سید الشہداء کا نام مبارک آسمان پر لکھا ہوا ہے سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شیر ہیںسید الشہدا ء حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو شرفِ صحابیت کے ساتھ ساتھ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے نسبت قرابت بھی حاصل ہے اور رشتہ رضاعت بھی آپ نسبی رشتہ کے لحاظ سے حضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چچا جان اور دودھ کے لحاظ سے رضاعی بھائی بھی تھے۔
حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ بہادر، سخی ، نرم مزاج والے ، خوش اخلاق، قریش کے دلاور جوان اور غیر ت مندی میں انتہائی بلند مقام کے مالک تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جو پہلا جھنڈا تیار کیا وہ سید الشہداء ہی کے لئے تھا۔ جب 2 ھ 623 میں حضور سید عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں قوم جہینہ کے علاقے سیف البحر کی طرف(ایک دستے کے ہمراہ) بھیجا ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حکم پر آپ پہلے تلوار چلانے والے تھے جن کے سر پر جھنڈا تھا ،آپ کا اسم گرامی : سیدنا امیر حمزہ ، کنیت: ابوعمارہ ، لقب : اسد اللہ و اسد رسول اللہ ، سلسلہ نسب اس طرح ہے:
سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب لوئی بن غالب (الیٰ آخرہ ) ، والدہ کا اسم گرامی : ہالہ بنت وہب بن عبد مناف بن زہرہ۔حضرت ہالہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کی چچازاد بہن تھیں۔سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چچا اور رضاعی بھائی ہیں۔ ابولہب کی آزاد کردہ کنیز ثوبیہ رضی اللہ عنہا نے ان دونوں ہستیوں کو دودھ پلایا تھا۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی عمر نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے دو سال یا چار سال زیادہ تھی۔بعثت کے دوسرے سال اسلام لائے۔
اسلام لانے کے دن انہوں نے سنا کہ ابو جہل نبی مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی توہین کہہ رہا ہے تو انہوں نے حرمِ مکہ میں اس کے سر پر اس زور سے کمان ماری کہ اس کا سر پھٹ گیا ، اور حضرت سیدنا امیرحمزہ رضی اللہ عنہ نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے گزارش کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دین اسلام کا کھل کر پر چار کیجئے،اللہ تعالیٰ کی قسم ! مجھے دنیا بھر کی دولت بھی دی جائے تو میں اپنی قوم کے دین پر رہنا پسند نہیں کروں گا ،آپ سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تقویت حاصل ہوئی مشرکین آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ایذا رسانی سے کسی حد تک رک گئے بعد ازاں ہجرت کرکے مدینہ منورہ چلے گئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : گزشتہ شب جب میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ (حضرت) جعفر طیار رضی اللہ عنہ جنت میں فرشتوں کیساتھ پرواز کر رہے ہیں اور سید الشہداء امیر حمزہ رضی اللہ عنہ ایک عظیم تخت پر ٹیک لگائے بیٹھے ہیں(المستدرک للحاکم ، حدیث 4878) حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : جس دن اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کو جمع فرمائے گاان میں سب سے افضل انبیاء و مرسلین ہی رہیں گے اور رسولوں کے بعد سب سے افضل شہداء کرام ہوں گے اور یقینا شہداء کرام میں سب سے افضل سید الشہداء سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ ہوں گے ، (بحوالہ جامع الاء حادیث للسیوطی)
حضرت جابررضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالی کی بارگاہ میں سید الشہداء جنابِ امیر حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب شفاعت کرنے والوں کے سردار ہیں بحوالہ مستدرک للحا کم صحابہ کرام ؓ نے فرمایا: جب سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ارشاد فرمانے لگے :آپ کی جدائی سے بڑھ کر میرے لئے کوئی اور صدمہ نہیں ہو سکتا،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور اپنی پھوپھی جان حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا :خوش ہو جاؤ ! ابھی جبریل امین علیہ السلام میرے پاس آئے تھے انہوں نے مجھے خوشخبری سنائی ہے کہ حضرت سید الشہداء امیرحمزہ رضی اللہ عنہ کا نام مبارک آسمان والوں میں لکھا ہوا ہے،سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے شیر ہیں۔ (المستدرک للحا کم ،حدیث4869)
غزوہ احد میں آپ نے 31 مشرکوں کوجہنم رسید کیا،پھر آپ کا پاؤں پھسلاتو آپ تیر اندازوں کی پہاڑی کے پاس واقع وادی میں پشت کے بل گر گئے ،زرہ آپ کے پیٹ سے کھل گئی ، جبیر بن مطعم کے غلام وحشی بن حرب نے کچھ فاصلے سے خنجر پھینکااور اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھوں آپ سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو سید الشہداء کے مرتبہ شہادت سے سرفراز فرمایا۔بعد ازاں مشرکین نے آپ کے اعضاء کاٹے اور پیٹ چاک کیا ایک عورت نے آپ کا جگر نکال کر چبایالیکن اسے اپنے حلق سے نیچے نہ اتار سکی ناچار اسے تھوک دیا ،جب رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ اطلاع ملی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا :اگر یہ جگر اس کے پیٹ میں چلا جاتا تو وہ عورت آگ میں داخل نہ ہوتی۔کیونکہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں میرے سید الشہداء امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی اتنی عزت ہے کہ ان کے جسم کے کسی حصے کو آگ میں داخل نہیں فرمائے گا۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لائے اور سیدنا سید الشہداء کے مسل کیے ہوئے جسم کو دیکھاتو یہ منظر آپ کے دل اقدس کے لئے اس قدر تکلیف دہ تھاکہ اس سے زیادہ تکلیف دہ منظر آپ کی نظر سے کبھی نہیں گزرا تھا نبی مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا اے چچا سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو،کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ جب تک عمل کرتے رہے بہت نیکی کرنے والے اور بہت صلہ رحمی کرنے والے تھے۔پھر ان کے جسد مبارک کو قبلہ کی جانب رکھااور ان کے جنازے کے سامنے کھڑے ہوئے اور اس شدت سے روئے کہ قریب تھا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر غشی طاری ہو جاتی ،نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرما رہے تھے اے اللہ کے رسول کے چچا اللہ اور اس کے رسول کے شیر اے امیر حمزہ رضی اللہ عنہ! اے نیک کام کرنے والے ! امیر حمزہ رضی اللہ عنہ! مصیبتوں کو دور کرنے والے اے امیر حمزہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا دفاع کرنے والے یہ بھی فرمایا ہمارے پاس جبرائیل تشریف لائے اور ہمیں بتایا کہ حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ساتوں آسمانوں میں لکھا ہوا ہے: ’’امیر حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب ، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے شیر ہیں ‘‘۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں ایسی چادر کا کفن پہنایا کہ جب اسے آپ کے سر پر پھیلاتے تو پاؤں ننگے ہو جاتے اور پاؤں پر پھیلاتے تو سر ننگا ہو جاتا ، چنانچہ وہ چادر آپ کے سر پر پھیلا دی گئی اور پاؤں پر اذخر ( خوشبودار گھاس ) ڈال دی گئی ، انہیں ایک ٹیلے پر دفن کیا ،چالیس سال کے بعد شہداء احد کی قبریں کھولی گئیں تو ان کے جسم تر و تازہ تھے ان کے ہاتھ پاؤں مڑ جاتے تھے اور ان کی قبروں سے کستوری کی خوشبو آتی تھی ،حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے پاؤں پر کدال لگ گیا تو اس سے خون بہنے لگا ،حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد ماجد( حضرت عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ ) کا ہاتھ چہرے کے زخم سے ہٹایا گیا تو وہاں سے خون بہنے لگا، ہاتھ دوبارہ اسی جگہ رکھ دیا گیا تو خون بند ہوگیا ،نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے شہداء احد کے بارے میں فرمایا کہ جو شخص قیامت تک ان کی زیارت کرے گااور ان کی خدمت میں سلام عرض کرے گا تو وہ اسے خود جواب دیں گے۔