حسب معمول نماز فجر کے بعدوزن کے بڑھ جانے کے خوف سے صبح کی سیر کے نام پر ناصر باغ کے دوچکر لگاکر وزن کے کم ہونے جانے کے ڈرسے اچھا ناشتہ کرنا پرانی عادت بن چکی ہے۔لاہور میں ہلکی ہلکی بارش لاہوریوں کوکھانے پینے کی ہر پابندی(لاک ڈائون) سے آزاد کر دیتی ہے یقین جانیے لاہوریوں سے بڑھ کر کوئی زندہ دل نہیں ہوسکتاصوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے محکمہ صحت کی کوتاہیوں اور خامیوں کو چھپاتے ہوئے لاہوریوںکوجاہل اور الگ مخلوق کہہ کر لاہوریوں کی دل آزاری کی ہے۔ہم نے باران رحمت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے دہلی دروازہ سے اندورن اکبری منڈی چوہٹہ سے مہرداس کلچہ کھانے کاطے کیا اور جب دہلی دروازہ پہنچے تو آگے سے ٹینٹ اور خاردار تاروں نے ہمارا استقبال کیا،کراری کی دوکانوں کے برآمدہ کے نیچے بیٹھے،بارش میں سگریٹ کا مزہ لیتے ہوئے چند پولیس اہلکاروں سے جب یہ پوچھا کہ حضور یہ اچانک سے سیل کیوں کردیا گیا جبکہ کل تک تو ایسا کچھ بھی نہیں تھا تو اس پر ایک صاحب ودری نے حسب روایت وہی لہجہ جو کہ ہر شریف شہری کے ساتھ برسوںسے استعمال کیا جاتا ہے کرتے ہوئے کہا،کہ بارش کی وجہ سے سیل کیا ہے۔’’تو اناں اے تینوں نظر نہیں آونداںکہ ملک وچ کرونا اے چل نکل ایتھوں‘‘۔محکمہ پولیس عوام پر لگے ٹیکسز پر چلتا ہے اور اس ادارے کو بنانے کا مقصد بھی خالصتاًعوام کی عزت جان ومال کی حفاظت کرنا تھا مگر انتہائی افسوس کے ساتھ کہ انکے دستِ سخت سے شریف اور مظلوم عوام ہمیشہ ہی غیر محفوظ رہی ہے۔پتا نہیں کہ اس وردی میں ایسی کیا چیز ہے کہ جو بھی پہنتا ہے وہ ’’خدا‘‘کیوں بن جاتا ہے۔حالانکہ یہ وردی تو کسی نہ کسی دن اتر ہی جاتی ہے مگر انسان کا کردار اور اخلاق تو ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔اور ہمارادین بھی ہمیں اخلاقیات کا درس دیتا ہے۔نبی رحمتؐ کی اخلاقیات پر متعدد احادیث موجود ہیں بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ دین اسلام کی بنیاد ہی اخلاقیات پر رکھی گئی ہے۔یہ لوگ جرم سے نفرت کرنے کی بجائے انسانوں سے ہی نفرت کرنا شروع کردیتے ہیں اوریہی وجہ بغاوت کو جنم دیتی ہے اور پھر لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا شروع کردیتے ہیں۔ تھانوں میں کمزوروں،مظلوموں کے ساتھ ناروااور غیر اخلاقی برتائو اور وڈیروں،جاگیرداروں،سرمایہ داروں اور بااثر افراد کو پروٹوکول دیا جاتا ہے۔انتہائی ادب کے ساتھ وطن عزیز میں محکمہ پولیس کی کارکردگی صرف صاحب ثروت افرادکو حفاظت دینا اور غریبوں پرہر قسم کے قوانین کا نفاذہے۔اساتذہ پر ڈنڈے برسانا،نہتی خواتین کو گولیوں سے چھلنے کرنا،مساجد کے تقدس کی پامالی جوتوں سمیت مساجد،مدارس میں داخل ہونا،علماء کو گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنانا،جعلی پولیس مقابلوں میں مائوں سے انکے بیٹوں،سہاگنوں سے انکے سہاگ کو چھیننااور طلباء وطالبات پر تشدد کرنا ان سب کارناموں کا سہرا صرف ایک ہی محکمے کو جاتا ہے۔کوئٹہ میں آن لائن کلاسز کے خلاف احتجاج پرپولیس کا طالبات پر تشدداور گرفتاریوں باعث شرم قابل مذمت واقعہ ہے۔میں مانتا ہوں کہ سب احکامات اوپر سے ہی آتے ہیں مگر اوپر سے آنے والے احکامات کا نیچے ناجائز استعمال کیا جاتا ہے۔یقین جانیے ایک شریف شہری کی حالت کا اندازہ یہاں سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کسی جگہ پولیس والے بھائیوں کو دیکھ لے تو مارے خوف کے راستہ بدل لیتا ہے۔ کل کسی ضروری کام کے سلسلہ میں بازار جانے کا تفاق ہوا تو سات بجنے والے تھے سبھی دوکان دار (استثنیٰ)حاصل کرنے والوںکے علاوہ ایسے جلدی میں دوکانیں بند کررہے تھے کہ جیسے ابھی فرشتہ اجل آنے والا ہواور پولیس والے بھائی لیٹ ہونے والوں پر ڈنڈوں سے پھول برسارہے تھے۔غریب مزدورں کی فروٹ کی ریڑھیاں الٹ دینا،سموسے پکوڑوں کے ٹھیلے اٹھا کر پھینک دینا،لیموں پانی بیچنے والوں کا پانی گرادینا یہ فوری ایکشن لینا اور بااثر افراد کے سامنے گھٹنوں ٹیک دینامحکمہ پولیس کے ایسے لاکھوں کے حساب سے کارنامے اخبارات کی شہ سرخیاں اور چینلز کی بریکنگ بن چکے ہیں۔کاش حکومت یہ ایس اوپیز نماز کے لیے بنائے اور نافذ کئے جاتے،کہ نماز کے اوقات میں تمام دوکانیں اور سرکاری و نیم سرکاری دفاتر بند ہونگیں۔نماز کے چند قیمتی اوقات میں تمام کاروباری سرگرمیاں معطل رہیں گی پھراسی طرح پولیس عمل درآمدکرواتی اور نہ کرنے والوں پر ڈنڈے برساتی تو آج عرش والے کی قسم یہ ’’کرونا‘‘ڈینگی‘‘اور دیگر وبائوں اور مسائل نے جنم لینا ہی نہیں تھا۔افسوس کہ بت شکن مسلمان جس کی تاریخ لات ومنات اور سومنات کو توڑنے سے بھری پڑی ہے وہ آج بت پرستی کا شکار ہوچکا ہے۔وطن عزیز میں بین المذاہب ہم آہنگی کا قصیدہ پڑا جارہاہے مندرئوں،گردواروںکی بنیادیں رکھی جارہی ہیں عوام بھوک مررہی ہے لوگوں کو ایک وقت کا کھانا نصیب نہیں اور ہمارے دین بے زار حکمران ہمارے ٹیکسز سے بت کدے بنانے پر تلے ہوئے ہے۔دوسری طرف مساجد کو مسمار کیا جارہا ہے۔اسلام آباد ماڈل ٹائون میں مسجد تو حید کو مسمار کرنا اور پھر اسی دارالحکومت میں مندر کی تعمیر؟؟؟بھارت نوازی۔امریکہ نوازی،اسرائیل نوازی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ہمارے مذہبی امور کے وزیر ااسلام آباد میں بین المذاہب ہم آہنگی انکلیو بنانے کا فیصلہ صادر فرماچکے ہیں۔ہمارے آقا رحمت کائنات،رہبر کائنات،فخر انسانیت جناب حضرت رسولؐ نے ریاست مدینہ کے قیام پر مدینہ منورہ کو بتوں سے پاک کردیا تھا اور ایک ہمارے صاحب اقتدار ہیں کہ ریاست مدینہ ؐ بنانے کا نعرہ لگا کرصحیح معنوں میں ریاست مدینہؐ کو بدنام کررہے ہیں۔ایک طرف پاکستان اسلام آباد میں مندر کی بنیاد رکھی گئی ہے دوسری طرف بھارت میںباقاعدہ گانا کر پاکستانیوں کو اپنی اوقات میں رہنے کی وارننگ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بنے گا مندر اسلام آباد میں۔آخر یہ حکومت چاہ کیا رہی ہے کبھی نبی رحمتؐ کے دشمنوں کی پشت پناہی تو کبھی صحابہ کرام ؓ کے گستاخوں کو آزادی،کبھی بت کدے کاقیام تو کبھی مساجد کی بے حرمتی اس حکومت کے ایجنڈے کی سمجھ نہیں آرہی ہے۔بھارت،کشمیر میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہا ہے۔ادھر بابری مسجد کو گرانے کے احکامات جاری ہوتے ہیں ادھر کرتارپور راہداری کھول کر خیر سگالی کادرس دیا جاتا ہے۔بھارت میں مساجد کو شہید کیا جارہا ہے،مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہا ہے۔ حالیہ کراچی دہشت گردی کا دل سوز سانحہ جس میں بھارت ملوث ہے اس کے علاوہ وطن عزیز میں ہونے والے دہشت گردی کی تمام سرگرمیوں میں براہ راست بھارت ملوث ہے۔ایسے نازک ترین حالات میں مندر کی بنیاد رکھنا اور مساجد کو شہید کرنا۔موجودہ حکومت جس پر پہلے ہی کئی اعترازات ہیں کو ہرقدم پھونک پھونک کررکھنے کی ضرورت ہے۔پچھلے دنوں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ وزیر اعظم کیوں استعفیٰ دیں شاہ جی ان الفاط کو سن کر مجھے سابقہ وزیر اطلاعات پرویز رشید کے الفاظ یاد آگئے کہ ’’نواز شریف کا استعفیٰ تو دور کی بات ہم تو انکے کوٹ کا ٹوٹا ہوا بٹن بھی نہ دیں‘‘اور اس کے بعد چشم فلک نے دیکھا۔۔۔۔تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا۔شعر کا اگلا مصرعہ وقت پورا کرے گا