مایوس نہ ہو، امید کی جلو میں

فی زمانہ سائنس اور ایجادات کی ترقی عروج پر ہے ہر شخص سائنس کی کرامات سے فیض و حظ اٹھارہا ہے۔کل تک سائنس جن حضرات کے زیر عتاب تھی آج وہی لوگ سائنس کے لذیذ اور میٹھے پھلوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔بے شک سائنس کی ترقی انسان کی سعی و کاوش کا ثمرہ ہے۔سائنس نے جہاں انسانی زندگی کو آرام و راحت سے مزین کر دیا ہے وہیں تنائو اضطراب ،یا س و حرما ں نصیبی کا خطرناک احساس اس دور کی کرشمہ سازیوں میں سے ایک پرفتن کر شمہ ہے۔نا امیدی ،حزن و ملال آج طلبہ میں بہت تیزی سے پھیلنے والی عفریت ہے۔یاسیت ،حرماں نصیبی کو عرف عام میں ناامیدی اور مایوسی کہا جاتا ہے۔ رنج و غم سے نا امیدی اور مایوسی کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔رنج و غم انسانی جذبات کا ایک جزو لاینفک ہے۔رنج و غم کا احساس وقتی اور بے ضرر ہوتا ہے۔لیکن یا س و حرماں نصیبی ،ناامیدی اور مایوسی انسان کو اندر سے مجروح کردیتی ہے۔بوجھل پن، دل گرفتہ ودل شکستہ رہناناامیدی اور مایوسی کی علامات گردانی گئی ہیں۔بوجھل پن اور دل شکستگی کی یہ کیفیت عموما 4سے 6ہفتوں پر محیط ہوتی ہے یا کبھی یا دورانیہ مزید وسعت اختیار کرجاتا ہے۔

احساس مایوسی اور ناامیدی نہ صرف طلبہ بلکہ ہر انسان کے لئے نقصاندہ ہوتی ہے۔مذہب اسلام نے مایوسی اور نا امیدی کو کفر قرار دیا ہے۔مسلم طلبہ کے لئے احساس مایوسی سے بچنا اور ناامیدی سے خود کو محفوظ رکھنا گویا اپنے ایمان کی حفاظت کر نا ہے۔طلبہ مایوسی اور ناامیدی سے اپنے آپ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ناامیداور مایوس آدمی کی حالت ایک ایسی جزیرہ کی ہوتی ہے جو تما م جزائر اور براعظموں سے کٹا ہوا ہوتا ہے۔اسے اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے کہ اس کے ساحل پر زندگی اور خوشیوں سے لدی کتنی کشتیاں روز اترتی ہیں یا پھر اس کے ساحل سے دیگر براعظموں اور جزائر کوروانہ ہوتی ہیں۔ اپنی افتادہ مزاج کی وجہ سے وہ زندگی کو بے کیف و بے مسرت پاتا ہے۔ وقتی رنج و غم کا احساس جو امتحانات کی قریب تر ہونے یا پھر پڑھائی کے دبائو کی وجہ سے طلبہ میں نمودار ہوتا ہیکوئی پریشان کن بات نہیں ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ ایک وقتی کیفیت ہوتی ہے جو وقت کے ساتھ گزر جاتی ہے۔طلبہ کو حرماں نصیبی اور ناامیدی کی وجہ سے ابھر نے والی دائمی علامات سے باخبر رہنا ضروری ہوتا ہے جو ان کے قوت ارتکاز ،توجہ اور انہماک پر اثر انداز ہوکر ان کے مستقبل کو تبا ہ و برباد کردیتی ہیں۔

ناامیدی اور مایوسی کی علامتیں؛مایوسی اور نا امیدی کی کیفیت میں پائے جانے والی چند علامات میں قابل ذکر(1)افسردگی (Depression) کی علامتوں میں سے ایک علامت بسترپر لیٹنے کے بعدسونے کے لئے بہت زیادہ وقت اور دقت کا سامنا کرنا۔ بیداری کے مقررہ وقت سے پہلے بیدار ہوجانا،بیداری کے بعد پھر سے نہ سو پانا۔(2)ا یسی سرگرمیوں سے اجتناب یا کنارہ کشی اختیارکرنا جن کی انجام دہی میں طلبہ پہلے لطف حاصل کرتے تھے۔اپنے آپ کو کمزور و ناتواں محسوس کرنا۔ کسی بھی کام کی انجام دہی میںجوش و خروش کی کمی یا فقدان ،کام کیئے بغیر ہی یاپھر کسی خاص وجہ سے فوری تھک جانا۔(3) طلبہ کاسوالات جوابات دینے سے قاصر رہنا۔اکثر اوقات ذہنی صلاحیت ،قوت فکر و قوت متخیلہ کا پستی کا شکار ہوجانا،قوت ارتکاز میں سستی اور گراوٹ کا پیدا ہوجانا۔(4)ناامیدی و مایوسی میں گرفتار طلبہ کی بھوک پیاس کی کیفیت میں نمایا ں فرق محسوس کیا جاسکتا ہے۔ناامیدی و مایوسی کے زیر اثر طلبہ کے وزن میں حد سے زیادہ اضافہ(موٹاپا) یا پھر گراوٹ درج کی جاسکتی ہے۔(5) ناکردہ خطا پر پشیمانی ، ناامیدی کی کیفیت میں گھرے طلبہ میں عام طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔کسی بھی ناگہانی اور خراب صورتحال کے لئے خود کو مورد الزام گردانتے ہیں۔اس کے علاوہ جسمانی شکایات کے اوہام جیسے مسلسل سر درد ، پیٹ درد کی شکایت طلبہ اور بڑوں میں احساس ناامیدی و مایوسی (Depression)کی کیفیت کے دوران پائی جاتی ہیں۔

ناامیدی و مایوسی (Depression)کی وجوہات؛(1)محبت و شفقت سے محرومی،امتحان میں ناکامی،اعلی نشانات رینک اور گریڈ کے حصول میں ناکا می طلبہ کو ذہنی اذیت سے دوچارکرنے کے ساتھ ناامیدی و مایوسی کا بھی شکار کر دیتی ہے۔(2) طلبہ کی معمولی اور چھوٹی باتوں پر اساتذہ کی جانب سے بے جا سرزنش اور عزت نفس کو مجروح کردینے والے فقرے و جملے کسنا۔کسی بد خواہ کی جانب سے بد خواہی کرنا اور نفرت انگیز افواہوں کی گردش کی وجہ سے بھی طلبہ میں احساس ناامیدی و مایوسی سر ابھارنے لگتی ہیں۔اس کے علاوہ اپنے قریبی دوست ،رشتہ دار یا عزیز کے رویے و برتائو کی تبدیلی بھی طلبہ کو احساس یا س و حرماں نصیبی سے دوچار کر دیتی ہیں۔(3)نیا ماحول اور کام و پڑھائی کے لئے نا سازگار حالات بھی طلبہ میں ناامیدی کو فروغ دیتے ہیں۔اپنے کام و ملازمت سے عدم اطمینان کا شکار طلبہ بہت جلد احساس شکست سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ناامیدی اور افسردگی کو مہمیز کرنے والے عناصر میں دیگر طلبہ کی جانب سے کی جانے والی چھیڑ چھاڑ،شرارتیں(Ragging)اور گھر سے دوری کا احساس (Home Sickness)قابل ذکر ہیں جو طلبہ کے اعصاب پر برے اثرات مرتب کرتے ہیں۔

خاندان کے منظور نظر ،خاص ماحول میں پروردہ طلبہ جن پر ہمیشہ خاندان کی نوازشات اور التفات کی بارشیں ہوتی رہتی ہیں جب وہ نئے غیر مانوس ماحول میں قدم رکھتے ہیں جہاں ان کو پہلے جیسی خاطر مدارت ،اہمیت و فوقیت حاصل نہیں ہوتی تب طلبہ ناامیدی اور مایوسی کی کیفیت میں گھر جاتے ہیں۔طلبہ کی ایک ایسی تعدا د بھی پائی جاتی ہے جو انگریزی زبان میں گفت و شنید سے لاعلمی کے باعث احساس کمتری اور مایوسی کا شکار ہوجاتی ہے۔بچوں کی کامیابی اور پیشرفت پر جب ان کی حوصلہ افزائی ،ستائش تعریف و توصیف نہ کی جائے تو بچے ناامیدی اور مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔پڑھائی ،امتحان کی تیاری اور ملازمت یا دیگرامور کی انجام دہی میں جب طلبہ وقت کی رفتار سے مطابقت پیدا کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو ناامیدی و مایوسی کا احساس شدید ہوجاتا ہے۔کم وقت میں زیادہ کام انجام دینے کی غیر فطری جستجو بھی حرما ںنصیبی کی ایک اہم وجہ ہے۔ طلبہ بہتر دوستوں کے انتخاب کے ذریعہ مایوسی پیدا کرنے والے نامساعد حالات سے باہر آسکتے ہیں۔تعلیم سفر کے ابتدائی ایام میں طلبہ کی توانائیاں مثبت افعال کی انجام دہی پر صرف ہوتی رہتی ہے لیکن وقت کے ساتھ جب طلبہ کی آرزئوںاو رخواہشات میں کجی و خرابی پیدا ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے ان پر مایوسی اور ناامید ی کی چادرد تان دی جاتی ہے۔

دوستوںکا اچانک منفی رویہ یا پھر ان کا برتری حاصل کرنے کا طریقہ کار طلبہ میں مایوسی اور ناامیدی کا احساس شدید کردیتا ہے۔اچانک حالات کا رخ جیسے فراغی کا تنگ دستی میں بدل جانا بھی طلبہ کو احساس مایوسی اور ناامید ی میں مبتلاکرنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔چھوٹے گائوں ،شہر اور محلے میں جو طالب علم اپنی قابلیت اور لیاقت کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے جب وہ اپنی محدود زندگی سے ایک وسیع دنیا میں قدم رکھتا ہے تب اس کو شہر ،ریاست بلکہ ملک کے گوشے گوشے سے آئے ہوئے چنندہ قابلیت کے حامل طلبہ سے مقابلہ درپیش ہوتا ہے تو وہ ناامیدی کا شکار ہوسکتے ہیں۔اپنے محلہ اور گائوں میں محدود مسابقت کی وجہ سے جو اول اور امتیازی مقام کا حامل طالب علم ہوا کرتا تھا بڑے تعلیمی ادارے اور بڑے شہروں میں وسیع مسابقت کے باعث وہ اپنی امتیازی خصوصیت جب برقرار نہیں رکھ پاتا ہے تو ناامیدی کے کا لے بادل اس کو اپنے لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ایسے حالات میں وطن اور اپنوں کی دوری کی وجہ سے کوئی اس کی ہمت افزائی و دلجوئی اور ڈھارس باندھنے والا بھی نہیں ہوتا ہے جس کی وجہ طلبہ ذہنی اذیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔

طلبہ اپنے ذہن میں اس بات کو محفوظ کر لیں کہ ہر انسان کو اپنی زندگی میں لامحالہ متعدد مشکلات و مصائب سے گزرنا پڑتا ہے۔نا مواقف حالات اور ماحول کی وجہ سے طلبہ خو د کو ذہنی اذیت سے دوچار نہ کریں۔مایوسی اور یاسیت کو کبھی اپنے پاس نہ آنے طلبہ کو گرمائی تعطیلات کے بعد نئی جماعت ،نئے کالج یا نئے تعلیمی ادارے میں قدم رکھنا ہوتا ہے جہاں کا ماحول ان کے لئے بالکل اجنبی ہوتا ہے ۔ وہ طلبہ جو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت سے وابستہ ہوتے ہیں انھیں بھی ماحول کے نئے پن کا سامنا رہتا ہے ۔ حتی کہ ایک معصوم بچے کو اپنی عمر کے ڈھائی تین سال کی تکمیل پر اپنی ماں کی محفوظ آغوش سے کنڈرگارٹن (اسکول) کے اجنبی ماحول میں قدم رکھنا پڑتا ہے۔ایک نو بیاہی لڑکی کوکو بھی بالکل نئے اور اجنبی ماحول میں خو د کو ڈھالنے اور اجنبی افراد کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے اصول سیکھنے پڑھتے ہیں۔اسی طرح ایک غیر انگریزی میڈیم کے طالب علم کو جب وہ اعلی تعلیم کی منازل طئے کرتا ہے تب اسے زبان و بیان کی دشواریوں اور دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ماحول سے مطابقت پیدا کیئے بغیر کوئی شخص کامیاب و کامران نہیں ہوسکتا ہے۔پھر طلبہ ماحول سے مطابقت پیدا کئیے بغیر اپنی صلاحیتوں اعتماد کیئے بغیر ،صبر و تحمل اور مستقل مزاجی سے کام لئے بنا کیسے معجزات کے وقوع پذیر ہونے کی توقع کرسکتے ہیں۔نئے ماحول سے عدم مطابقت کی وجہ سے اکثر طلبہ اپنی ناکامیوں کا دوسر وں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔طلبہ کا یہ طرز عمل خود فریبی کہلاتا ہے۔جن کے حوصلے بلند اور جو اعلی ہمت و اعلی ظرف کے مالک ہوتے ہیں وہ مسائل کا رونا رونے کے بجائے اپنے مسائل کو خو د حل کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔طلبہ اپنے ذہنوں کو مثبت فکر سے آراستہ کرتے ہوئے اورمنفی رجحانات و رویوں پر قابو پاتے ہوئے اپنے ارادوں کو تقویت و استحکام فراہم کرسکتے ہیں۔منفی فکر کی حامل طلباء اپنی ذہانت کی خرابی کو اپنے خاندان و توارث کوذمہ دار قرار دیتے ہیںاپنے حصے کی محنت کیئے بغیر ہی والدین سے شکو ہ بہ لب رہتے ہیں کہ ابتدائی معیاری تعلیم کی عدم فراہمی کے باعث ہی آج وہ ذلیل وخوار ہیں۔طلبہ کی ایک قسم ایسی بھی ہوتی ہے جو خود کو حساس جان کر دیگر لوگوں سے میل ملاپ سے گریزکرتی ہے۔

مذکورہ مفروضات سے طلبہ کوصرف وقتی راحت و سکون ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ دیر پا اور دائمی سکون و راحت کے لئے طلبہ کو زمانے کے تقاضوں کے مطابق اپنے فرائض انجام دینا ہوتا ہے۔طلبہ اپنی خامیوں کوتاہیوں کے لئے دوسروں کو الزام نہ دیںاور نہ ہی اپنی قسمت سے شاکی ہوکر فرار کی راہ اختیار کریں۔اللہ نے انسان کو اپنی زندگی کی تعمیر و تخریب کی صلاحیت سے نوازا ہے۔ اللہ کے بتائے ہوئے راستے سے اعراض و اغماض کر تے ہوئے نہ صرف وہ منزل سے گمراہ ہوجائیں گے بلکہ دنیا و آخرت کی رسوائی سے بھی نہیں بچ پائیں گے۔منفی سوچ کے باعث طلبہ ان پر کی جانے والی زیادتیوں کا بدلہ دوسروں سے لیتے ہوئے اپنی مجروح انا کو تسکین فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ایک یاسیت پسند شخص ہی دوسروں کو تکلیف میں دیکھ کر یا دوسروں کو تکلیف پہنچا کر خوش ہوتا ہے۔سیرت رسول ہم کو دوسروں کی زیادتیوں پرصبر اور بھلائی کا درس دیتی ہے۔ مشکل ،بحرانی اور خلفشار کے اس دوراہے پر طلبہ کی مدد کے لئے تین لوگ موجو د ہوتے ہیں ۔ان تینوں میں تیسرا شخص طلبہ کے مصائب و مشکلات کے دائمی حل میں سب سے زیادہ معاون و مددگار ہوتا ہے۔

اساتذہ ؛مایوسی کا شکار طلبہ میں قوت ارتکاز اور حاضر دماغی کا فقدان پایا جاتا ہے۔ذہنی خلفشارکا شکار طلبہ سے اساتذہ گفت و شنید کے ذریعہ ان کی فکر سازی کا فریضہ احسن طریقہ سے انجام دے سکتے ہیں۔اساتذہ کی شفقت اوربے تکلفی سے احتراز کی وجہ سے طلبہ اساتذہ کا احترام کرتے ہیں اور ان کی ہر بات کی تعمیل میں لگے رہتے ہیں۔اساتذہ طلبہ میں ان کی اہمیت اور قدر کے احساس کو جاگزیں کرتے ہوئے تعلیمی افعالAssignments) (کی تکمیل اور طلبہ پر مقررہ تعلیمی اوقات سے زیادہ وقت صرف کرتے ہوئے ان کی مایوسی اور غبی پن کے تدارک کے لئے کوشش کریں۔طلبہ ابتدا میں اساتذہ کی مدد لینے سے بھی کتراتے ہیں۔طلبہ کا مدد کے حصول سے انکار ہی اساتذہ کے لئے طلبہ کے مونس و مددگار کا کردار اداکرنے کا نقطہ آغاز ہوتا ہے۔ ماہر تعلیم ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب سابق صدر جمہوریہ ہند کہتے ہیں ’’ جب سب لوگ بچہ کی تعلیم و تربیت سے مایوس ہوجاتے ہیں دنیا میں پھر بھی دو آدمی ایسے ہوتے ہیں جن کا سینہ ہمیشہ امید سے روشن رہتا ہے۔ ایک اس کی ماں اور دوسرا بچے کا شفیق استاد‘‘۔اگر اساتذہ طلبہ پر یقین اور اعتماد نہیں کرتے ہیں تب طلبہ کو سماج کے اصل دھارے میں شامل کرنا بہت ہی مشکل ہوجاتاہے۔

والدین؛طلبہ کی مایوسی ،تنائو اضطراب اور ناامیدی کا موثر علاج ان کے ارکان خاندا ن ہی انجام دے سکتے ہیں۔والدین افرادخاندان کی گفت و شنید و شفقت طلبہ کے ذہنوں پر جمی مایوسی ناامیدی کی بر ف کو پگھلادیتی ہے۔جب ایک ہونہار اور لائق بچے کے تعلیمی مظاہرے میں والدین مسلسل گراوٹ اور انحطاط نوٹ کریں تب وہ بچے کو بہتر تعلیمی ماحول کے حامل مدرسے میں منتقل کردیں۔مدرسے کی تبدیلی بچوں کے کھوئے ہوئے اعتماد کی بحالی میں کارگر ثابت ہوتی ہے۔والدین بچوں کی باتو ں کو سنجیدگی سے لیں اس کی گفتگو ،جذبات اور طرز فکر پر دلچسپی کا اظہار کریں۔

طلبہ خود اپنے مددگار بنیں؛طلبہ ایک ماہر نفسیات کی طرح اپنی مایوسی اور ناامیدی کا بغور جائزہ لیتے ہوئے اپنی مایوسی اور ناامیدی کا خود علاج کر سکتے ہیں۔ایک خالی ذہن شیطان کی آماجگاہ ہوتا ہے۔مایوسی کا شکار طلبہ اپنے خود ساختہ خول سے باہر آئیںعوامی ارتباط سے گریز نہ کریں۔دوست احباب مونس و غمخوار اور بزرگ حضرات سے گفت و شنید کے ذریعہ طلبہ مایوسی سے آزادی حا صل کر سکتے ہیں۔مقام کی تبدیلی بھی ناامیدی اور مایوسی کا بہترین علاج ہے۔سیر و سیاحت تفریح و صحت مند کھیل طلبہ کے ذہن و قلب میں تازگی اور توانائی بھر دیتے ہیں اور طلبہ میں ناامیدی و مایوسی کے سدباب میں نمایا ں کردار ادا کرتے ہیں۔وقت فوقتا ماحول کی تبدیلی سیر و تفریح کے ذریعہ طلبہ مایوسی اور ناامیدی کی کیفیت پر بہتر طور پر قابو پاسکتے ہیں۔طلبہ اپنے مسائل کا غیر سنجیدہ اور نقلی ماہرین نفسیات سے ہر گز تذکرہ نہ کریں۔طلبہ اپنے رویوں کے ذریعہ رکاوٹ اور مشکلات پر قابو پاسکتے ہیں۔طلبہ یا د رکھیں کہ وہ ،افراد ،حالات اور واقعات کو تبدیل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں بلکہ جو چیز ان کی دست قدرت میں ہے جس کے ذریعہ و حالات افراد اور واقعات کا رخ بدل سکتے ہیں وہ ہے خود اپنے آپ کوتبدیل کرنا۔طلبہ آئینہ صاف کرنے بجائے اپنے چہرے کو صاف کریں۔

اپنا چشمہ یعنی اپنا زاویہ نگاہ تبدیل کریں۔ذہن پر حاوی منفی خیالات و فکر کو کرید کرید کا پھینک دیں۔طلبہ کی یہ تبدیلی دنیا میں ان کی سرخ رو ئی کا موجب بن جائے گی۔طلبہ یا د رکھیں کہ تبدیلی کا سفر ابتدا میں بیشک مشکل اور بے چینی کا سبب ہوتا ہے لیکن زندگی کے طویل سفر میں دائمی راحت و آرام کے لئے تبدیلی نا گزیر ہوتی ہے۔دنیا میں اثبات صرف تبدیلی کو حاصل ہے۔جو طلبہ خو د کو تبدیل کرنے کا ہنر نہیں جانتے وہ یاتو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتے ہیں یا پھر وہ دنیا میں ذلیل و خوار ہوجاتے ہیں۔

بدلو سوچ بدلو زندگی؛ایک بے وقوف کو چھ باتو ں سے پہچانا جاتا ہے۔(1)بلاوجہ غصہ(2)بیکار،بے سودو بے فیض اور لایعنی گفتگو(3)ترقی سے عاری تبدیلی(4)بغیر دلیل کے اعتراض(5)اجنبی لوگوں پر اعتماد کرنا(6)دشمن کو دوست سمجھنا۔حالات کے مطابق زندگی کو تبدیل کرنے کا ہنرانسان کو موروثی یا پیدائشی طور پر قدر ت سے ودیعت نہیں کیا جاتا ہے ۔بلکہ تبدیلی کا فیصلہ انسان کا اپنا ہوتا ہے۔انسان تتلی کی طرح اپنی جسمانی ہیت کی تبدیلی پر قدرت نہیں رکھتا ہے لیکن اپنی فکر ی تبدیلی کے ذریعہ خود کو بدلنے کی صلاحیت ضرور رکھتا ہے۔ طلبہ انگریزی کے اس جملے کو غور سے پڑھیں

“Peace is no where….peace is now here” اس جملے میں ایک اسپیس نے جملے کی معنویت بدل ڈالی ۔پہلا جملہ ایک منفی سوچ کا حامل ہے اور دوسرا جملہ صرف ایک اسپیس کی وجہ سے منفی کے بجائے مثبت سوچ کا حامل جملہ بن گیا ۔طلبہ بھی اپنے رموز و اوقاف اور اسپیس کو بدلتے ہوئے اپنی زندگی میں واضح فرق محسوس کر سکتے ہیں۔طلبہ اپنی مایوسی ناامیدی کا علاج اپنی تین خصوصیات کی تبدیلی کے ذریعہ خود انجام دے سکتے ہیں۔(1)رویہ(2)برتائو ،طرز عمل (3)انداز فکر۔ہر انسان میں خارجی تبدیلی کا آغاز اندرونی تبدیلی سے ہی ہوتا ہے۔آج کا دن اچھا یا خراب گزر ے گا اس کا انتخاب طلبہ کو نیند سے بیداری کے وقت بستر پر ہی کرنا ہوتا ہے۔ہنری فورڈ (Henry Ford)کہتا ہے کہ اگر آپ سوچتے ہیں کہ آپ کرسکتے ہیں۔یا آپ سوچتے ہیں کہ آپ نہیں کرسکتے ہیں ۔تب آپ کے یہ دونو ں افکار بالکل درست ہیں۔طلبہ اپنے آپ کو ذمہ داری کے احساس سے آراستہ کرتے ہوئے ہر ناممکن کو ممکن بنا سکتے ہیں۔اساتذہ طلبہ میں ذمہ داری کے احساس کو پروان چڑھائیں۔طلبہ کیا بننا چاہتے ہیں اس کا مکمل دارو مدار ان کی ذات پر ہی منحصر ہوتا ہے۔طلبہ کا سوچنے کا طریقہ ہی اچھے اور خراب حالات کو جنم دیتا ہے۔طلبہ آرام ،تفریح اور مشکلات کوہر گز اپنے مقاصد پر حاوی نہ ہونے دیں۔کوئی بھی دوست ،فرد ،تفریح،آرام طلبی آپ کو اپنے مقصد سے دور کر سکتی ہے۔ طلبہ اپنے دوست ا ور دشمن کی پہچان پیدا کریں۔منفی سوچ سے احتراز کریں۔شریعت مسلمان کو حزن و ملال میں مبتلا ہونے سے روکتی ہے۔کیونکہ اس کے خراب اثرات جسم اور روح پر مرتب ہوتے ہیں ۔

مسلمان سے شریعت مطالبہ کرتی ہے کہ وہ حزن و ملال اور ناامیدی کو پاس ہی نہ آنے دیں۔کیونکہ شیطان کو یہ بات بہت پسند ہے کہ وہ بندے کو غمگین اور ناامید کرکے اسے راستے سے منحرف کر دے۔ اللہ تعالی اعلان کرچکے ہیں ’’غم نہ کرواللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ اور ایک جگہ قرآن کہتاہے ’’اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا کفر ہے‘‘۔‘طلبہ قرآن ،تفیسر ،سیرت ،حدیث ،فقہ ،تاریخ و ادب اور عام معلومات کو اپنے مطالعہ میں رکھیں۔ طلبہ اپنے وقت کی تقسیم میں کچھ وقت عبادت کے لئے ،کچھ کھانے کے لئے ،کچھ لوگوں سے ملاقات کے لئے ،کچھ مہمان نوازی کے لئے،کچھ ورزش کے لئے اور کچھ وقت تفریح کے لئے خاص کر دیں۔اس طرح سے طلبہ کے مزاج میں شوق پیدا ہوگا ،نئے خیالات پید ا ہوں گے کیونکہ انسان کو تنوع اور نیا پن بہت ہی مر غوب ہوتا ہے۔

حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔

25 تبصرے

جواب چھوڑ دیں