دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک کی معیشتیں اس وقت عالمگیر وبا کے باعث شدید دباو کا شکار ہیں۔غربت ،بے روزگاری اور نفسیاتی مسائل سمیت متعدد سماجی چیلنجز کا سامنا ہے جس سے نبردآزما ہونے کے لیے دانشمندی ،تحمل اور مضبوط بروقت فیصلہ سازی کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ان تینوں عوامل کا زکر اس وجہ سے کرنا پڑ رہا ہے کہ دنیا کو یاد ہو گا کہ دسمبر کے اواخر اور رواں برس کے اوائل میں دنیا بھر میں ایک ہی نام گونج رہا تھا “ووہان”۔ چین میں تقریباًسوا کروڑ آبادی والے اس شہر کو نوول کورونا وائرس کا ابتدائی مرکز قرار دیا گیا تھا مگر بعد میں اس شہر نے وبا کو شکست دینے میں ایک ایسی مثال رقم کی جسے مدتوں یاد رکھا جائے گا۔
ووہان کو چینی معیشت کا ایک اہم مرکز بھی سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا کے اہم ممالک اور ووہان کے درمیان اقتصادی سماجی روابط بھی چین کے دیگر کئی شہروں کی نسبت زیادہ ہیں۔ابھی حال ہی میں ووہان نے ایک اور اہم سنگ میل عبور کیا اور تقریباً ایک کروڑ شہریوں کا نیوکلک ایسڈ ٹیسٹ کیا گیا جس کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ وبا کو جڑسے اکھاڑ پھینکنے کے عمل میں کسی بھی قسم کی کمی بیشی نہ رہے اور شہر میں معاشی سماجی سرگرمیاں مکمل طور پر بحال ہو سکیں۔یہ بات قابل زکر رہی ہے کہ اس سارے عمل کے دوران صرف تین سو ایسے افراد سامنے آئے جنہیں “بناء علامات” والے مریض قرار دیا جاتا ہے جبکہ ان سے قریبی رابطے میں رہنے والے گیارہ سو چوہتر افراد کے ٹیسٹ منفی آئے ہیں جو انتہائی خوش آئند ہے۔ووہان کی مقامی حکومت کی جانب سے ٹیسٹ کے تمام اخراجات برداشت کیے گئے۔
اس دوران ووہان میں امراض کی روک تھام و کنٹرول مرکز کی جانب سے شہر میں نکاسی آب ، پبلک ٹرانسپورٹ بشمول بس ،سب وے ٹرین، ٹیکسی سمیت شاپنگ مالز،ریسٹورنٹس اور پارکس سے بھی تیئیس سو سے زائد سیمپلز لیے گئے اور کورونا وائرس ٹیسٹ کا نتیجہ منفی رہا۔ووہان شہر میں ان نتائج کے حصول کو انسداد وبا کی جنگ میں ایک بڑی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ اقدام انتظامیہ کی درست اور بر وقت فیصلہ سازی کا اظہار ہے۔اس سے قبل ووہان کے شہریوں نے ایک طویل لاک ڈاون میں بھی تحمل اور صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے عظیم قربانیاں دیں اور اب ان نتائج کی بدولت شہریوں میں نفسیاتی مضبوطی سے اقتصادی سماجی استحکام میں مدد مل سکے گی۔اگرچہ ووہان میں آٹھ اپریل کو لاک ڈاون کا خاتمہ کر دیا گیا تھا مگر اس کے باوجود ووہان کے شہریوں کو دیگر لوگوں سے میل جول میں مسائل کا سامنا تھا کیونکہ یہ ڈر اور خوف بدستور موجود تھا کہ کہیں وائرس کا شکار نہ ہو جائیں۔
وسیع پیمانے پر اپنی نوعیت کے اس منفرد ٹیسٹ کی بدولت ووہان کے شہریوں کا اعتماد بھی بڑھے گا اور انہیں یہ اندیشہ بھی نہیں رہے گا کہ انہیں کسی بھی جگہ امتیازی سلوک کا نشانہ بننا پڑے گا۔ووہان سمیت چین بھر میں انسداد وبا کی بہتر صورتحال اور ان تمام کامیابیوں کی بنیاد پر ہی چین میں اس وقت اقتصادی سماجی سرگرمیاں بحال ہو چکی ہیں۔اگرچہ دیگر دنیا کی طرح چین کی ترقی بھی وبا کے باعث متاثر ضرور ہوئی ہے مگر سنگین طور پر متاثر ہونے کے امکانات کم ہیں۔چین میں ملکی کھپت کو اس وقت ترجیح دی جا رہی ہے اور بیرونی انحصار کو کم کرنے کی حکمت عملی اپنائی گئی ہے۔چین نے حالیہ عرصے میں تین اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں جن میں سرفہرست انسداد غربت سے متعلق حیرت انگیز نتائج شامل ہیں۔غربت کی شرح کو 0.6 فیصد کی سطح تک لایا گیا ہے۔شہریوں کے معیار زندگی میں نمایاں بہتری آئی ہے اور فی کس آمدنی بھی بیالیس سو ڈالرز ہو چکی ہے۔
اس کے علاوہ شہری آبادکاری کو بھی ترجیح دی گئی اور اس وقت ملک کی مجموعی آبادی کا تقریباً ساٹھ فیصد شہری آبادی پر مشتمل ہے۔چینی حکومت نے ماحولیاتی تحفظ کو بھی نمایاں اہمیت دی ہے۔گرین ترقی کے نظریے کے تحت آلودہ عناصر کی روک تھام و کنٹرول کو یقنی بناتے ہوئے ماحول کے تحفظ کو اجاگر کیا گیا ہے۔ چین کی گرین ترقی میں جن چیزوں کو اہمیت دی گئی ہے ان میں گرین صنعتوں کا فروغ ، کلین انرجی کی فراہمی ، گرین ٹرانسپورٹ اور آلودہ عناصر کی روک تھام اور خاتمہ اہم ہیں۔آپ کو اب چین بھر میں الیکٹرک گاڑیاں نظر آ ئیں گی۔ فیکٹریوں کو شہروں سے باہر منتقل کیا گیا ہے تاکہ لوگوں کی صحت متاثر نہ ہو۔آبی آلودگی پر کنٹرول کرنے کے لیے زراعت میں جدید اصلاحات کی گئی ہیں جبکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں چار فیصد سے زائد کمی لائی گئی ہے۔
چین نے اس دوران مالیاتی شعبے کے استحکام پر بھی توجہ دی ہے۔کھلے پن کے فروغ سے بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کیا گیا ہے۔نئے آزاد تجارتی زون قائم کیے جا رہے ہیں جبکہ ٹیکس اور فیس میں کمی سمیت سرمایہ کاروں کو دیگر مراعات دی جا رہی ہیں۔ٹیکنالوجی کا شعبہ بھی چینی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔چین بھر میں فائیو جی نیٹ ورک کی تعمیر تیز ی سے جاری ہے ۔ ملک کے چھوٹے شہروں ، کاونٹیوں میں فائیو جی نیٹ ورک کی تعمیر کے اقدامات میں تیزی لائی جا رہی ہے ۔ رواں سال کے اواخر تک چین میں چھ لاکھ سے زائد فائیو جی بیس اسٹیشنز تعمیرکیےجائیںگے۔فائیوجیسروسنےوباکےکنٹرولاورسماجیسرگرمیوں کی بحالی میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ اسی باعث مختلف ادارے فائیوجینیٹورککوسرمایہکاریکیایکاہمسمتاورچینیمعیشتکیترقیکااہمپہلوسمجھتےہیں۔چین کی جانب سےحالہیمیں”دواجلاسوں” کےدورانہرہفتےدسہزارسےزائدفائیوجیسروس بیساسٹیشنزقائم کرنے کا عزم بھی ظاہر کیا گیا ہے جبکہ اس وقت ملک میں فائیو جی صارفین کی تعداد بھی ساڑھے تین کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔
بیلٹ اینڈ روڈ کی ترقی کو بھی چینی قیادت کے نزدیک اہم مقام حاصل ہے اور پاکستان کے لیے ” چین پاک اقتصادی راہداری ” کے تناظر میں اس کی مزید اہمیت ہے۔چین بناء کسی خفیہ ایجنڈے کے تمام ممالک کو اس منصوبے میں شمولیت کی دعوت دے رہا ہے تاکہ ایک ساتھ مل کر انسانیت کے لیے ایک مشترکہ مستقبل کے حامل سماج کی تعمیر کی جا سکے۔چینی قیادت واضح کر چکی ہےکہ دی بیلٹ اینڈ روڈ کی اعلیٰ معیار کی ترقی کو یقینی بنایا جائے گا اور “وِن۔وِن” کی بنیاد پر ہی آگے بڑھا جائے گا۔وبائی صورتحال کے تناظر میں اگرچہ تعمیراتی سرگرمیوں میں عارضی تعطل آیا ہے مگر یہ امید کی جا سکتی ہے کہ صورتحال کی بہتری سے مثبت پیش رفت جاری رہے گی۔
نوول کورونا وائرس کے باعث چینی معیشت میں رواں برس کی پہلی سہ ماہی کے دوران 6.8 فیصد کی گرواٹ آئی ہے تاہم چینی حکومت نے اقتصادی بحالی کے لیے بروقت اہم فیصلے کیے ہیں اور سرمایہ کاروں بالخصوص چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کو خصوصی مراعات دی گئی ہیں۔قرضوں کی فراہمی سے اقتصادی سرگرمیوں کی بحالی کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔رواں برس روزگار کے نوے لاکھ سے زائد نئے مواقع پیدا کیے جائیں گے۔غربت کے مکمل خاتمے سے ایک معتدل خوشحال معاشرے کی تعمیر کی جائے گی اور انسداد وبا کی سرگرمیوں کو اقتصادی سماجی ترقی سے ہم آہنگ کیا جائے گا۔عالمی اقتصادی ترقی کے ایک اہم انجن کی حیثیت سے چین کی کوشش ہے کہ عالمگیر اقتصادی ترقی کے عمل میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا جائے۔
عالمگیر وبائی صورتحال کے تناظر میں ایک چیز تو طے ہے کہ صرف ویکسین کی دستیابی کی صورت میں ہی عالمی معیشت بتدریج بحال ہو سکے گیلیکن جب تک ویکسین دستیاب نہیں ہوتی اُس وقت تک تو حکومتوں کو موئثر ترقیاتی منصوبے ترتیب دینا پڑیں گے۔اس ضمن میں چین کی پالیسی سازی سے سیکھا جا سکتا ہے۔