کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر کے ممالک کو معاشی بحران کا سامنا ہے۔ جس کے نتیجے میں بہت سارے لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ امریکہ جو کہ دنیا کی سب سے بڑی معاشی قوت ہے۔ وہاں بھی لاکھوں لوگ بے روزگاری کا شکار ہوچکے ہیں۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک، جن کا زیادہ تر انحصار تیل پر ہے، ان کو بھی معاشی دھچکا لگا ہے۔ جس کی وجہ سے ان ممالک میں مکین بہت سے پاکستانیوں کو نوکریوں سے فارغ کر دیا گیا ہے اور بے روزگاری کی شرح میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
پاکستانیوں خاص کر نوجوان نسل میں ملک سے باہر جا کر نوکری کرنے کا رجحان بہت ہے۔ بقول ان کے کہ پاکستان میں اچھی نوکریاں اور قدر دانی نہیں ملتی۔ اس لیے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے باہر کے ممالک میں جا کر کمانے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جس کو بھی موقع ملتا ہے وہ پاکستانی اداروں پر غیر ملکی اداروں کی نوکریوں کو فوقیت دیتا ہے اور اپنی صلاحیتوں اور قابلیت ،جس کا سب سے زیادہ حقدار ان کا اپنا ملک ہے، سے دوسرے مستفید ہوتے ہیں۔ اچھی طرز زندگی اور پیسے کو ملکی مفاد پر ترجیح دی جاتی ہے اور اس بات کو فراموش کر دیا جاتا ہے کہ ان کے اپنے ملک کو قابل لوگوں کی ضرورت ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں بے روزگاری ہے۔ یہاں پر بہت سے معاشی مسائل ہیں۔ لیکن قوموں کی زندگیوں میں بحران اور مسائل آتے رہتے ہیں۔ اس دنیا کی کسی کتاب میں نہیں لکھا کہ معاشی لحاظ سے مضبوط قومیں کبھی معاشی بحران یا بد حالی کا شکار نہیں ہوسکتی۔امریکہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مثال سامنے ہے۔ اس لیے اگر معاشرے کے قابل اور ہنرمند افراد آگے آئیں اور معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں تو انشاء اللّٰہ پاکستان بہت جلد اپنے آپ کو ان بحرانوں سے نکال لے گا۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کی نوجوان نسل اپنے ملکی وسائل اور اس مٹی کی حرمت کو پیسے اور آسائشوں پر مقدم رکھے۔ اپنے ملک کے مستقبل کو روشن بنانے کے لیے آج کے نوجوان کو اپنی صلاحیتیں اپنے ملک کے لیے وقف کرنی ہونگی۔
بقول ڈاکٹر علامہ محمد اقبال:
نہیں یہ شانِ خودداری، چمن سے توڑ کر تجھ کو
کوئی دستار میں رکھ لے، کوئی زیبِ گلو کر لے
تمنّا آبرو کی ہو اگر گلزارِ ہستی میں
تو کانٹوں میں اُلجھ کر زندگی کرنے کی خو کر لے