سرزمین پاکستان دو قوتوں کا میدان جنگ

ٹویٹر مہم سے لیکر پریس کانفرنسز اور میڈیائی دانشوروں کے بے مدلّل تجزیے بھی سنے ہیں وہ اپنی انگلی سے سورج کی روشنی کو روکنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن وہ غلطی پر ہیں حقیقت کو جھٹلانا اب انکے لیے ممکن نہیں اور نہ ہی اپنے روایتی ہتھکنڈوں سے لوگوں کو مزید گمراہی کے اندھیروں میں قید رکھ سکتے ہیں کیونکہ عوام اب اس فرسودہ نظام سے بیزار آچکی ہے اور ماسوائے اقلیتی مفاد پرست ٹولے کے ہر شخص سچ جاننا اور حقیقت تک پہنچنے کا متلاشی رہتا ہے۔

پاکستان پے در پے بحرانوں کی زد میں ہے کچھ ایسے ہیں جو موجودہ حکومت کو ورثے میں ملے اور کچھ ایسے ہیں جو مصنوعی طور پر پیدا کیے جارہے ہیں اور روایتاً مخالفین خواہ وہ سیاستدان ہوں یا میڈیائی دانشور انہوں نے اسے فرد واحد عمران خان کی نااہلیت قرار دیدیا ساتھ ساتھ ایک قدم اور آگے بڑھ کر پاک فوج کو بھی اس کا زمہ دار قرار دیدیا جوکہ بہت بڑا جھوٹ ہے سو فیصد جھوٹ ہے کیونکہ ماضی گواہ ہے ہمارے ہاں عوام سے زبردستی کی ہمدردی اور تنقید برائے تنقید کے ذریعے مخالف حکمران و ناپسندیدہ پارٹی کی مقبولیت کا گراف کم کرکے اسے ایوان اقتدار سے بےدخل کرنے تک محدود ہوتی ہے۔

حالیہ پیٹرول و ڈیزل بحران کا معاملہ غور طلب ہے کہ جونہی حکومت نے پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا تو اگلے ہی لمحے مارکیٹ میں پیٹرول نایاب ہوگیا اور دوسری طرف حکومت کی نااہلی ثابت کرنے والے بھی ایکٹیو ہوگئے اس سے قبل آٹا و چینی بحران پر بھی یہی روش اپنائی گئی تھی، چینی آٹے کی طرح عوام پیٹرول کو اس کے نرخ سے تین گنا زیادہ قیمت پر خریدنے پہ مجبور ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ درحقیقت دو قوتوں کی جنگ ہے ایک جو فرسودہ رائج نظام بدلنے کے خواہاں ہے دوسری وہ قوت جو چاہتی ہے کہ سب کچھ یوں ہی چلتا رہے، دو عملی قانون ہے امیر کے لیے کچھ اور غریب کے لیے کچھ۔

ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس کا ساتھ دیا جائے؟ اونچا اونچا ہانکنے والوں سے پوچھتا ہوں کہ اس وقت ہم آواز و ایک مٹھی ہوکر منافع خور بلیک میل کرنے والی مافیا کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہئے یا حکومت کو نااہل ثابت کرنے پہ توانائی سرف کرنی چاہئے جس کا بالراست و براہ راست فائدہ منفی قوتوں کو ہی پہنچتا ہے، ذخیرہ اندوزی، منافع خوری، ٹیکس چوری ہمارے ہاں معمول کی بات ہے آخر ان مسائل سے بچنے کا کیا حل ہے، کیا وہ طبقہ جو اونچی آواز میں بول کر حکومت کی نااہلی ثابت کرتے ہیں کیا ان کے پاس اس کے خاتمے کا کوئی فارمولا ہے؟ اگر ہے تو کیا ایک بار بھی انہوں نے اسے پیش کیا، شاید کبھی نہیں اور اگر صرف مخالفت برائے مخالفت ہی ان کا مقصد ہے تو کیا یہ تباہ کن نہیں؟

آخر تعمیری سوچ ہمارے معاشرے میں کیونکر سرایت کرسکتی ہے جب تک کہ ریاست کا ستون کہلوانے والا میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا خدائی دعوے سے خود دستبردار نہ ہوجائے۔ اگر ہم پیٹرول بحران پر غور کریں تو یہ بات انتہائی تکلیف دہ ہے کہ پورے ملک میں ایک ہی وقت پر پیٹرول پمپوں سے پیٹرول ملنا بند ہوگیا اور تقریباً 150 روپے لٹر ہر جگہ دستیاب ہونا شروع جس سے بہت سوالات پیدا ہوجاتے ہیں اور اس پہ مستزاد یہ کہ اس کے سہارے حکومت پہ تنقید کا پہاڑ کھڑا کردیا گیا اور کوئی شک نہیں کہ آٹے چینی کے مصنوعی بحران کے بعد پیٹرول کے بحران نے حکومتی کارکردگی و وجود پر اس لیے بھی سوال کھڑا کردیا ہے کہ تینوں بار کوئی سخت ایکشن لینے میں ناکام رہی جس کا فائدہ اٹھا کر اور حکومتی کمزوری کو بھانپ کر کالی بھیڑوں نے اس قسم کے ہتھکنڈوں کو بطور ہتھیار استعمال کرنا شروع کردیا ہے اگر وزیراعظم عمران خان اس قسم کے گھناونے کھیل میں ملوث افراد کو نشان عبرت بنانا شروع کردیں تو کالی بھیڑوں میں ایک دہشت کا ماحول قائم ہوجائیگا اور وہ گھبراہٹ دینے کی بجائے خود گھبرا جائینگے۔

رہی بات چند میڈیائی دانشوروں کی تو ان سے بھلا خیر کی کیا توقع رکھ سکتے ہیں جن کا ہر قدم تباہ کن ہے نہ کہ تعمیری۔ حقیقتاً و واقعتاً اس وقت سرزمین پاکستان میں دو قوتوں کی جنگ ہے ایک وہ جو اسٹیٹس کو و چور نظام کی بقا چاہتا ہے اور دوسری قوت وہ ہے جو اس فرسودہ نظام کا خاتمہ چاہتی ہے اگرچہ عوام کی اکثریت دوسری قوت کے ساتھ ہے لیکن دوسری قوت کو اسٹیٹس کو نے اس قدر مرعوب و مغلوب کردیا ہے کہ وہ جن کا نعرہ تھا گھبرانا نہیں ہے اب خود گھبرا گئے ہیں اور حضرت علیؓ کا قول ہے کہ انسان گھبراہٹ میں اپنی ذاتی خصوصیات بھی کھودیتا ہے اور ایسا ہی نظر آرہا ہے اور اگر مزید یونہی ہاتھ پیر ڈھیلے ڈالے بیٹھے رہے تو شاید وہ امید کی کرن ہمیشہ کے لیے ماند پڑجائے جسے قوم نجات کا باعث سمجھ رہی تھی۔

عوام تو آج بھی سچ کا ساتھ دینے کے لیے بےچین ہے لیکن کسی جانب سے معاشرے کی کالی بھیڑوں کے خلاف کوئی ایکشن ہی نہیں لیا جاتا جو عوام میں حوصلے کا باعث بنے اگر اب بھی یونہی نوٹس یا رپورٹ طلبی یا کمیٹی قائم کردی جیسے گھسے پٹے طریقوں کو اپنایا جاتا رہا تو کوئی بعید نہیں کہ جلد ہی اس میدان جنگ میں منفی قوت غالب آجائے اور ایک بار پھر اسٹیٹس کو کا دور دورہ ہو جو عنقریب انارکیت کی شکل میں عوامی آتش فشاں سے نکلنے والے لاوے کا ہی شکار ہوگا۔

جواب چھوڑ دیں