کعبے کی رونق ،کعبے کا منظر

جب سے دنیا پر کرونا کا سایہ پڑا ہے ، ہر روز افسردہ کرنے والی خبریں سننے کو مل رہی ہیں۔ ابتداء اسکول بند ہونے سے ہوئی۔ بچوں کے سالانہ امتحانات روک دیئے گئے۔ اور بنا امتحان کے ہی اگلی جماعتوں میں ترقی دے دی گئی۔ پھر دفتر بند ہو گئے اور اہم دفاتر کے کام گھروں میں منتقل کر دیئے گئے۔ اور گھروں سے کام کیا جانے لگا۔ سب سے تکلیف دہ مساجد کا بند ہونا تھا ( جو ابھی تک بند ہیں )۔ گھروں میں ہی نماز اور گھر ہی میں تراویح۔۔۔ حتیٰ کہ عید کے اجتماعات پر بھی پابندی تھی تو عید کی صبح ہوئی ہی نہیں گویا۔ مساجد سے بلند ہوتیں تکبیرات کی آوازوں نے بہت رلایا، اور رشک آیا مساجد کے متولیوں پر جو تنہا تکبیرات پڑھ رہے تھے۔

ماہ دسمبر میں عمرے کی سعادت نصیب ہوئی تھی، طواف وداع کر کے سیڑھیوں پر بیٹھی کعبہ اللہ آخری حسرت بھری نظروں سے دیکھتے( رات کے اس پہر بھی طواف کرنے والوں کی تعداد میں کوئی خاص کمی نا آئی تھی) سوچ رہی تھی کہ کیا کبھی یہ مطاف بھی خالی ہو سکتا ہے۔ کتنے خوش قسمت ہیں یہاں کے رہنے والے بلا روک ٹوک دل کے درد بہانے یہاں آ سکتے ہیں۔ ہم اتنی دور سے آ کر بس گنے چنے دن ہی گزار سکتے ہیں۔ وہ رخصت ہو کے میرا دیکھنا کعبے کو حسرت سے…۔

پھر دو ماہ بعد ہی مطاف میں طواف روکنے کا سن کر دل کو دھکا سا لگا۔ اللہ تعالی آپ کے گھر کا طواف بھی نعمتوں میں سے ہے۔۔بے شک۔آہ ۔۔۔مسجد نبوی اور مسجد حرام کا رمضان ایسا تو کبھی نہیں آیا تھا۔۔۔ ایسی اداسی تو کبھی ہم نے نہیں دیکھی تھی ۔۔ مگر نا جانے ابھی ہم نے اور کیا کچھ دیکھنا ہے… پھر مسجد نبوی اور مسجد حرام کو محدود پیمانے پر حفاظتی اقدامات کے ساتھ کھول دیا گیا۔ تو دل کو ایک گونہ سکون ملا، یہ امید قائم ہو گئی کہ ان شاء اللہ حج بھی ہو گا۔حج اور عمرہ موقوف ہونے پر جو احادیث کی پیشن گوئیاں خوفزدہ کرنے کے لئے کافی ہیں۔ اس سے قبل بھی کئی بار حج روکا گیا تھا مگر دعا یہی تھی کہ اللہ ہمیں ایسا دیکھنے سے بچانا۔

نسیم سحر کے جھونکے کی مانند یہ خبر سننے کو ملی ہے: سعودی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ رواں سال مملکت میں مقیم افرادہی حج کی سعادت حاصل کرسکیں گے۔سعودی وزارت حج و عمرہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق کورونا کے باعث حج کے شرکاء کی تعداد محدود رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔وزارت کا بیان میں کہنا تھا کہ سعودی عرب میں قیام پذیر مختلف ملکوں کے شہری بھی حج کرسکیں گے اور حج کے دوران بھی حفاظتی اقدامات کو یقینی بنایا جائے گا۔وزرات کے مطابق دوران حج عازمین کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے سماجی فاصلہ برقرار رکھا جائے گا تاکہ انسانی جان کے تحفظ سے متعلق اسلامی شریعت کے مقاصد پورے کیے جاسکیں…(خبر)

اس خبر سے بے اختیار دل سکون سے بھر گیا۔بے شک محدود پیمانے پر ہی سہی حج کا اجتماع ہو گا تو سہی۔ بہت سے لوگ سعودی عرب میں رہنے کے باوجود حج نا کر سکے ہوں ان کے لئے نادر موقع ہے۔ دس ہزار کی اگرچہ حد لگائی گئی ہے مگر پھر بھی اب دل مطمئن ہے۔ اور یہ بھی امید ہو چلی کہ ان شاء اللہ جلد ہی دنیا اس وبا سے نکل آئے گی۔ ان شاء اللہ

جواب چھوڑ دیں