وہ دن گزر گئے جب بھارت کو دنیا میں سیکیولرازم کے سب سے بڑے علمبردار کے طور پر جانا جاتا تھا جو حقیقتاً محض ایک پروپیگنڈہ تھا جو مودی سرکار کی کھلی مسلم دشمنی و اقلیت دشمنی پالیسیوں نے ازخود بے نقاب کردیا اور آج بھارت کا اصل چہرہ شدّت پسند ہندو ریاست کے طور پر عیاں ہورہا ہے، بھارت خود کو منی سپرپاور اور ایشین ٹائیگر کے طور پر باور کرواتا پھر رہا تھا لیکن چین نے چھترول کرکے خواب توڑتے ہوے حقیقت دکھادی۔
مودی پراجیکٹ خواہ داخلی ہو یا خارجی، معاشی ہو یا معاشرتی ہر سطح پر ناکامیوں سے دوچار ہے بلکہ بھارت کے لیے تباہ کن ثابت ہورہا ہے، نتیجتاً اقلیتوں میں شدید احساس محرومی بڑھ رہا ہے اور مختلف ریاستوں بالخصوص کشمیر و سیون سسٹرز میں آزادی کی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں، میزورام، میگھلایا اور ناگالینڈ میں اکثریت عیسائیت کے پیروکاروں کی ہے جو ہندوتوا آئیڈیولوجی کے مطابق بھارت کی نیشنل سیکیورٹی کے لیے اسلام کے بعد خطرہ نمبر دو ہے، اس کے علاوہ منی پور، تری پورہ، آسام میں مختلف قبائل آباد ہیں جو مختلف عقائد کے ماننے والے ہیں جنہیں بھارت سرکار مردم شماری میں زبردستی ہندو مذہب کے طور پر ظاہر کرتی ہے اس کے علاوہ ارونچل پردیش میں اکثریت تبت بدھ مت و بدھ مت کے ماننے والوں کی ہے اور چین شروع سے ہی لداخ و ارونچل پردیش کو اپنا علاقہ قرار دیتا ہے جس کی وجہ سے بھارت و چین کے تعلقات سرد ہی چلے آرہے ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ارونچل پردیش تبت کا ہی علاقہ تھا جسے برطانیہ نے قبضہ کرکے بھارت میں شامل کرلیا تھا، چین کی آزادی کے بعد چین نے ارونچل پردیش کی واپسی کا مطالبہ کیا تو بھارت نے مکاری سے کام لیا، ایک طرف تو نہرو نے چین کو رام کرنے کے لیے 1954 میں تبت کو چین کا علاقہ تسلیم کرلیا جبکہ دوسری طرف امریکی گٹھ جوڑ سے تبت میں بغاوت کو اکساتا رہا جس کی وجہ سے 1962 میں چین نے بھارت کی جم کر چھترول کی اور اکسائی چن کا علاقہ واپس لینے میں کامیاب ہوا، اس کے بعد بھی 1967، 1975، 2008, 2013 اور 2017 میں بھارت چین تصادم ہوچکے ہیں جبکہ ہلکی پھلکی تھپا تھپی تو کئی ہزار بار ہوچکی ہے۔
1954 کے بعد 2003 اور 2005 میں بھارت تبت کو چین کا علاقہ تسلیم کرچکا ہے اور بدلے میں ارونچل پردیش کو بھارتی علاقہ تسلیم کروانے کے لیے ہر قسم کے ہربے آزما چکا ہے لیکن چین کسی صورت ارونچل پردیش کے دعوے سے دستبردار ہونے پہ متفق نہیں ہوا اور 2006 میں ہوجن تاو کے وزٹ سے ایک ہفتہ قبل چینی سفیر سُن یوزی نے انڈین ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوے کہا کہ ارونچل پردیش چین کا علاقہ ہے اور وہ کسی صورت اس سے دستبردار نہیں ہونگے، اس کے علاوہ جب ارونچل پردیش کے رکن پارلیمنٹ نے چینی ویزے کے لیے ایپلائی کیا تو چین نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ اسے اپنے ہی ملک میں آنے کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں اور اب ایک بار پھر چین نے سخت ترین موقف دیتے ہوے کہا ہے کہ ارونچل پردیش چین کا حصہ ہے اور چین میکموہن لائن کو نہ پہلے تسلیم کرتا تھا نہ اب کرتا ہے کیونکہ یہ برطانیہ کا یکطرفہ منصوبہ تھا جسے 1913 میں اس وقت کی چینی حکومت نے منظور کرنے سے انکار کردیا تھا۔
چین بھارت تعلقات میں خرابی کی اصل وجہ بھارتی مکارانہ پالیسی ہے جس طرح نہرو ایک طرف دوستانہ تعلقات کی بات کرتے رہے دوسری طرف بھارت عالمی قوتوں کی آماجگاہ بنا رہا جن کی وجہ سے تبت میں بغاوت اٹھائی گئی، اس کے بعد بھی بھارت نے 2008 سے 2010 تک تبت کو انٹرنیشنلائز کرنے کے لیے خوب زور لگائے اور اب امریکہ کے ساتھ مل کر چین کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہا ہے اور دوسری طرف تبت میں بغاوت اکسانے کی راہ ہموار کرکے تبت کے مسئلے کو سازش کے تحت انٹرنیشنلائز کرنے کے منصوبے پہ قائم کررہا ہے جس کے جواب میں چینی قیادت نے سخت ردعمل دیا ہے اور بھارت خاک چاٹنے پہ مجبور ہے جیسا کہ Ian Hall نے مودی کی خارجہ پالیسی کے بارے میں لکھا کہ وہ ہندوتوا آئیڈیولوجی سے ماخوذ ہے اور سنگھی گروہ بھارت کو بطور وشوا گرو (عالمی لیڈر) بنانے پہ عمل پیرا ہیں جس کی راہ میں وہ سب سے بڑی رکاوٹ چین کو سمجھتے ہیں جیسا کہ سبرامینیم سوامی نے 2012 میں ٹویٹ کیا تھا کہ اگلی دیوالی تک سنگھیوں کو خوشخبری ملے گی اور 2020 تک وہ چین پر سبقت لے جائینگے اور معاشی طور پر امریکہ کے مدمقابل آجائینگے۔
اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے مودتوا گروہ تبتی بدھوں کو مذہبی یا روحانی بھائی قرار دینے لگے اور ان کے زریعے امریکہ سے مل کر چین میں بغاوت کھڑی کرنے پہ کام کرنے لگے لیکن ہندوتوا گروہ کی ساری تدابیر الٹی پڑ گئی ہیں داخلی سطح پر بھی بھارت تقسیم در تقسیم کا شکار ہے اور خارجی سطح پر بھارت کو مذہبی جنونی کے طور پر دیکھا جارہا ہے جیسا کہ Ian Hall نے مودی کی خارجہ پالیسی کے بارے میں لکھا کہ وہ ہندوتوا آئیڈیولوجی سے ماخوذ ہے اور سنگھی گروہ بھارت کو بطور وشوا گرو (عالمی لیڈر) بنانے پہ عمل پیرا ہیں جس کی راہ میں وہ سب سے بڑی رکاوٹ چین کو سمجھتے ہیں جیسا کہ سبرامینیم سوامی نے 2012 میں ٹویٹ کیا تھا کہ اگلی دیوالی تک سنگھیوں کو خوشخبری ملے گی اور 2020 تک وہ چین پر سبقت لے جائینگے اور معاشی طور پر امریکہ کے مدمقابل آجائینگے، اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے مودتوا گروہ نے ایک طرف تو چین کے ون روڈ ون بیلٹ پروگرام کے جواب میں ون گرڈ ون سن پروگرام ترتیب دیا جس میں یورپ و افریقہ کہیں بھی اسے خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی ۔
دوسری طرف تبتی بدھوں کو مذہبی یا روحانی بھائی قرار دینے لگے اور ان کےذریعے امریکہ سے مل کر چین میں بغاوت کھڑی کرنے پہ کام کرنے لگے لیکن ہندوتوا گروہ کی ساری تدابیر الٹی پڑ گئی ہیں داخلی سطح پر بھی بھارت تقسیم در تقسیم کا شکار ہے اور خارجی سطح پر بھارت کو مذہبی جنونی کے طور پر دیکھا جارہا ہے اور خوابی وشوا گرو مدد کے لیے کبھی کواڈ کی طرف دیکھتا ہے تو کبھی انڈو پیسفک الائنس کی طرف لیکن امریکہ کی ڈگمگاتی پوزیشن کی وجہ سے کواڈ سے لیکر انڈو پیسفک الائنس منجمد ہوکر رہ گیا ہے کیونکہ ایک جانب تو امریکہ کو چین و روس کا سامنا ہے جبکہ دوسری طرف اب جرمنی سے بھی امریکہ کی کولڈ وار کا آغاز ہوچلا ہے اور داخلی سطح پر بھی امریکہ شدید عدم استحکام کا شکار ہے جس کا اثر خوابی وشواگرو مودتوائی بھارت پر براہ راست پڑ رہا ہے اور اب بھارت تیزی سے عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہے۔