جس طرح ماں کی اہمیت ہے اسی طرح باپ بھی برابر کی اہمیت کا حامل ہے ویسے تو مسلمان ہونے کے ناطے ہم کسی ایک دن کے محتاج نہیں ہیں اپنے ماں باپ سے ان کے ایثار و قربانی کے جواب میں خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ، میں جب بھی اپنے بابا کے لیے لکھنے بیٹھتی ہوں تو سوچتی ہوں الفاظ کے کون سے باغ سے وہ پیارے موتی اٹھا کے لاؤں جن کو پروکران کے لیے کچھ لکھ سکوں ،کیسے ممکن ہے کہ ساری زندگی کی داستان چند لفظوں میں بیان کر سکوں جن کی محبت لازوال۔
باپ کی محبت کو ناپنے کے لئے شاید ہی کوئی پیمانہ اب تک ایجاد ہوا ہو، جب عملی زندگی میں پہلی بار میں نے جاب پر ڈانٹ کھائی تو گھر آ کر بہت دیر تک اداس رہی اور سوچا کہ شاید ایسے ہی میرے بابا کے ساتھ بھی ہوا ہوگا اپنے بچوں اپنے خاندان کے خاطر کتنا برداشت کرتے ہیںباپ سارے ہوتے ہی ایسے ہیں یہ اپنی اولاد کے لیے کڑی دھوپ میں رہتے ہیں ان پر سایا بن کے، بہت عجیب وغریب رویے بھی برداشت کرتے ہیں۔
باپ ایک ایسا سایہ دار شجر ہی تو ہے جو طوفان سے لڑتا ہے اور اپنی اولاد کو ٹھنڈی چھاؤں دیتا ہے اپنی اولاد کے لئے ان کے بچپن سے لے کر ان کی منزل تک ان کے لئے بےلوث ہو کر محنت کرتا ہے باپ دنیا میں وہ واحد ہستی ہے جو اپنی اولاد کی کامیابی پر دل سے خوش ہوتی ہے۔ مجھے یاد ہے میں پہلی بار جب اعتکاف میں بیٹھی تھی تو میرے بابا نے مجھ سے کہا مجھے تو ایسا لگتا ہے جیسے آج تم عمرہ کر کے آئی ہو اور ان کی بات سچ بھی ثابت ہوگئی۔
عظیم ہستی جس کے منہ سے نکلے الفاظ جو کہ بہت شفیق اور مہربان ہوتے ہیں یہی دعا کی صورت میں قبول ہو جاتے ہیں۔یہ باپ ہی ہوتے ہیں جو آپ کی خواہشوں کو پورا کرنے کے لیے دن رات ایک کر دیتے ہیں اور ایک مضبوط دیوار بن کے آپ کے اور آپ کی مشکلوں کے درمیان کھڑے ہوجاتے ہیں۔
اگر ہیں تمہارے پاس تمہارے بابا تو بیٹھو ان کے پاس، سنو ان کے دل کی اور ڈھیر ساری باتیں کرلو پھر جب یہ نہ ہوں گے تو پھر تڑپو گے تھوڑی سی آواز کو بھی، ان کے لمس کو بھی یاد کرو گے لیکن دوبارہ نہیں آنے والے، ہم ان کی محبت و چاہت کا قرض تو نہیں اتار سکتے لیکن جواب میں محبت د ے کر، وقت دے کر ان کو کچھ خوشی دے سکتے ہیں نا اور کچھ نہیں چاہیے ہوتا انہیں بس اولاد مسکرائے اسی میں خوش ہو جا تے ہیں ۔