“ربط محکم اسی بے ربطئ تقریر میں ہے” کے مصداق وزیراعظم عمران خان نے بروز جمعرات قومی اسمبلی میں مقصد و معنوی تسلسل سے بھرپور تقریر کی جس کا مخاطب “بزم میں اہل نظر بھی ہیں تماشائی بھی” کے مصداق مختلف ذہنی سطح کے لوگ تھے جس میں حاضرین اسمبلی بھی تھے تو خصوصی طور پر ملک کا ہر خاص و عام شہری تھا اس تقریر میں خان صاحب نے اپنی سوچ و فکر کی عکاسی بھی کی اور اس کے مدمقابل قوتوں کا ذکر بھی اور ساتھ ساتھ تنقید برائے تنقید و مخالفت برائے مخالفت کرنے والوں سے شکوہ بھی کیا۔
اس تقریر میں بھیانک سے بھیانک انکشاف بھی تھے اور ملکی دولت کے استحصال کا نوحہ بھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پہلی بار کسی ملک کے وزیراعظم نے اسمبلی کے فلور پر کھلم کھلا مافیا راج اور اس کے منظم طریق و نیٹ ورک کا انکشاف بھی کیا تو لگے ہاتھ اہل درد ملک و ملّت سے ہم آواز و ہم خیال اور برائی کے خلاف اچھائی کا ساتھ دینے کی اپیل بھی کی، اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کی جانے والی تقریر اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار اور بدلے میں ملنے والی ذلت و ناانصافی پہ رنجیدگی کا اظہار کیا کہ ہمارے ستّر ہزار سے زائد افراد شہید ہوے، لاکھوں زخمی و معذور ہوے، لاکھوں خاندان اجڑ گئے اور کھربوں روپے کا نقصان ہوا لیکن بدلے میں ہمیں ہی دہشتگرد کا لقب ملا اور اس دوران ان کی زبان سے اسامہ بن لادن کے لیے شہید کا لفظ ادا ہوگیا۔
وہ دانستہ تھا یا غیر دانستہ یا پھر ہوسکتا ہے کہ اللہ نے نکلوادیا ہو، خیر جیسے بھی ہوا لیکن باقی تمام تقریر کو چھوڑ کر اپوزیشن و میڈیا کے مخصوص چہروں نے شہید کے لفظ کا خوب ٹرائیل کیا اور جان بوجھ کر انٹرنیشنلائز کیا جس پر معروف تجزیہ نگار ارشاد بھٹی نے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوے کہا کہ “اسامہ کو شہید کہنے پر مسلمانوں کی اکثریت کو خوشی ہوئی جبکہ اسلام دشمنوں کو تکلیف ہوئی” اس کے علاوہ معروف سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ شفقت چودھری المعروف محبت مافیا نے سوال اٹھایا کہ شہید خالصتاً شرعی اصطلاح ہے اور اب ہم اس قدر گر گئے ہیں کہ کون شہید ہے کون مردار اس کے پیمانے امریکا و بھارت طے کریگا؟ اندازہ کریں کہ ہم کہاں آگئے ہیں اور نام نہاد میڈیائی دانشور ہمیں کہاں لے آئے ہیں کہ اب اسلامی معاملات کے پیمانے بھی امریکا و مغرب کے بیانیے کے مطابق سیٹ ہونے لگے ہیں۔
کل یہی امریکا تھا جس کے مطابق اسّی کی دہائی میں اسامہ نہ صرف عظیم مجاہد بلکہ پورے عالم کا ہیرو تھا اور ریگن انتظامیہ افغان مجاہدین کو مظلوم، فریڈم فائٹر اور مجاہد کے نام سے موسوم کرتی تھی، مغرب کے بڑے بڑے اخبارات و چینلز پہ ان کو ہیرو بناکر پیش کیا جاتا تھا تب یہ حامد میر سے عاصمہ شیرازی، پیپلزپارٹی سے ن لیگ تک سب کے ہیرو تھے پھر نائن الیون کے واقعے کی آڑ میں اسلام کے خلاف جنگ شروع کی گئی اور ہر سچے مسلمان کو دہشتگرد کہا جانے لگا تو پیمانے بھی بدل گئے اور حامد میر سے عاصمہ شیرازی تک اور ن لیگ سے پیپلزپارٹی تک کے نزدیک ہر سچا پکا مسلمان دہشتگرد ہوگیا، ذرا سوچئے کہ حافظ سعید ہو یا افغان طالبان، اسامہ بن لادن ہو یا مسعود اظہر کسی ایک سے بھی انسانیت کے خلاف جارحیت کا ایک واقعہ بھی منسوب نہیں لیکن امریکا نے ان کی حق گوئی کی وجہ سے دہشتگرد کہا تو ہمارے ابن سلولوں کے نزدیک یہ دہشتگرد ہوگئے اور اس کے برخلاف نریندر مودی جس کی زیرسرپرستی ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا، ہزاروں مسلمان باپردہ خواتین کا ریپ کیا گیا لیکن امریکا نے مودی کو ہیرو کہا تو ان کے لیے بھی شریعت نافذ ہوگئی۔
حکومتی موقف آنے کے باوجود کہ زبان پھسل گئی تھی عمران خان کے اسامہ کو شہید کہنے پر شور مچا مچا کر انٹرنیشنلائز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ نائن الیون کے بعد صدر بش صاحب نے بھی اعلان کیا تھا کہ “ہم نے صلیبی جنگ کا آغاز کردیا ہے” اور بعد میں کہدیا تھا کہ زبان پھسل گئی تو اس وقت ان نام نہاد دانشوروں کے منہ میں آبلے پڑگئے تھے، آج یہی وہ طالبان ہیں جن کو گُڈ طالبان کہنے پر غیر سے زیادہ ہمارے اپنے شور مچاتے تھے وہ دیکھ لیں کہ امریکہ بہادر انہی کے ساتھ مذاکرات کرچکا بلکہ اب تو امریکی و نیٹو عسکری قیادت نے بھی معلومات شیئرنگ کا معاہدہ کیا ہے۔ شہید کے لفظ کو بنیاد بناکر تنقید و غل غپاڑہ کرنا ایک تیر سے دو نشانے لگائے جارہے ہیں بظاہر عمران خان جبکہ اصل میں انٹرنیشنلائز کرنے کا مطلب پاکستان کے خلاف جواز بہم پیدا کرنا ہے، خیر عمران خان کے خلاف یہ کوئی پہلی کوشش نہیں بلکہ متواتر کے ساتھ منظم انداز سے ایک کھیل کھیلا جارہا ہے جیسا کہ عمران خان برسوں سے قائم فرسودہ نظام کے خلاف داعئ انقلاب ہیں تو ایسے میں مخالف قوت دفاعی طور پر خان صاحب کی انقلابی فکر کو چٹکیوں میں اڑا رہی ہے تاکہ عوام میں اس کا اثر زیادہ نہ پہنچ سکے۔
استہزاء و تمسخر اڑا کر، فقرے چست کرکے، مذاق اڑا کر کہ نااہل ہیں، سلیکٹڈ ہیں، دماغ خراب ہے، کنٹرول نہیں ہورہا، اہل نہیں وغیرہ وغیرہ کے ذریعے ذہنی اذیت پہنچا کر مرعوب و گھبراہٹ کا شکار کرنا مقصد ہے زرا سوچئے کہ چینی اسکینڈل ہوا رپورٹ آئی اور جب ایکشن کا وقت آیا تو پہلے اسلام آباد پھر سندھ ہائیکورٹ نے کاروائی سے روک دیا لیکن مخصوص طبقہ بجائے کورٹ کے اس مشکوک حکم پر سوال اٹھانے کے حکومت سے سوال کررہے ہیں کہ امپلیمنٹ یعنی عمل کرکے دکھاو ورنہ نااہل ہو، ایسی بہت سی مثالیں ہیں جن کو کورٹ سے تحفظ ملا ہوا ہے۔ اندازہ کریں کہ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں سب سے زیادہ زور میرٹ اور رول آف لا پر دیا لیکن روایت کے مطابق طبقہ مخصوصہ نے اس بار بھی ان پہلووں کو ڈسکس ہونے سے روک دیا اور شہید کے لفظ کو بنیاد بناکر واویلہ مچادیا اندازہ کریں کہ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں سب سے زیادہ زور میرٹ اور رول آف لا پر دیا لیکن روایت کے مطابق طبقہ مخصوصہ نے اس بار بھی ان پہلووں کو ڈسکس ہونے سے روک دیا اور شہید کے لفظ کو بنیاد بناکر واویلہ مچادیا اور دلچسپ ترین یہ ہے کہ کل تک جہاں تھر میں سینکڑوں بچے صحت و خوراک کی عدم دستیابی کی وجہ سے مرجاتے تھے اچانک سے راتوں رات ہیرو بنادئیے گئے۔
اندازہ کریں کہ حامد میر اپنے پروگرام میں ایک ممبر اسمبلی کی بات کہ ایک موضع کے نمبردار نے احساس پروگرام کے پیسے لیے جس پر حامد میر عجیب ایکٹنگ کے ساتھ چونکتے ہیں “بارہ ہزار آپ کہہ رہے ہیں موضع کے نمبردار نے بارہ ہزار لیے” جبکہ مسلسل کئی دن سے قناصرو سسٹم کا شور ہے اربوں کی ثابت شدہ کرپشن ہے لیکن موصوف کے نزدیک اس پر کوئی حیرانگی نہیں کہ کس طرح ایک شخص گریڈ ون سے گریڈ بیس میں پہنچ گیا اور اربوں روپوں کو چونا لگارہا ہے۔ اگر موجودہ صورتحال پر غور کریں تو حقیقت یہی ہے کہ ایک مخصوص طبقہ ایک طرف حکومت کے لیے مختلف طریقوں سے مشکلات کھڑی کررہا ہے اور دوسری طرف حکومت کا جائز ناجائز ٹرائل کررہا ہے، اس کے جواب میں حکومت گھبرائی ہوئی نظر آرہی ہے اور اسی گھبراہٹ کا فائدہ مختلف طاقتور سرمایہ دار بھی اٹھا رہے ہیں ایسے میں خان صاحب کو جارحانہ حکمت عملی اپنانا ہوگی جس طرح انگریز سرکار نے کہا تھا کہ
“Would You Be Governed By Pen Or By Sword?”
اور اپنی پالیسیوں اپنے پراجیکٹس و ریفارمز کو ڈسکس کے لیے عوام کے سپرد کرنا ہوگا بجائے اس کے کہ دو تہائی اکثریت کا انتظار کریں، اصلاحات کے صدارتی آرڈیننس یا اسمبلی میں بل پیش کیے جائیں جو بیشک پاس نہ ہوں لیکن عوام کے زبردستی کے ہمدردوں کو بےنقاب ضرور کردیں گے، اس کے علاوہ موجودہ نظام کے تحت طاقتور کے احتساب میں رکاوٹ پیش آرہی ہے جس کا تاریخی حل یہی ہے کہ نچلی سطح سے احتساب کیا جائے جس طرح ماضی میں سب سے پہلے کُمک کو توڑا جاتا تھا موجودہ حکومت کو بھی مخالفین کی کُمک توڑنا ہوگی اور جب نچلی سطح پر بیوروکریسی، اداروں، ٹھیکیداروں، ٹیکس چوروں وغیرہ کو سزا ملتے دیکھا جائیگا تو عوام میں حکومت پر اعتماد بھی بڑھیگا اور ریاستی رٹ قائم ہونے کا ماحول بنتے نظر آئیگا یعنی کہ خوف کا ماحول پیدا ہوگا تو کُمک دینے والے ٹولے ختم ہوجائینگے۔