اس کی امیدیں قلیل،اس کے مقاصد جلیل
(سید منورحسن کی یاد میں)
ہم بھی کس “عہد وبا” میں جی رہے ہیں ،کل جس کی صحت کے لئےگریہ کناں تھے ،آج اسی کی مغفرت کے لئے رب کے حضور دست بہ دعا ہیں-اپنی مہلت عمل کو سمیٹ کر رخصت ہونے والے عام انسانوں کا تو ذکر ہی کیا کہ اب تو چاروں طرف ‘مردہ شماری ‘کے میٹر آویزاں ہیں – ادھر زندگی نے آخری ہچکی لی ،ادھر بے شمار برقی اور ابلاغی اداروں کو وہ تر نوالہ میسر آجاتا جوان کے اگلے 24 گھنٹوں کی جگالی کے لئے کفایت کرتا-انسان اب تو گو شت پوست کے وجود کے بجائے ،کاونٹ ڈاون کی خاطرمحض ایک بے جان عدد ٹھہراہے-
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے پہلو بہ پہلو ایسے لوگ ہم سے بچھڑ رہے ہیں ، جن سے مل کر زندگی کا عرفان نصیب ہوتا تھا ،مسیح علیہ السلام کے الفاظ میں انہیں زمین کا نمک اور پہاڑی کا چراغ بھی کہاجاسکتا ہے،کردار ان لوگوں کو دیکھ کر اپنے گیسو سنوارتا ہے اور تقوی ،ان کی زندگی کے ذریعہ انسانوں کو ا پنی پہچان کراتا ہے۔ان دنوں ہم دونوں اطراف سے کچلے جا رہے ہیں، ایک طرف ٹڈی دل ہمیں قحط الاجناس میں مبتلا کررہا ہے تو دوسری طرف بحیثیت امت ،ہم،قحط الرجال کے مارے ہوئے ہیں ،یہ چند نفوس بھی ایک ایک کر کے ہم سےرخصت ہورہے ہیں جن کے توسط سے برکتیں نازل اور دعائیں قبول کی جاتی تھیں۔
اردو کے صاحب طرز ادیب مختار مسعود درست کہہ گئے ہیں کہ : “بڑے آدمی انعام کے طور پردیے جاتے ہیں اور سزا کے طور پر روک لیے جاتے”ہیں “ہمارے معاملے میں تو یہ سزا اس لئے بھی طویل ہوتی جارہی ہے کہ ان کی قدر افزائی تو دور کی بات ،ہمارے بے بصیرت معاشرےاب توبڑے آدمی کی پہچان سے بھی عاری ہوتےجارہے ہیں۔
سید منور حسن، بلاشبہ ہماری اس جوانی کے رومانس تھے، جب ہم نئے نئے انقلاب آشنا ہوئے تھے نوجوان نسل کی مینوفیکچرنگ ہی ایسی ہوتی ہے کہ ان کو انقلاب کی ہر آہنگ فریفتہ کرلیتی ہے،کیا مشرق ومغرب اور کیاسرخ وسفید ،نوجوان ہی انقلاب کا خام مال ہوتے ہیں اکثر صورتوں میں یہ خواب تشنہ تکمیل ہی رہتا ہے البتہ یہ کہ انقلاب کی منزل کو جانے والاراستہ اور رہبر دونوں ہی درست نصیب ہو جائیں.
نا لہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینہ میں اسے اور ذرا تھام ابھی
سیدمنور حسن صاحب،انہی نوجوانو ں کے ہر دلعزیز و محبوب تھے۔
انہوں نے 80 اور 90 کی دہائی میں نوخیزجوانیوں کے شعور انقلاب کو جوش اورہوش کے آمیزہ سے کندن بنانے میں اہم کردار ادا کیا.اسلامی جمعیت طلبہ کی شاید ہی کوئی بڑی سرگرمی ایسی ہو،جس میں منور صاحب دل اور دماغ کو یکساں مخاطب نہ کررہے ہوتے آج کی اصطلاح میں وہ مقررین میں سے تھے، الفاظ کا چناو، لہجے کا زیروبم، موقع محل کے مطابق موزوں اشعار،اردو محاوروں اور ضرب الامثال کا برجستہ استعمال،یہ سب مل جل کر نوجوانوں کو یوں اپنے سحر میں جکڑتا کہ معلوم ہی نہ ہوتا تقریر کب شروع ہوئی اور کب ختم ہوگئی ان کی تقریر، الفاظ کے شکوہ اور دلائل کے جمال سے مرصع ہوتی ،وہ اول تا آخر نظریاتی آدمی تھے مگرپہلی صف کے، بائیں بازو کے خیال ان کے دل میں گھر کیے تو وہ اس کراچی کے مطلع پر جگمگائے جو پاکستان کا دارالحکومت ہونے کے علاوہ نظریاتی طلبہ سیاست کا گڑھ مانا جاتا تھا- یہی بانکپن سید مودودی کے ہاتھوں اسلام کی آغوش میں آیا تو بقول شاعر ؎
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
خیارھم فی الجاہلیہ، سے خیارھم فی الاسلام کی طرف مراجعت کے بعد سید نے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا کہ اب ان کی زندگی کو اسلامی نظریہ حیات کا مکمل ،انقلابی،حیات بخش مقصود مل چکا تھا۔ سید مودودی کے بعد، اسلامی جمعیت طلبہ ہی ،منور حسن صاحب کی محبتوں اور محنتوں کا مرکز تھی ،اس کی وجہ بھی بڑی واضح ہے ۔نیشنلزم اور سوشلزم کی تنگنائے سے اسلام کی وسعت ورحمت سے فیض یاب کرنے میں سید مودودی کی شخصیت، فکر اور تحریر نے ان پر اگر جادوئی اثرات مرتب کیے تھے تو دوسری جانب جمعیت نے وہ خوبصورت اجتماعیت فراہم کی جس سے وابستہ ہونے کے بعد اس ‘نوجوان کامریڈ ‘ نے پھر وہ عہد وفا استوار کیا کہ جس پر اس کے ہمراہی تو ایک طرف رہے ،خود راہ کی صعوبتوں کو بھی پیار آتا ہوگا۔
جمعیت کے ذکر پر ہمیشہ ان کے چہرے پربشاشت پھیل جاتی ،جمعیت کے لوگوں سے ملنے،ان کی دعوت کو قبول کرنے اور ان کے ساتھ کہیں بھی جانے پر وہ ہمیشہ آمادہ رہتے، ان کے اچھےگمان اور اچھی امیدوں میں جمعیت ہمیشہ سر فہرست رہی ، اسلامی جمعیت طلبہ میں ہمارا دور 1995-1998 تو “ان ہی کا دور “تھا۔ سچی بات ہے اس پورے عرصہ میں جمعیت کو جو ‘یکطرفہ ‘محبت، سرپرستی شفقت اور تعاون منور صاحب سے ملا ،اس کی نظیر ملنا مشکل ہے،ہم،بھی ایک تعاون کے بعد ان کو اسی وقت ملتے تھے جب اگلی ضرورت اورتقاضا ہمیں اپنے بڑوں میں جکڑ چکا ہوتا،اور وہ ماتھے پر کسی شکن کے بغیرمسکراتے لبوں سے ہماری مسیحائی کرنے میں ذرا دیر نہ لگاتے۔
کمپیوٹر یا سوشل میڈیا کے ذریعہ ملنے والی تصویر کو اگر آپ ان لارج یابڑاکرنا چاہیں تو عموما وہ تصویر بکھر جاتی ہے ،اسے zoomتصویر کہتے ہے resolution low ڈیجیٹل فوٹو گرافی کی اصطلاح میں جس کے پکسل،تصویر کو بڑا کرنے کے دوران پھٹ جاتے ہیں،بالکل یہی معاملہ انسانوں کا ہوتا ہے۔کچھ لوگ دور سے بہت اچھے لگتے ہیں مگرجوں جوں آپ اپنے کسی ممدوح،ہیرو اور محترم کے قریب جاتے ہیں،اس کی شخصیت کی کئی پرتیں اور اس کے پہلو بہ پہلو کئی تضاد اور کمپرومائز نمودار ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔
معروف مفکر والٹئیر نے شاید اسی لئے کہا تھا کہ “کوئی بھی”فرد اپنے گھر میں ہیرو نہیں بن سکتابظاہر انگریزی کے دو متضاد الفاظ ہیں ،مگر CLOSE اور OPENان دونوں کیفیات کا ایک دوسرا اور نسبتاً اہم رخ بھی ہے۔جو فرد آپ سے OPEN ہوتا ہے ،اتنا ہی زیادہ وہ آپ کے سامنے CLOSE ہو جاتا ہے ،منور صاحب سے جو جس قدر قریب ہوتا ،اسی قدر ان کی شفافیت سے متاثر ہوتا۔ان معنوں میں وہ ایک High Definition Personalityتھے. کسی فرد کے نقطہ نظر،فیصلوں اور موقف کے متعلق ایک سے زائد آراہوسکتی ہیں مگر ان کی شخصیت کسی بھی تضاد،حسرت اور طمع سےایسے ہی پاک تھی جیسے کسی غیرت مند کا بے نیاز دل۔
سید منور حسن صاحب کےتقوی ،للہیت،فقر اور زہد کی گواہی ایک زمانہ دے رہا ہے۔عموماً دیکھا یہ گیا ہے کہ زہد اور عبادت انسان کو انسانوں سے کاٹ دیتا ہے ،کچھ تولوگ ،اس فرد کو مقام بشر سے بلند کردیتے ہیں اورکچھ وہ ہستی خود زعم تقویٰ اور کبر نفس میں مبتلا ہوکر ‘ہٹو بچو ‘کی راہ پر گامزن ہوجاتی ہے۔منور صاحب کے زہدو فقر کا شیرازہ اجتماعیت سےگندھا ہوا تھا۔
وہ سید مودودی کے تربیت یافتہ تھے جو ایسی اجتماعیت کوبرپا کرنے کےلئے اٹھی تھی جو ایک طرف دین کے معاملہ میں روایتی صوفیوں سے زیادہ متقی پرہیزگارہو اوردوسری طرف دنیا چلانے کی صلاحیت دنیاداروں سے زیادہ رکھتی ہو، بلاشبہ وہ تکبیر اولیٰ کے مقتدی اور صف ِاول کے نمازی تھے، مگر علم وتحقیق،کشمکش واستقامت،تنظیم و سیاست کی جنگاہوں میں بھی انہوں نے ایک لمحہ کے لئے پیچھے رہنا گوارا نہ کیا،ان کی خلوت اور جلوت ایک ہی رنگ میں رنگی ہوئی تھی اور وہ رنگ، صبغت اللہ کے سوا کچھ اور نہ تھا،ان کی نماز،مسجد سے تعلق،ان کے خشوع پر بہت بات کی جاسکتی ہے۔
عبادت ان کی عادت تو تھی ہی مگر سچ یہ ہے کہ ان کی ہر عادت عبادت کے رنگ میں رنگی ہوئی تھی، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ:” عبادت ایسی کرو کہ تمہاری روح کو مزہ آجائے ،اس لیے کہ جو عبادت تمہیں اس دنیا میں مزہ نہ دے ،وہ آخرت میں جزا کیا دے گی”!!!آج کے دورمیں اس قول کی قابل رشک تعبیر، سید منور حسن صاحب کو عطا ہوئی تھی۔
کچھ کے نزدیک وہ ‘غیر عوامی ‘آدمی تھے،مجھے ان سےصحبت خاص ‘کا کوئی بڑا دعوی نہیں مگر لگ بھگ ایک عشرہ ان کی’مصروفیات اور معمولات کے خاموش شاہد ہونے کے ناطے میرا نقطہ نظر ہے،کہ انہوں نے اپنی حیات ِمستعار کا ایک ایک لمحہ اللہ کے حضور جوابدہی کےاحساس کے ساتھ گزارا ہے،وہ ایک متعین ضابطے اور قاعدے کے انسان تھےجو سب سے پہلے اپنی ذات پر قدغنیں عائد کرنے والا تھا۔
تنظیم کے تقاضےپورے کرنے سے لے کر رب کے حقوق انجام دینے تک،وہ اپنی تسبیح ِروزوشب کادانہ دانہ شمار کرتے تھے،تحریک نے انہیں جہاں بٹھایا ،وہ جم گئے اور جہاں،کھڑا کیا ،وہ ڈٹے رہے۔ نظریات کی کشمکش ہویا عصبیت کی مسموم ہوائیں،علم وتحقیق کا میدان ہو یا تحریک کے لئے پالیسی سازی کےمراحل،حوصلوں کو شل کرنے والی سیاسی شکستوں کا سامنا ہو یا اعصاب شکن تنظیمی بحران، ہر معاملے میں وہ ‘سرِ تسلیم خم ‘کے خوگر تھے،اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا کرے.
وہ صف اول کے قائد،ہر دلعزیز رہنما،سردو گرم چشیدہ مدبر اورآج کے الفاظ میں پاپولر لیڈر تھے ،مگر تحریک کی ضرورت اور مفاد میں پوری فعالیت، صالحیت اور وقار کے ساتھ پاکستان کی سب سے بڑی اور منظم اجتماعیت کو لے کر چلنے اور سنوارنے میں لگا دیے۔
مہمانوں سے ملاقات،خطوط کے جواب،تنظیمی دورے، انتظامی مجالس،ذاتی مطالعہ اور رب سے سرگوشی سب چیزیں بہت خوبصورتی کے ساتھ ان کے نظام الاوقات میں پروئی ہوئی ہوتیں،گویا دیکھا جائے تو ہم جیسے سخن نا شناس لوگوں کا منورصاحب سے گلہ لگ بھگ انہی مشاہدات سے ملتا جلتا تھا جوحمص کے گورنر سعید بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق لوگوں نے حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دربارِخلافت میں ارسال کی تھیں۔
منور حسن صاحب سے ملنے والا ان کی سادگی کے ساتھ ساتھ نفاست سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتانہ جانے کیوں ہم نے سادگی کے نام پرترتیب اور تقوی کے نام پر بے ذوقی کو گوارا کیا ہواہے سلیقے سے ترشےہوئے بال،چہرے کے رعب میں اضافہ کرتی جناح کیپ، لباس سادہ مگر ان کی شخصیت کی طرح نفیس اورمرتب،ایک زمانے میں وہ سفید ٹوپی بھی پہنا کرتے تھے،نفاست اور ترتیب منور صاحب کی ذات تک محدود نہ تھی، ان کا کمرہ ،سامان،میز غرض ان کی ایک ایک چیزان کے صاحب ذوق ہونے کی غماز تھی، تقوی ٰ کی مہک ان کی تحریر ،تقریر میں یوں رچی بسی ہوتی کہ انہیں ایک دوسرے سے جدا کرنا ممکن نہ ہوتا -منور صاحب کے خطوط بھی ان کی تقریر کی طرح گل افشانی اظہار کے نوع بہ نوع پہلو لئے ہوتے ،میں ان کا لطف اٹھاتا-
سیاسی قائدین میں شاید ہی اب ایسے لوگ ملیں جو یوں خطوط لکھنےاور خطوط کا جواب دینے کی ‘بار تہمت ‘اٹھاتے ہوں، وہ محض ضابطہ اوررسم کو پورا کرنے کے لئے خط نہ لکھتے تھے ،خطوط ان کی طرف سے انسانوں سے جڑنے،محبت کرنے اور ان کو ان کی اہمیت جتانے کا ذریعہ ہوتے۔ مجھےاس بات کا اندازہ اس وقت ہوا جب جمعیت سے فراغت کے بعد پہلی مرتبہ چند ہفتوں کے وزٹ پر امریکہ جاناتھا کہ ان کا ہاتھ سےلکھا ہواخوبصورت،نصیحت آموز اور محبت بھرا خط میرا تعاقب کرتا ہوا نیویارک آپہنچاوہ انسانوں کے رب کو دیے گئے وقت کے متعلق جس قدر حساس تھے،انسانوں کے ساتھ گزارے جانے والے وقت کے حوالے سے بھی کم فکر مند نہ تھے۔
عمر،علم،سماجی و سیاسی رتبہ سے قطع نظر،فرد،ان کے نزدیک بہت اہم تھے،بارہا ایسا ہوا کہ کسی اہم اخبار یا ٹی وی میں انٹرویو یا کسی سیاسی شخصیت کی ملاقات سے انہوں نے اس لئے معذرت کرلی کہ انہوں نے پہلے سے پنجاب ،سندھ یا خیبر کے کسی چھوٹے سے ضلع یا یونٹ کو وقت دیا ہوا تھا، ان کے نزدیک طے شدہ کمٹمنٹ اور وعدہ کی پاسداری کسی بھی دوسرے کا م سے کم اہم نہ تھی،اس معاملے میں ان کےہم عمر،ہم عصر،جمعیت کے حاضرین و سابقین،ذاتی دوست اور ہمدم ،دیرینہ، سب ان سے یکساں فیض اٹھاتے۔
دل کو سنبھالتا اور قلم کو لپیٹتا ہوں تو 85 سال پہلے لکھی جانےوالی اقبال کی نظم ‘مسجد قرطبہ ‘بانگ جرس بن کر ذہن میں گونجتی ہے اور مختار مسعود کی پر شکوہ نثر ‘آواز دوست ‘بن کر سماعتوں کومعطر کرتی ہے۔ سید منور حسن ،اس دنیا میں رہنے کے باوجود کسی اور دنیاکے باسی تھے، اقبال نے تو دریائے وادی الکبیر کے کنارے “کسی اور زمانے کا خواب “صرف دیکھا تھا،مگر سید منورحسن نے اس دنیا میں ہونے کے باوجودکسی اور دنیا کا باسی بننا پسند کیا۔
منزل کی یکسوئی اور وفاداری کی استواری کے بعد انہوں نے لمحہ بھر پیچھے مڑ کر دیکھنا قبول نہ کیا،یہ فقر، فقر اختیاری تھااور یہ سودا،سودائے عشق…اس اعتبار سے سید منورحسن،حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صف کے سپاہی تھے ،جن کی وفات پر قیصرروم کو اعتراف کرنا پڑا کہ “مجھے اس راہب کی حالت پر کوئی تعجب نہیں،جس نے اپنے دروازے کو بند کرکے دنیا کو چھوڑ دیا ہواور عبادت میں مشغول ہوگیا ہو،مجھے تو اس شخص کی حالت پرتعجب ہے ،جس کے”پاس دنیا ذلیل ہوکرآئی اوراس نے اسے پائے حقارت سے ٹھکرادیا”۔
قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے اور قحط الرجال میں زندگی، مرگ انبوہ کا جشن ہو توقحط، بےحیات مصرف کا ماتم ہو تو قحط الرجال، “ایک عالم موت کی ناحق زحمت کا، دوسرا زندگی کی ناحق تہمت کا”، سید منور حسن جس وقار کے ساتھ زندہ رہے،اس سے زیادہ بانکپن کے ساتھ اس جہاں سے رخصت ہوئے،یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی زندگی اور “ہمیشہ کی زندگی سے فنا اور بقا ، فقر اور غنا ،اجنبیت اور محبوبیت کو نئے مفہوم ملتے ہیں۔
خاکی و نوری نہاد بندہ ۂ مولا صفات ہردوجہاں سے غنی اس کا دلِ بے نیاز
اس کی امیدیں قلیل،اس کے مقاصد جلیل اس کی ادا دل فریب،اس کی نگہ دل نواز
نرم دِم گفتگو ، گرم دِم جستجو رزم ہو یابزم ہو، پاک دل و پاک باز
نقطہ پرکارِ حق ، مردِ خدا کا یقیں اور یہ عالم تمام، وہم و طلسم و مجاز
عقل کی منزل ہے وہ ،عشق کاحاصل ہے وہ حلقہ آفاق میں گرمی محفل ہے وہ