بی ایس اونرز کے پہلے سیمسٹر کی بات ہے۔ ڈاکٹر طاہر مقبول کا لیکچر جاری تھا۔ لیکچر کے آخر میں طلبہ کو مائیکرو سوفٹ آفس پر اسائنمنٹ بنانے کو دی۔ یونیورسٹی کا پہلا سیمسٹر تھا۔ بہت سے طلبہ مائیکرو سافٹ آفس سے آشنا نہ تھے۔ چناچہ ڈاکٹر صاحب کے سامنے طلبہ نے یہ مسئلہ رکھا کہ ہم یہ اسائنمنٹ کیسے بنائیں؟ ہم نے تو پہلے کبھی مائیکرو سافٹ آفس استعمال کر کے نہیں دیکھا”۔ڈاکٹر صاحب نے اپنے مخصوص اور مزاحیہ انداز میں جواب دیا کہ ہر کام جو آپ کر سکتے ہیں۔ وہ کبھی نہ کبھی تو آپ نے پہلی دفعہ کیا ہو گا۔ اسی طرح نئی چیز کو پہلی دفعہ تو کرنا ہی ہوتا ہے۔
اب حضرت عزرائیل علیہ السلام آپ کی جان قبض کرنے آ جائیں اور آپ ان سے کہو کہ میں نے کبھی مر کے نہیں دیکھا تو میں مر نہیں سکتا۔ مرنا تو آپ کو پڑے گا۔”جواباً سب مسکرا دیے۔اس چھوٹے سے مزاح میں سیکھنے کے لیے ایک بہت اہم پہلو پوشیدہ تھا۔ انسانی فطرت ہے کہ اگر اسے کوئی ایسا کام دیا جائے جو اسے کرنا نہیں آتا۔ تو وہ شروع کرنے سے ہچکچاتا ہے۔ اس کی وجہ اس کے اندر کا ڈر اور گھبراہٹ ہوتی ہے۔
لیکن اگر وہ ہمت کر کے اس کام کو شروع کرے تو کچھ ہی عرصے میں اس کام میں مہارت حاصل ہو جاتی ہے۔لیکن اگر انسان سیکھنے کی بجائے راہ فرار اپناتا رہے تو اس کے آگے بڑھنے کی رفتار یا تو کم ہو جاتی ہے یا رک جاتی ہے۔ یہ رویہ انسان کو کمزور کرتا ہے۔ لہذا کسی بھی نئے کام کو خوش دلی اور لگن سے سر انجام دینا ضروری ہے کیونکہ یہی چھوٹے چھوٹے کام ہمارے اندر ایسے رویہ پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں جو کہ کامیابی کے ضامن ہیں۔