بے ضمیر مسیحا

ڈاکٹر کا پیشہ ایک جاب یا نوکری نہیں بلکہ ایک بہت ہی اعلیٰ منصب ہے ۔ واقعی کتنی محنت کرنی پڑتی ہے ڈاکٹر بننے کیلئے ۔ سب سے پہلے تو یہ پیشہ اپنانے والے خوش نصیب لوگ شروع ہی سے اپنا رجحان رکھتے ہیں کہ انہیں دکھی انسانوں کی خدمت کرنی ہے پھر اس کیلئے انکی زندگی کے دس بارہ سال بڑی ہی مشقت میں گزرتے ہیں ۔ ان کے ساتھ انکے والدین اور متعلقہ لوگ بھی بسا اوقات بیش بہا قربانیاں دیتے ہیں مطلب ہر طرح کی قربانیاں ۔

پھر اگر وہ خواتین ہوں تو انکی تو اور بھی بڑی ذمہ داریاں ہوتی ہیںپہلے بھی ڈاکٹر بننے اور پھر شادی شدہ ہونے کے بعد تو ان کی بڑی ہی مشکل زندگی ہوتی ہے مگر الحمد للہ وہ اس پیشے کو واقعتاً ایک اعلیٰ منصب کے طور پر نبھاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ اکثر و بیشتر ڈاکٹرز کی فیملی میں مزید ڈاکٹرز ہی جنم لیتے ہیں لیکن بعض دفعہ نسلوں تک اس کا سلسلہ چلتا ہے اور شہرت بھی ان کے مریضوں میں نسلوں تک چلتی ہے ۔

ہمارے ہاں تو میں نے ایسے ایسے ڈاکٹرز دیکھے ہیں جو واقعتاً فرشتہ صفت ہوتے ہیں اور سو فیصد مسیحا کہلانے میں حق بجانب ہوتے ہیں کیونکہ انکا کردار بولتا ہے ، کام بولتا ہے ۔ مرنے کے بعد بھی وہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں ۔ بچے بچے کی زبان پر انکے والدین کے توسط سے جانے پہچانے جاتے ہیں ۔ آج کل بھی فرنٹ لائن پر کام کرنے والے ہزارہا ڈاکٹرز ہیں جو دن رات اپنی جانوں کو اپنی فیملی کو پس پشت ڈال کر دکھی انسانیت کیلئے دن رات ایک کئے ہوتے ہیں مگر ایسے ہی جانبازوں کو قوم ہر وقت دعا ئیں دیتی ہے سلوٹ پیش کرتی ہے مگر جس طرح ایک مچھلی سارے تالاب کو گندہ کرتی ہے، کالی بھیڑیں ہر جگہ ہوتی ہیں ۔

اس شعبے میں بھی کچھ کالی بھیڑیں ہیں جن کو دنیا کی ہوس ہے جن کے پاس نیک جذبے نہیں ، ضمیر نہیں وہ واقعتاً بے ضمیر مسیحا ہیں جو لوگوں کی جان بچانے کے بجائے جان گنوانے کے ذمہ دار بن جا تے ہیں ۔ اوپر سے تکبر کرتے ہیں ، اکڑتے ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر مریض کی اور ا س کے گھر والوں کی اتار دیتے ہیں ۔ پہلے سے دل برداشتہ مریض اور انکے لواحقین دل برداشتہ ہوجاتے ہیں بعض دفعہ اتنے شکستہ دل ہو جاتے ہیں کہ بنا علاج مرنے کو ترجیح دے دیتے ہیں مگر اس ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے ۔ پچھلے سال مجھے بھی ایک کینسر کی مریضہ کے ساتھ کئی مرتبہ شہر کے نامی گرامی ہسپتال میں جاتے رہنے اور ڈاکٹرز اور اسکے عملے کو سہنے کا موقع ملا ۔

ایک رات کا احوال میں پچھلے سال بھی لکھ چکی تھی کہ ڈاکٹرزحضرات کو پہلے اخلاق سکھایا جا ئے کہ “دین سراسر اخلاق ہے” پھر نوکری کی اجازت دی جائے اور انکے پوا ئنٹس غیراخلاقی سلوک پر کاٹے جائیں لوٹ مار کرنے والوں کو کڑی سزا دی جا ئے ۔ ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے برابر ہے تو پھر اس کو لوٹنے کا عمل مجرمانہ نہیں ؟ ایمرجنسی وارڈ میں گھنٹو ں انتظار کرواور بار بار اٹینڈینٹ کو دوا اور دیگر اشیاء کے لانے لے جانے میں ، کمرہ دلوانے میں بلکہ مریضہ کیلئے بار بار ایمرجنسی میں بھی ایمرجنسی دکھانے کی ضرورت اچھے بھلے انسان کی ہٹا کر رکھ دیتی ہے اور کیوں نہ ہوں ہزاروں روپے پینل والوں سے لیکر بھی ان کا سلوک ایسا ہوتا ہے ۔

وہاں پر کسی بھی ڈاکٹر یا پیرا میڈیکل اسٹاف کو وقت کی قدر بھی نہیں جان بوجھ کر وقت لگاتے اور پیسے بناتے ہیں ۔ یہاں تک کے بیچارہ تیماردار مریض بن جائے ۔ اللہ کی پناہ !

        ” اللہ بچائے ان بے ضمیروں کے جال سے    مریضوں کو جانچتے ہیں جو پیسوں کے جال سے “

میری دوست نے بتایا کہ ان کی پڑوسن ینگ سی لڑکی آنکھوں کی تکلیف سے کسی ڈاکٹر کے پاس گئی تو اس نے انہیں کہا کہ کالا پانی ہے فوری آپریشن کروائیںو رنہ آنکھ ضائع ہونے کا خطرہ ہے ۔ 2لاکھ کا خرچہ ہے اور بھی ذرا سا مسئلہ ہے ۔

اس لئے وہ بیچاری بے حد پریشان مشورے کے لئے میری دوست کے پاس گئی اس نے کہا میری ایک کزن ہیں وہ بھی ماہر ہیں ان کے پاس چلتے ہیں چیک کروالیتے ہیں پھر آپ کسی اور کو بھی دکھا لینا مزید تسلی ہو جا ئے پھر فیصلہ کر نا۔ ان محترمہ نے ایسا ہی کیا ۔ دوسرے ڈاکٹر نے کہا کالا پانی موتیا اتنی عمر میں عموماً نہیں ہوتا چلو دیکھ لیتے ہیں پھر واقعی ایسا ہی ہوا معمولی انفیکشن تھا ذرا سی دوا سے مریض ٹھیک ہوگیا ۔ وہ خوش ہو گئی اور کئی برسوں سے کبھی اسکو کوئی تکلیف نہ ہوئی چند ہزار میں سارا علاج اور تسلی ہوگئی ۔

بتائیے اس مسیحا کو کیا نام دیا جائے؟ اس طرح ایک اور محترمہ بار بار بے ہوش ہو جاتی تھیں ۔ ایک ڈاکٹر بھائی نے ہزاروں کے ٹیسٹ کے بعد ان کو ایپرلیپسی علاج شروع کروادیا وہ اکثر و بیشتر سوتی رہتی۔ کئی مہینے ہو گئے پونجی ختم ہو نے لگی لوگوں کی ہمت جواب دینے لگی ایک دن ان محترمہ کی طبعیت زیادہ خراب ہو گئی تو ان کی ایک دوست اپنے ڈاکٹر بھائی کے پاس لے گئی جو ہارٹ اسپیشلسٹ تھے ۔ انہوں نے جب اس کا معائنہ کیا تو کہا اس کو تو دل کی بیماری ہے ۔ اس علاج سے تو وہ موت کے دہانے پر پہنچ چکی ہے ۔ پھر فوراً دل کا علاج کیا چند ماہ میں وہ عورت ماشا ء اللہ صحت مند ہو گئی اور آج تک اپنی فیملی چلا رہی ہے۔

ایسے مسیحا کو کیا نام دیا جا ئے ؟ پھر آجکل بھی ہر بندہ ڈاکٹر سے خوف کھا رہا ہے ، جاتے ہوئے گھبرا رہا ہے کیونکہ ان کا رویہ انکا کردار انکی فیس اور مریض کی نوعیت اور مریض کے لواحقین کی جیب الگ الگ تجربات رکھتے ہیں ۔ غریبوں کیلئے الگ علاج امراء کے لئے الگ علاج ہے ہان مگر ان ہی میں سے چند آٹے میں نمک برابر گڈری کے لال ہیں جن سے دنیا نہا ل ہے وہی اہل ایمان ہیں ان ہی سے کچھ لوگ متاثر ہوتے ہیں ، دل و جان لٹاتے ہیں ان کی مانتے اوردعا ئیں دیتے ہیں ۔ ایسے ہزارہا واقعے ہیں مگر سب کے اپنے اپنے تجربات ہیں کہنے سننے کو کیا بچا ہے ؟ اب تو کچھ لوگ مایوس ہو کر کہتے ہیں ۔

                     جو بچا تھا وہ لٹانے کیلئے لائے ہیں    آخری دیپ بجھانے کیلئے لائے ہیں

ان انکی قسمت کہ انہیں ضمیر والا ڈاکٹر ملتا ہے یا بے ضمیر مسیحا ؟ مگر میں کہتی ہوں مایوسی کفر ہے۔ جیسے کرونا کا ٹیسٹ مثبت یا منفی آتا ہے اس طرح ہماری سوچ کو مثبت ہوتے دیر نہیں لگے گی ۔ ہمیں اللہ سے دعا مانگنی چاہئے ان کے لئے اور گھرو ں میں شروع سے خود ہی رول ماڈل بن کر بچوں کو ہمیشہ ہمیشہ مثبت سو چ اور کردار کا حامل بنا نا چاہئے ۔ ساری بات احساس ہی کی تو ہے ۔

احساس کے بنا رشتوں کو اہمیت نہیں اور احساس ہو جائے تو جذبے سچے مضبوط ، بے لوث ہیں ہر کسی کے لئے چاہے وہ کوئی بھی ہو ۔ کیونکہ یہ احساس کہ “ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور ہم آپس میں بھائی بھائی ۔ تو پھر منزل آسان کو ئی مشکل نہیں بڑی سے بڑی آزمائش کو اپنی محبت جذبہ ایمانی محبت ، محنت اور خلوص سے دور کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ہر مرحلے پر اللہ سے مدد کی دعا طلب ہواور امید کے ساتھ اس کا بندہ بن کر حق انسانیت ادا کیا جائے ۔

واقعی اس چھوٹی سی زندگی میں یہی بڑے کام ‘اللہ کا احسان’ اور ہمارا انعام ہیں ۔ اپنے اس مشن کو مقصد زندگی کے احساس کو اجاگر کرکے بے ضمیری کو شکست دیں۔ کرونا خود شکست کھا جائے گا لیکن اس کی شرط تکبر نہیں ، عاجزی انکساری اور توبہ اور دعائوں کے حصار اور استغفار کو ہر لمحہ مدنظر رکھ کر ہی مستقل مزاجی سے آگے بڑھتے رہنا ہے ۔ اللہ ہمارا ولی ہے اس امید کے ساتھ کہ وہ ہمارے گمان کے ساتھ ہے وہ ضرور ہم سے راضی ہو جائے گا اور امان دے گا ۔

جواب چھوڑ دیں