کراچی اسٹاک ایکسچینج پر حملہ، سندھ میں رینجرز و احساس پروگرام یونٹس پر حملے، FATF کا پاکستان کو بلاجواز گرے لسٹ میں رکھنا اور ڈرامائی انداز میں بدلتی سیاسی صورتحال اس بات کی غماز ہے کہ پاکستان کو گھیرنے کے لیے بڑے پیمانے پر تگ و دو جاری ہے، اس کے ساتھ ساتھ اندرونی طور پر ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ پاکستان کے دوست ممالک کو جدا کردیا جائے اور اس مقصد کے حصول کے لیے بہت سے حلقے دوست ممالک کے مفادات کے خلاف کھل کر سامنے آرہے ہیں، اس ماحول میں پاکستان کو سب سے زیادہ خطرہ پڑوسی ممالک سے ہے جن کے ساتھ مل کر عالمی طاقتوں نے بلوچستان اور کراچی کو پراکسی وار کا اکھاڑہ بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کے زور لگادئیے ہیں۔
کراچی اسٹاک ایکسچینج حملہ اسی سلسلہ کا حصہ ہے بظاہر چین کے منصوبوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور اصلاً پاکستان کو متاثر کرنا یا بالکنائز کرنے کا خواب ہے جیسا کہ ہندوتوا کے پیروکاروں کا اکھنڈ بھارت بنانے کا دیرینہ خواب ہے اس کی تکمیل کے لیے سنگھ پریوار نے سندھ کے لیے راشٹریہ سندھو سماج اور بلوچستان کے لیے ہند بلوچ فورم قائم کی جس کا نہ صرف دہلی میں آفس کھولا گیا بلکہ بھارتی ایجنسی را اس کے تحت آگرا، دہلی، لندن و دیگر جگہوں پر سیمینارز بھی منعقد کرچکی ہے نائن الیون کے بعد جہاں عالمی سیاسی و اسٹرٹیجک ماحول میں تبدیلی آئی تو موقع غنیمت جان کر بھارت پاکستان کے خلاف غیرضروری حد تک آگے بڑھ آیا، ایک طرف سیاسی و سفارتی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنے میں پیش پیش رہا تو دوسری طرف نظریاتی و ثقافتی سطح پر حملہ آور ہوگیا۔
اس کے علاوہ معاشی طور پر کمزور کرنے کے لیے عالمی قوتوں کے ساتھ مل کر مختلف پروگرامات طے کیے اور بلوچستان و فاٹا میں دہشتگردی کا بازار گرم کردیا، جس کے تعاقب میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے بےدریغ قربانیاں دیں اور دہشتگردی کے ناسور پر قابو پانے میں کامیاب ہوے، بلوچستان میں ملیٹینسی کوئی پہلی بار نہیں ہوئی اس سے پہلے بھی متعدد بار بلوچستان کو عدم استحکام کا شکار کیا جاچکا ہے اور وقفے وقفے سے تب تک جاری رہی جب تک کہ سردار داود کو پاکستان نے گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور نہ کردیا، 70 کی دہائی میں جب بلوچستان میں شورش اٹھی تو ذوالفقار بھٹو نے آہنی ہاتھوں سے نمٹا اور افغانستان سے تجارتی تعلقات و ہرقسم کی ترسیل پر پابندی لگادی تو جلد ہی افغانستان گھٹنوں پہ آگیا اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی سرپرستی بند کرنے پہ مجبور ہوگیا۔
جب مشرف نے عنان اقتدار سنبھالی تو حالات معمول کے مطابق چل رہے تھے لیکن نائن الیون کے بعد جب افغانستان سے طالبان حکومت کا خاتمہ ہوگیا تو سوویت و بھارت کی سپورٹ سے محروم ہوجانے والے بلوچ نیشنلسٹوں نے اسے موقع غنیمت جانا اور امریکہ و بھارت کی طرف دیکھنا شروع کردیا اور مشرف نے جب اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کیا تو بہت سے سرداروں نے اسے سخت ناپسند کرتے ہوے وفاق سے ناراضگی کا عندیہ دیا، اس کے بعد جب مشرف نے گوادر پورٹ و CPEC کے منصوبے کی بنیاد رکھی تو بہت سے سرداروں نے ڈویلپمنٹ کو مسترد کردیا، سردار عطااللہ مینگل نے کہا کہ یہ بلوچوں کو اقلیت میں بدلنے کا منصوبہ ہے۔
جمیل بگٹی نے کہا کہ ہم گوادر کو دوسرا دبئی نہیں بننے دینگے اور اسے ہیرامنڈی قرار دیا لیکن بہت سے ماڈریٹ سرداروں نے وفاق سے مطالبہ کیا کہ بلوچستان حکومت کو منصوبہ بندی میں شامل کرکے ڈویلپمنٹ کی جائے، گوادر پراجیکٹ کی منظوری کو بلوچستان میں ناراضگی کا جواز بناکر عسکری کاروائیاں شروع کردی گئیں تو مشرف پرویز نے معاملات کو مل بیٹھ کر حل کرنے کی کوشش کی لیکن بقول “معروف محقق و دانشور ہوشنگ نورائی 2004 میں کوئٹہ دھماکے کے مشرف پرویز کی ذہنیت تبدیل ہوئی اور سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کیا” کوئٹہ دھماکے میں درجنوں بے گناہ شہید و زخمی ہوے تھے جس پر مشرف پرویز نے یہ بیان دیا تھا کہ “اب 70 کی دہائی نہیں ہے جو مار کر پہاڑوں میں چھپ جاوگے ہم یہاں سے ہٹ کرینگے” ۔
یہی وہ بیان ہے جسے حامد میر منفی بناکر پیش کرتے پھرتے ہیں، یہاں یہ بات کرنا اہم ہے کہ بلوچستان میں ترقی کے منصوبوں کو مخصوص افراد کی جانب سے ہمیشہ ناپسند کیا گیا ہے 1990 میں جب نواب اکبر بگٹی وزیراعلیٰ بلوچستان تھے تب امریکہ کی جانب سے بلوچستان میں روڈ رستے اور پلوں Bridges بناکر ڈویلپ کرنے کے منصوبے شروع کیے گئے تو بلوچ نیشنلسٹوں نے اسے مسترد کرتے ہوے سامراجی منصوبے قرار دیا اور شدید حملے کیے، بعینہ گوادر پورٹ اور CPEC کے خلاف ردعمل آیا جو اب عالمی قوتوں کی پراکسی جنگ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
1990 میں جس امریکہ کے منصوبوں پر حملے کیے گئے اسی امریکہ کی مدد و آشیرواد لینے کے لیے بلوچ علیحدگی پسندوں نے پورے زور لگائے اور پاکستان مخالف سینیٹر دانا روہرابیکر سے متعدد ملاقاتیں کیں جس میں بھارت نے اہم کردار ادا کیا، حربیار مری نے 2016 میں چین کو CPEC و گوادر سے دور رہنے کے لیے کہا بصورت دیگر حملوں کی دھمکی دی اس کے بعد سے چینی قونصلیٹ، گوادر PC ہوٹل حملہ اور کراچی اسٹاک ایکسچینج حملہ کی ذمہ داری قبول کی ہے جس میں یقیناً بھارت براہ راست ملوث ہے اور یہ دھماکہ چین کو لداخ میں آگے بڑھنے کا جواب بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ اسٹاک ایکسچینج میں 40 فیصد حصص چین کے ہیں۔
پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے مسلسل و انتھک کاروائیاں کرکے بلوچ علیحدگی پسندوں و دیگر گروہوں کو کمزور کردیا تو اب بھارت نے ان سب کو ایک پیج پر لاکر ایک مشترکہ ٹیم تشکیل دیدی ہے جس میں پشتون نیشنلسٹ، بلوچ علیحدگی پسند، سندھو دیش کے حامی اور متحدہ لندن شامل ہے، ان تنظیموں کی سرپرستی اگرچہ بھارت ضرور کررہا ہے لیکن پاکستان کے خلاف استعمال ہونے والی سرزمین ایران اور افغانستان کی ہے جس پر پاکستان نے ابھی تک کوئی ٹھوس ایکشن نہیں لیا ہے جیسا کہ ذوالفقار بھٹو نے افغان ٹریڈ بند کرکے لیا تھا، ایران کی بندرگاہ چابہار بلوچ علیحدگی پسندوں کے لیے مرکز کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے اور وہیں بلوچ علیحدگی پسند زخمیوں کو ہسپتالوں میں طبی سہولیات دی جاتی ہیں۔
عزیر بلوچ نے بھی JIT کے سامنے ایرانی ایجنسی کے لیے کام کرنے کا اعتراف و انکشاف کیا تھا اس کے علاوہ متحدہ کے بہت سے کارکنان انکشاف و اعتراف کرچکے ہیں، ایسے میں ضروری ہے کہ اب ایران سے بھی صاف بات کی جائے اور اندرون ملک سہولتکاروں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے خواہ وہ کوئی سرمایہ دار ہو یا ممبر اسمبلی یا کوئی عام آدمی اور جس طرح بھارت پلوامہ ڈرامے کو انٹرنیشنلائز کیا پاکستان کو بھی چاہئے کہ ان دہشتگرد حملوں کو نہ صرف انٹرنیشنلائز کرے بلکہ جن ممالک نے دہشتگردوں کو پناہ دے رکھی ہے ان کے خلاف بھی مہم چلائے خواہ وہ مغربی ممالک ہوں۔