ساری دنیا کرونا کا شکار، کا فی پریشان اور سکون کی متلاشی ہے دیگر ممالک نے تو پھر بھی کافی سنبھال لیا ہے لیکن میرے ملک کے لوگ کہنے کو ـ”مسلمان” الحمد للہ مگر پھر بھی کچھ، توکل کی کمی کا شکار کچھ کنفیوز ، کچھ نقال اور اوپر سے میڈیا وبال جان ۔ لوگ گھروں میں ایک دوسرے کے سروں پر سوار ، نہ نوکری کا ٹھکانہ ، نہ بچوں کی پڑھائی کا کچھ خاطر خواہ انتظام ، مہمان بنتے بھی نہیں مہمان بنا نا بھی پسند نہیں کرتے۔ گھروں میں جو ہیں وہ ہیں ۔
اللہ نے سب کو وقت سے فائدہ اٹھانے کا بہترین موقع دیا ہے ۔ رزق کا انتظام بھی وہی کرنے والا ہے ۔ ہماری اس کی طرف سے تو شفا بھی وہی دینے والا ہے ۔ گھر بیٹھے لوگ سب انتہائی مصروف ہیں ۔ کھانے پینے سونے کے بعد باقی زیادہ تر وقت موبائل اور ٹی ۔ وی سے جڑے رہنے میں گزارتے ہیں۔ بچے تو کیا بڑے ، جوان نو جوان سب ہی ایک تھیلی کے چٹے بٹے بنے ہوئے ہیں۔ ایسے میں اماں یاد آتی ہیں جو نہ جانے کیوں کہتی تھیں چھوٹے میاں تو چھوٹے میاں بڑے میاں سبحان اللہ ۔
میں کہتی تھی میں نے تو یہ محاورہ نہیں پڑھا کہ “بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ ” آپ کیوں کہتی ہیں ۔ آج سمجھ آتا ہے کہ غلطیاں بڑے بھی کرتے ہیں اور دھڑلے سے کرتے ہیں ۔ جب میں خبروں کی خاطر یا کبھی ذرا جی بہلانے، کبھی کوئی ٹی وی کھولتی ہوں تو دل کھولتا ہے کہ پہلے ہزارہا چینلز پھر ہر جگہ عجیب و غریب حرکتیں ، بے تکے اشتہارات تو سراسر تباہی ہیں اوپر سے ٹاک شوز ان کے لوگ کیا مہمان کیا میزبان انکی زبان الفاظ انداز انتہائی افسوس ناک، لباس اللہ کی پناہ تمام حدود کو پار کیا ہوا دیگر پروگرامز خرافات سے کم نہیں یہاں تک کہ نیوز چینلز تو کھلا مذاق ہیں ۔
ٹڈی دل کا حملہ کیا ہوگا جو موسم کا حال اور دیگر خبریں پڑھنے بلکہ بیان کر والوں کے حلیے ہو نگے ۔ 8انچ کی ہیل پتلی پتلی موزے والی ٹرا ئوزرز اور ہلکی سی کنٹراسٹ شرٹ بے تکے بال ، سر جھاڑ منہ بھاڑ ایک عجوبہ اور خود ہی بریکنگ نیوز بنے ہوتے ہیں ہزار کمپلین لکھوانے پر بھی ذرہ برابر اثر نہیں۔ پھر مزید خبروں کے دوران خبریں مطلب ارد گرد یا نیچے پٹیوں پر چلنے والے ایڈز یا مزید بریکنگ نیوز یا ڈرامے کے بارے میں معلومات ۔ ذرا ذرا سی دیر میں شارٹ بریک گو یا بندے کو تپانے ، بلڈ پریشر بڑھانے کا مکمل انتظام کیا ہو تا ہے ۔ مزید ایک خبر کو طوطے کی طرح بار بار گھما پھر ا کر بتا یا جاتا ہے ۔ بار بار وقفے وقفے سے ہر چینل اپنا فرض عین سمجھتا ہے۔
چلیں اس سے آگے بڑھتے ہیں ۔ ARY, Hum TV اور چلو Geo کو چیک کرتے ہیں ۔ غیر ملکی ڈرامے کیوں بھئی کیا ہمارے ڈرامے ختم ہو گئے ہیں ؟ ہمارے ہاں تو ایک ایک گھر میں پہلے سے کئی کئی ڈرامے چل رہے ہوتے ہیں برسوں سے وہ بھی بالکل حقیقی نہ ختم ہوتے ہیں نہ بدلتے ہیں بلکہ بگڑتے جاتے ہیں اوپر سے Hum TV میں نام تھا کے صدقے ” اور کہانی ایک ذرا سے سین سے واضح ہو جائے استغفر اللہ رشتے کا یہ حال حدود کی یہ خلاف ورزی کہ “سسر بہو پر فدا” کسی بچے کا وہ گھرانہ کیسا ہو گا ؟ احترام ؟ کیا سیکھیں گے بچے کیوں نہ بنیں گے دوزخ کا اللہ نہ کرے ایندھن؟
جب بڑے ایسے تو چھوٹے پھر کیسے ؟ پھر ایک دلربا کا نمونہ دکھا یا گیا ایک لڑکی اور چار افراد کا عشق ۔ کل یہ تعداد تو چار سو بھی ہو سکتی ہے ۔ جب ڈرامہ نگار ، فنکار ، اداکارکسی کو غیرت نہیں تو دیکھنے والے جو نہ کریں کم ہے ۔ دیکھنے والا دیکھ کر بھی نہ بولے غلطی کی نشاندہی نہ کرے تو “جلاد” ! تو پھر کیوں نہ آئے عذاب ! چلیں چھوڑیں اب یہ کیا ہے ؟ پڑھنا بھی نہیں آرہا تا ریخی ڈرامہ ہے میں نے تو کبھی نہیں سنا نام تک پڑھنا سمجھنا نہیں آرہا ہے “ارطغرل” ہمیں کیا کیا ضرورت ہے ؟ جس کلچر سے ہمارا تعلق ہے اسے تو ہم بچا نہ پارہے ہیں دو سروں کے کلچر سے کیا لینگے ۔ وہی ہے بے ہودگی جو مفت متاثر کر رہی ہے ۔ آگے بڑھتے ہیں اچھا یہ ARY ہے اس کے تو اور بھی چینلز ہیں میری دوست بتا رہی تھی کہ اس کے تو نو چینلز ہیں ۔ اس میں کیا آرہا ہے ؟ بہن اور بہنوئی کا چکر ۔ اللہ اکبر
اللہ بچائے ہمیں شیطان کی چال سے مردوں کو پھانستی ہے یہ عورت کے جال سے
ایک ڈرامے میں سنا کہ بہنوئی سالی پر فدا ہے ۔ بتا ئونا وہ کونسا ڈرامہ ہے پتا چلا اس کا نام “عشقیہ ” ہے اللہ تعالیٰ کو انسانی فطرت معلوم ہے اس لئے محرم اور نامحرم بنائے اور فر ض کیا کہ پردہ رکھو تا کہ اس طرح کی معاشرتی برائیاں جنم ہی نہ لیں۔ اسطرح میں نے رات میں کبھی کوئی پروگرام “دیوانگی” چیخ اور نہ جانے کون کون سے نام کے چند منٹوں کے ڈرامے دیکھیں سینکڑوں قسطوں پر مشتمل ڈرامے ایک دو سے ہی خرافات کا اندازہ ہو جاتا ہے بے معنی اور بے تکے ڈرامے نہ جانے کیوں دکھا دکھا کر معاشرے میں مزید بگاڑ پیدا کیا جا رہا ہے ۔ چند لمحوں کا دیکھ کر احساس گناہ ہوتا ہے ۔
آجکل تو مجھے جو چیز سب سے زیادہ کھلتی ہے تو بدمزاجی ، بڑوں سے بدتمیزی۔ برے انداز میں چلا کر بولنا والدین کی بے عزتی کے ساتھ ساتھ بلیک میل کرنے والے ڈرامے دکھا کر معاشرے کو مفلو ج کیا جا رہا ہے ۔ ہاتھ کی رگیں کاٹنا ، زہر پینا ، پلانا، غیروں کو سر چڑھانا ، بے جا بے تکلفی اور مائوں کے حلیے جو ماں کم اور ماڈل زیادہ لگے ۔ لباس سے لیکر بال ، چال ، حال ، انداز الفاظ سب ہی قابل نفرت ہو تے جا رہے ہیں اتنے عظیم خوبصورت رشتوں کو یوں بگاڑ کر پیش کرنا ” کرونا ” سے بھی بڑا صدمہ ہے۔
بیماری تو بیمار کے ساتھ چلی جائے گی مگر معاشرتی بگاڑ کے اثرات نسلوں کی تباہی اور کلچر کی بربادی کا باعث بن کر سب کو ہی اللہ نہ کرے جہنم رسید کردینگے ۔ اس سے پہلے کہ مزید زندگی حرام کریں سدھار کی طرف آئیے اپنا جائز رول ادا کریں۔ کیسے کمائی کی ؟ کن ذرائع سے کمایا ؟کہاں خرچ کیا ؟ حا صل کردہ علم سے کیا فا ئدہ اٹھایا کیا ان سوالات کے جوابات یاد کرلیے ؟ جوانی کن کاموں میں گزاری؟ پلان کرلیا ، آخرت پوچھ کر نہیں آئے گی نہ زندگی موت کا انتظار کرے گی وہ تو اچانک آئے گی تو کیا کرلی تیاری ؟ تمام چینلز کمپنیاں ، فنکار ، فنکارائیں ڈبل رول نبھا رہی ہیں ایک اس دنیا کا عارضی اسٹیج اور اس کا سبق انعام و اکرام اور ایک ہمیشہ کا بڑا اسٹیج اور نہ ختم ہونے والی زندگی ! کیا کچھ یاد نہیں ؟
موسم کی خبریں بتا تے ہو !! بدلتے موسم سے سبق لینا بھول جاتے ہو ! ایک بڑا عملہ پروگرام تیار کرتا ہے بار بار ری چیک کرتا ہے مگر اپنے اندر جھانک کر نہیں دیکھتا شاید اسے پتا ہے کہ سب کچھ دیکھتا ہے مگر یاد رکھیں ایک ذات وہ ہے جو دلوں کے رازوں سے تک واقف ہے اور خبیر بھی ہے علیم بھی تو پھر کیا اب بھی نہ سدھرو گے ؟ دیوانگی؎، حیوانگی بنتی جارہی ہے خبر نہ رکھو گے؟