عورت مشرق ومغرب کے ہر معاشرے میں مرد کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہمیشہ سے ہو رہی ہے۔نوعیت کا فرق ہو سکتا ہے ،طریقہء کار مختلف کہہ سکتے ہیں لیکن انجام کے لحاظ سے سب ہی عورت کے حقوق غصب کرنے والے ہیں۔ہر وہ عورت جو بیوہ ، مطلقہ یا اپنے شوہر سے غیر مطمئن ہے اپنی کمزور جبلت کی وجہ سے شیطان کے لئے کار آمد ہتھیار ہے۔کچھ بےوقوف، ناسمجھ عورتوں کے ذریعے وہ مردوں کی نیتوں میں فتور ڈالتا ہے اور کسی کی ازدواجی زندگی کو برباد کرڈالتا ہے۔
ایامِ جاہلیت (محمد ؐ کی مکہ میں پیدائش کے وقت) مردوں کا معاشرہ تھا، عورت کو اس کے فطری حقوق دینے کے لئے قرآن اترا۔ذہنی، جسمانی، معاشی، معاشرتی، اخلاقی، جذباتی طور پہ عورت کو تحفظ دینے کے سارے قوانین اتارے گئے۔ حقوق وفرائض کی بہترین تقسیم میں عورت کو مرد کی طرح برابر انسان باور کرایا گیا اور عورت “صنفِ نازک” کہہ کر مرد کے سپرد کی گئ تاکہ وہ اس کو ٹھیس نہ پہنچنے دے، مگر مسلمان معاشرے میں عورت کے حوالے سے خصوصاً برصغیر میں ( ہندوآنہ سوچ و فکر کے زیر اثر) مرد کا رویہ عموماً آج بھی ایامِ جاہلیت والا ہی ہے۔ خصوصاً بیوی کے ساتھ متشددانہ رویہ موجود ہے، جسمانی، ذہنی اور جذباتی تشدد میں سے جس کو جو موقع ملے اپنا حق سمجھتا ہے ۔قلبی ، ذہنی و جذباتی اذیت وہ پوشیدہ قتل ہے جس کی پیشی اللّہ رب العالمین کی عدالت میں ہوگی جو دلوں کے حال تک جانتا ہے، کیونکہ دنیا میں اس کی ٹھوس شہادتیں دستیاب نہیں ہوتیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جو بیویاں متحمل مزاج، وفادار فرماں بردار اور گھر بسانے کا تہیہ کئے ہوتی ہیں وہ اس کا شکار زیادہ ہوتی ہیں. اچھی شکل وصورت، مستحکم مالی حالت مگر بُری نظر رکھنے والے قدر ناشناس شوہر ایسی بیویوں کے نیک کردار سے مکمل مطمئن ہوجاتے ہیں تو اپنی خواہشِ نفس کو بے لگام کر دیتےہیں۔دو تین دہائیاں پہلے نیک فطرت، سادہ لوح وفادار بیویوں کو ساس نندوں یا خرچے پانی کی تنگی ہوتی تھی مگر پچھلی ایک دہائی میں شوہروں کے نازیبا چال چلن اور نامحرم عورتوں سے دوستیوں سے وفادار بیویاں نالاں و پریشان حال ہیں۔
غیر عورت (وہ کوئی بھی ہو سکتی ہے رشتہ داروں میں، دوست کی بیوی ، بیوی کی سہیلی، کولیگ وغیرہ) سے دوستی، آشنائی میل جول کو سٹیٹس سمبل بنا دیا گیا ہے. جبکہ ھمارا دینِ اسلام (قرآنی قانون یہ ہے کہ غیر محرم سے دوستی، آشنائ حرام ہے) مرد کو نیک فطرت بیوی کی طرف سے جواباً بےوفائ یا واویلا کرنے کا خطرہ نہیں کیونکہ بیوی کو معاشرے کا دباؤ، اور اولاد کے حوالے سے مستقبل کا ڈراوا خاموش رکھتا ہے،( یہ بھی ایک لمحہء فکریہ ہے کہ کیا یہ خاموش رویہ ٹھیک ہے؟ کب تک چلے گا؟ جب یہ نہیں رہے گا تو کیا ہوگا؟)
یہ بھی المیہ ہے کہ دوسری شادی کرنے کی اجازت والی شریعت کی آڑ میں شادی کے لئے آن لائن ادارے اور رشتے کی تلاش میں تعاون کرنے والے لوگ یا ادارے مالی مفاد کی خاطر “مہذب” لوگوں کو غیر شرعی تعلقات میں سہولتیں دیتے ہیں. یا بد نیت مرد میل جول والوں سے رشتے کی تلاش کا اظہار کرکے کچھ اور نہیں تو صرف رشتہ دیکھنے دکھانے کے چکر میں طریقہ اپناتے ہیں ۔ غیر عورتوں سے میل ملاقات دوستی کے راستے نکالنے کا یہ محفوظ طریقہء کار “مہذب”مردوں میں کافی مقبول ہے. موبائل سے رابطوں میں آسانی کی بھرمار نے گھروں کو برباد کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔
نیت شادی کی تو اکثر مردوں کی ہوتی ہی نہیں اس کی آڑ میں دوستی پہ اصرار کیا جاتا ہے۔ عورت جذباتی باتیں سن کر تسکین پاتی ہے اور اپنے آپ کو دھوکا دیتی ہے کہ ایک مرد اپنی نیک سیرت بیوی پہ مجھے ترجیح دیتا ہے۔ مرد کی مردانہ انا جوانی کی تسکین محسوس کرتی ہے کہ وہ عورتوں کے لئے ابھی بھی باعثِ کشش ہے وہ ایک وقت میں متعدد عورتوں کو خلوص اور محبت کی یقین دہانی کراتا ہے. بیوی کے دل سے نکل کر دوسروں کی بیویوں یا تنہا عورتوں کے دل میں بسنے کے لئے پاپڑ بیلتا ہے، یوں شیطان میاں بیوی کے درمیان ایک آڑ قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ وہ مطلقہ یا بیوہ خواتین جو خود اچھا کما رہی ہیں انہیں نکاح کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ان کو اپنی ذہنی تسکین اور دیگر معاملات میں لطف اندوز ہونے کے لئے ایک مرد کی ضرورت ہوتی ہے جس کی ذمہ داریوں سے وہ بری الذمہ رہیں اور چوری چھپے کا رومانس بھی زندگی رنگین رکھے۔ کچھ مرد اور عورتیں تو اس قدر بے غیرت اور ہوس کے مارے ہوتے ہیں کہ برے عمل کو گناہ تسلیم کر لینے اور اسے چھوڑ دینے کے وعدے کے باوجود اسی پہ قائم رپتے ہیں۔ فحاشی اور کھلی یا چھپی بے حیائی اور نامحرم مرد و عورت سے دوستی اللّہ تعالی نے حرام کی ہے اور اس سے دور رہنے کا واضح حکم دیا گیا ہے قرآن میں۔ لیکن یہ حکم عدولی اب معاشرے میں عام بات ہوگئ ہے ۔ ( استغفراللہ )
اس سارے بکھیڑے میں بڑا امتحان شریف اور وفادار بیوی کا ہوتا ہے۔ ذہنی، جذباتی اور معاشرتی دباؤ اور مسائل کے اس انبار میں وہ اپنا گھر، بچوں کا مستقبل اور اپنی عزت نفس پامال ہونے سے کیسے بچائے؟