وہ چھوٹی سی بچی زارو قطار رو رہی تھی۔ ایسے معلوم ہوتا تھا،اسکی کوئی قیمتی چیز لٹ گئی ہے۔ لیکن دیکنھے والا سمجھنے سے قاصر کہ یہ بچی اتنی شدت سے کیسے رو سکتی ہے۔ ایسا رونا جو دیکنھے والوں کو رونے پہ مجبور اور کلیجہ چیر دے۔ ہاں ،کچھ ایسی ہی تھیں اسکی چیخیں اور انکی بازگشت آج بھی گونج رہی ہے۔ اورایسا لگتا ہے، کہ آس پاس ہی کوئی رو رہا ہے ،اپنے آنسوؤں سے خود پہ لگے داغ کو دھونے کی کوشش کر رہا ہے۔اس کی سسکیاں ،ہچکیاں گونج رہی ہیں۔
آخرایک بچی جو بمشکل 12 سال کی ہے اسےکس نے ایسے رلا دیا ہے۔ وہ خود کو نوچ نوچ کے کیا صاف کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایسا کون سا ملال ہے جو اسے چپ نہیں ہونے دے رہا۔ وہ کچھ کہنا چاہ رہی ہے،کیا میں اسکی سماعت بن جاؤں۔ ہاں،میں بن گئ تھی اسکی سماعت،اسکی ہمزاد۔ اور پھر جو اس نے مجھے بتایا ، اس نے میرا بھی کلیجہ چیر دیا۔ میری سسکیاں بھی اسکی سسکیوں میں شامل تھیں۔
نا جانے یہ کب سے شروع تھا، جس کا ادراک اسے بھی اب ہوا تھا کہ اس کے ساتھ کچھ غلط ہوا ہے۔ شاید وہ کسی کو نہ بتاتی،پر شاید وہ بھی یہ دکھ بانٹنے کے لۓ کوئی ہمدم ڈھونڈ رہی تھی۔ اور اس نے مجھے ہمدم ہی تو بنا لیا تھا۔ یہ وحشت اور راز جو وہ چپھاۓ جی رہی تھی ،میں اسکی رازدار ہی تو بن گئ تھی۔ میں ہی تو اسکی واحد ہم زاد ہوں،اسکے روح کے سناٹے،گہرے گھاؤ،بنجر آنکھیں،سسکتی سسکیاں اور زارو قطار ہچکیوں کی میں ہی تو ہم زاد ہوں ۔اس کا درد اس کے آنسو بھی بیان نہیں کر سکتے۔ اسکا درد کوئی کیسے جان سکتا۔
جس سے اسکی ناموس چھین لی جاۓ ،اس کا ماتم تو بنتا ہے۔ ماتم بھی ایسا کہ اسکی ہم زاد بھی منہ موڑ لیتی ہے۔وہ اپنی گڑیا کو روتے، بلکتے ،کڑھتے اور ایسی دل خراش حالت میں دیکنھے کی تاب نہیں رکھتی۔ پھر اسکی ہم زاد ہی اس کے زخموں پہ پھاہے بھی رکھتی ہے۔ اس کا اسکی ہم زاد سے جسم اور روح کا رشتہ جڑ گیا ہے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے لۓ لازم وملزوم سی ہو گئی ہیں۔ ہاں میں ہی اسکی ہم زاد ہوں،ہمراز ہوں۔