داؤ پر لگا دی اور وہ مقصد حیات سے بہت دور ہو گیا جسکے لئے اسکے رب نے اسے دنیا میں بھیجا تھا
اچانک وہ ایک سخت گرفت میں جکڑ گیاجس سے نہ وہ آگے جاسکتا تھا نہ پیچھے اور اسکی ساری دوڑ ختم ہو کر رہ گئی
اس دوڑ میں کھانا پینا تو جیسے اس کا سب سے بڑا مقصد حیات تھا نت نئے فیشن کے کھانے، ڈسکاؤنٹ کی مقابلہ بازی، ڈیلز کی ایک دوڑ جومختلف ریسٹورنٹ کے درمیان تھی جن میں بوفے، ڈنر، لنچ، کے ایف سی، میکڈونلڈز، پزاہٹ کی مہنگی ترین اور منہ مانگی قیمتیں اور ان پر لوگوں کا ہجوم یہ سب دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھاکہ انسان زندہ رہنے کے لئے نہیں کھاتابلکہ کھانے کے لئے زندہ تھا ہر روز کوئی نہ کوئی پرکشش ڈیل مختلف ذرائع سے لوگوں کو متعارف کرائی جاتی تھی جس کے پیچھے پوری عوام کھنچی چلی جاتی ہےکیا بچہ، کیا جوان، کیا بوڑھا، کیا امیر اور کیاغریب سب ہی اسکے دلدادہ ہیں..
اسکے علاوہ شادی بیاہ کی تقاریب بھی اس دوڑ میں کچھ پیچھے نہیں کیا پالرز کی دوڑ ایک سے بڑھ کر ایک مہنگے بینکوئیٹ اور ان کی سجاوٹ، دلہن کے شرارے زیورات اور سب سے بڑھ کر ان کی بیہودہ فوٹوگرافی، مخلوط محفلیں، میوزک کے ساتھ انکی ایل ای ڈی پرنمائش اسکے علاؤہ مختلف انواع و اقسام کے کھانوں کی بھر مار اور ان کی بربادی دو سے تین طرح کے میٹھے، آئسکریم، کافی، اسٹار ٹنگ جوسز غرض عیاشی کی انتہا ہو چکی تھی امیر تو اس دوڑ میں آسانی سے بھاگ رہا تھا لیکن غریب بھی لے دے کراس دوڑ میں شریک تھا چاہے بعد میں لیےگئے قرضوں کوبرسوں پورا کرتا رہے لیکن آج کا انسان
جن حدود کو روندتا ہوا بھاگ رہا تھا آج قدرت کی سخت گرفت نے اسے بلکل روک دیا ہے
سب کچھ ہونے کے باوجود ایک انجانے وائرس کےخوف اور لاک ڈاؤن نے اسے گھروں میں محصور کرکے رکھ دیا ہےاور وہ بے بسی کے عالم میں کسی اچھے وقت کا منتظر ہے لیکن اسے آگے حالات کی بہتری کے بعد خود سے یہ عہد لینا چاہیئے کہ وہ اپنی زندگی کو اللہ کی اطاعت میں گزارے گا اورحدود میں رہتے ہوے اعتدال کے ساتھ اپنی زندگی کے معاملات طے کرے گا..