مفتی محمد نعیم صاحبؒ اپنے حصے کا کام کرکے اجر پانے کے لیے خالق کل کی بارگاہ میں حاضر ہوچکے ہیں۔ان سے جڑی یادیں تو ایک کتاب کی متقاضی ہیں۔ سردست اس کالم میں ان کی چند اہم خوبیوں کو اس غرض سے ضبط میں لایا جارہاہے کہ اس میں ہم سب کے لیے پیغام عمل ہے۔
مفتی صاحبؒ کی عادت تھی کہ وہ اپنے ہوٹل،مکتبے،سپرمارکیٹ سے بھی جتنی خریداری کرتے،اسی روزاس کابِل اداکردیاکرتے تھے۔مذکورہ اداروں کے بِل لیے ملازم روزہی ان کے دفترآتے اوراپنی اپنی رقم لے کرجاتے تھے۔یہ ان کے کمالِ احتیاط اوراصول پسندی کابین ثبوت اورواضح دلیل ہے۔اکثرفرمایاکرتے تھے:اجتماعی اموال کی چوری اورخیانت اتنابڑاگناہ ہے کہ اس کی تلافی ممکن ہی نہیں۔اس میں ان گِنت لوگوں کاپیساہوتاہے جن سے معافی مانگناممکن ہے اورنہ ہی ان کی رقوم انھیں لوٹانا۔اس لیے اس گناہ سے بہت زیادہ بچناچاہیے۔
مفتی صاحبؒ اپنے بڑے پن اورشفقت کی وجہ سے ہرچھوٹے بڑے کی ہربات سن لیاکرتے تھے۔جامعہ کاادنی ملازم اورمزدوربھی ان سے بے دھڑک بات کرسکتاتھا۔عام طورپرکہاجاتاہے:بڑے حضرات کانوں کے کچے ہوتے ہیں۔جوچرب زبان ہو،اسی کی بات کوحرفِ آخرسمجھاجاتاہے۔کوئی شخص اگرمفتی صاحب کے پاس کسی کی شکایت لے کرجاتاتومفتی صاحبؒ اس کی پوری بات سننے کے بعد، یک طرفہ فیصلہ نہیں کرتے تھے بلکہ اس دوسرے شخص سے رابطہ،استفساراورجواب طلبی کرتے تھے۔
مفتی صاحبؒ کی ایک اورخوبی یہ تھی کہ اگرکوئی ان کاقریب ترین شخص بھی کسی بزرگ استادیاانتظامی شخصیت کے حوالے سے کسی ایسے جذباتی پن کااِظہارکرتاجواس شخصیت کے مقام ومنصب یاعزت ووقارسے فروترہوتاتومفتی صاحب اِس قریبی شخص کو سمجھاتے،اس کاغصہ ٹھنڈاکرتے اورمصالحت یامعافی پرآمادہ کرتے تھے۔ان کی اس خوبی کا اظہار مذہبی وسیاسی معاملات میں بھی ہوتا رہا اور کئی متحارب فریقوں کو انھوں نے ایک میز پر بٹھایا۔
مفتی صاحب بچوں کے ساتھ بچہ اورطلبہ کے ساتھ طالب علم بن جاتے تھے۔وہ کسی خول میں بندہونے کوبڑائی کامعیارنہیں سمجھتے تھے۔عصرکے بعدحفظ کے بچوں کے ساتھ مسجدکے فرش پربیٹھ کرتلاوت سناکرتے تھے۔مطعم میں جاکرملازموں کے ساتھ گھل مل جاتے تھے۔مطبخ میں طلبہ کے درمیان بیٹھ کران کے ساتھ کھاناکھالیاکرتے تھے۔دفترمیں انہی کے دسترخوان پران کے خدام بھی بیٹھے نظرآتے تھے۔اس حوالے سے مفتی صاحبؒ کسی رکھ رکھاؤاورتکلف کے قائل نہیں تھے۔لباس اورپہناوے میں بھی ان کی فروتنی ومتانت اورسادگی کی جھلک صاف دیکھی جاسکتی تھی۔ساری عمرسفید لباس اورجالی دارٹوپی استعمال کی۔واسکٹ اورجبہ کسی ناگزیرضرورت کے تحت پہنتے بھی تو فوراًاتاردیتے تھے۔پہلی بارملنے والے کوپوچھنا پڑت اتھاکہ مفتی محمدنعیم کون سے ہیں؟یہ سادگی انھیں اپنے والدبزرگوارسے ورثے میں ملی تھی۔قاری عبدالحلیم صاحبؒ انتہائی سادہ لباس پہنتے،خدام اورملازمین کے ساتھ گھل مل جاتے اورجہاں اشراق،چاشت کاوقت ہوتاکاندھے سے رومال اتارکربچھاتے اورنمازشروع کردیتے تھے۔
مفتی صاحبؒ کے لب ہمیشہ تلاوتِ قرآن سے رطب اللسان رہتے تھے۔فرماتے تھے کہ اباکے انتقال کے بعدتلاوت کی مقداربڑھادی ہے اورکوشش کرتاہوں کہ اباروزجتنی تلاوت فرماتے تھے،اپنے معمول کے ساتھ اس کوبھی پوراکرلوں۔اٹھتے بیٹھتے اورنوافل کے علاوہ ظہراورعصرکی نمازوں میں بھی،جن کی امامت خودفرمایاکرتے تھے،لمبی لمبی سورتیں پڑھتے تھے۔رمضان المبارک میں تراویح کے دوران آٹھ روزہ قرآن ختم کرتے تھے۔اِس رمضان سے پہلے طبیعت کافی خراب ہوئی ،جس کی وجہ سے معالجوں نے تراویح میں ختم سنانے سے منع بھی کیا؛لیکن یہ معمول ترک کرناگوارانہ کیااورپندرہ روزہ ختم سنایا۔یہ مفتی صاحبؒ کی کرامت تھی کہ اس قدروزن بڑھ جانے،دل کے تین والو بندہونے اورسانس کی مسلسل تکلیف کے باوجوداپنامعمول برقراررکھا۔
مفتی صاحبؒ کاایمان تھاکہ قرآن ہی کے ذریعے امت کوایک لڑی میں پرویاجاسکتاہے۔وہ اِس بات کابھی ادراک رکھتے تھے کہ طالع آزمامتجددین، قرآن کی آڑلے کرلوگوں کوسنت سے برگشتہ کررہے ہیں۔ان کی بڑی چاہت تھی کہ اِس محاذپرکام کیاجائے۔اپنی مصروفیات اورعوارض میں وہ خوداتناوقت نہیں نکال پارہے تھے کہ خودبیٹھ کردورِجدیدکے تقاضوں کوسامنے رکھتے ہوئے قرآن مجیدکی تفسیرلکھیں۔مگروہ ہتھیارڈال کربیٹھ رہنے کے بھی قائل نہ تھے،چنانچہ تفسیرکی تالیف کے لیے انھوں نے باقاعدہ ایک شعبہ قائم کیااورماہرین وفضلاکی جماعت کومطلوبہ اہداف ومقاصدکے مطابق تفسیرلکھنے پرمامورکیا۔2005ء میں’روح القرآن‘ نامی اس تفسیرکی تالیف کاکام شروع ہوا۔اب تک سولہ سپاروں پرمشتمل سات جلدیں شائع ہوچکی ہیں ۔آٹھویں جلدطباعت کے مراحل میں ہے۔اگرچہ یہ مفتی صاحبؒ کی تالیف نہیں،نہ ہی ان کے تفسیری افادات پرمشتمل ہے؛لیکن اس کاتمام کریڈٹ مفتی صاحبؒ کوجاتاہے۔
تبلیغ کے ساتھ مفتی صاحب کی والہانہ وابستگی کسی تفصیل کی محتاج نہیں۔وہ برملاکہتے تھے میرے اجدادکواسلام کی دولت تبلیغ کی وجہ سے عطاہوئی۔والد گرامی کے تبلیغی مرکزمکی مسجدمیں کئی سال امام رہنے کی وجہ سے دعوت وتبلیغ سے محبت گویامفتی صاحب کی گھٹی میں تھی۔تبلیغی اکابربھی مفتی صاحب پرغیرمتزلزل اعتمادکرتے تھے۔باہمی مناقشے ہوں یابیرون سے آنے یابیرون جانے والی جماعتوں کے قانونی مسائل؛بزرگوں کی نظرمفتی صاحبؒ اوران کے ادارے ہی پرجاتی تھی۔ ہندوستان کے تبلیغی اکابرین کے اختلافات کے حل کے لیے بھی مفتی صاحب ہی پرپاک وہندکے بزرگوں کی نگاہیں مرکوزتھیں۔وہ اس حوالے سے کوشاں بھی رہتے تھے۔انتقال سے چندگھنٹے پہلے اس خواہش کااظہارکیاتھاکہ وہ ازخوددونوں طرف کے اکابر سے فون پربات کرناچاہتے ہیں،مگرداعی اجل کاپیغام آپہنچااوراس عالم اسباب میں ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔
دعا ہے اللہ تعالیٰ مفتی محمد نعیم ؒ کے درجات بلند فرمائے اور ان کے گلشن جامعہ بنوریہ عالمیہ کو شاد وآباد رکھے۔آمین