بھائی حفظ القرآن کا طالب علم ہے۔ کرونا لوک ڈاون کے باعث تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے۔ اب اسکے حفظ کی فکر کہ کیا کیا جائے۔ حفظ القرآن کے دوران وقفہ بہت نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لیے سکول کے ہی ایک قاری صاحب سے گزارش کی کہ جناب مہربانی کر کے بچے کو کچھ وقت دے دیں۔ محترم استاد صاحب نے فیس مانگی۔ جو کہ ان کو دوسرے ہی روز دے دی گئی یہ سوچتے ہوئے کہ استاد محترم کا تو حق ہی ادا نہیں کیا جا سکتا۔
لہذا ہمارے کسی بھی رویے سے انہیں تکلیف نہ ہو۔ خیر دو دن گزرے کہ قاری صاحب نے دو چھٹیاں لگاتار کر لیں۔ لیکن کچھ نہ بتایا کہ کس وجہ سے وہ پڑھانے نہیں آ سکے۔ اور دو دن مشکل سے مزید پڑھایا ہوگا کہ وہ نو دن کے لیے عید منانے مانسہرہ تشریف لے گئے اور پھر وہی چھٹیوں کا سلسلہ۔ نہ فون نہ کسی قسم کی اطلاع۔ یوں قاری صاحب نے پورے ماہ میں دس دن ہی مشکل سے پڑھایا ہو گا۔سوچا تو یہ تھا کہ قاری صاحب بچے کے حفظ القرآن کے سلسلے کو متواتر سے جاری رکھنے میں معاون ثابت ہونگے لیکن کہتے ہیں کہ انسان سوچتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ اور ہے۔
یہ خیانت اور اپنی ذمہ داری کو پورا نہ کرنے کی ایک چھوٹی سی مثال۔ لیکن خیانت تو ہماری قوم کا مزاج بن گئی ہے۔ والدین اور اساتذہ اپنے بچوں کو خاص طور پر کمرہ امتحان میں جانے سے پہلے تلقین کرتے ہیں کہ “اگر امتحان میں کوئی چیز بھول جائے تو کسی سے ضرور پوچھ لینا”۔ یوں طلبہ نقل کو قومی فریضہ سمجھتے ہیں۔ کوئی ان اساتذہ کو سمجھائے کہ استاد ملت کا محافظ ہوتا ہے۔معلم انسانیت حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کا کردار ان کے لئے مشعل کی مانند ہے ۔استاد کا کردار مولانا جلال الدین رومی ، شیخ سعدی اور اقبال جیسا ہوتا ہے۔ اور استاد اپنا رویہ بدلے بغیر کبھی بھی قوم کے رویے نہیں بدل سکتا۔
افلاطون ایک دن اپنے شاگردوں کو پڑھا رہا تھا۔ اور اس نے ان سے کہا کہ آج میں آپ کو “نیکی” پڑھاؤں گا۔ تو افلاطون کے شاگرد ارسطو نے سوال کیا کہ “کیا نیکی پڑھائی جاتی ہے؟” سوال بلکل ٹھیک تھا کیونکہ نیکی تو کر کے دکھائی جاتی ہے۔ وہ تو عمل کے لیے ہے۔ نہ کہ تبلیغ یا سمجھانے کے لیے۔ قوموں کے عروج وزوال کے ذمہ دار اس قوم کے اساتذہ ہوتے ہیں۔ اس لیے اساتذہ کو یہ خائن اور غیر ذمہ دارانہ روش ترک کر کے ایمانداری اور سچائی کو اپنانا چاہیے۔ اور آخر میں اس قوم کے ان تمام اساتذہ کو سلام جن کی ایمانداری اور خلوص سے بہت سے لوگ فیض یاب ہوئے۔
شیخ مکتب ہے اک عمارت گر جس کی صنعت ہے روح انسانی