پاکستان کو بیرون ملک سے اربوں کا زرمبادلہ کما کر بھیجنے والے پاکستانی کررونا وائرس کی تباہ کاریوں کی وجہ سے غیر ممالک میں مشکلات کا شکار ہیں۔ دنیا بھر میں سرمایہ داروں نے کہیں تنخواہوں میں کمی اور کہیں مزدورں کی چھاٹیاں کرکے بے روزگار کر دیا ہے۔ یہ مزدور مختلف ملکوں سے اپنے اپنے گھروں کو آنے کے لیے بے چین ہیں۔ دنیا بھر میں ہوائی سفر پر کرونا وائرس کی وجہ سے پابندیوں کی وجہ سے یہ بے چینی مزید بڑھ گئی ہے۔ اس مشکل کا نوٹس لیتے ہوئے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر اور سینیٹر جناب سراج الحق نے پاکستانی مزدورں کو باعزت طریقے سے پاکستان لانے کے لیے حکومت وقت پر زور دیا ہے۔
حکومت نے کچھ طیارے چارٹر ڈکر کے انتظامات کیے ہیں، مگر اس کی رفتار سست ہے۔ ان میں تیزی لانے کی سخت ضرورت ہے۔ جن مزدورں کو لایا جارہا ہے اُن سے بھی کرونا ٹیسیٹنگ اورکراٹین کرنے کی فی کس چار ہزار روپے چارج کرنے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ حکومت مشکل کی گھڑی میں اربوں روپے کا زر مبادلہ کما کر دینے والوں مزدروں کی جیب پر ڈاکا نہ ڈالے۔ اس پر جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق صاحب نے حکومت کو پیش کش کی ہے کہ ہر ایئر پورٹ پر الخدمت فائونڈیشن فری ٹسٹینگ کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔
اس سے قبل جب کرونا وائرس کے پاکستان میں شروع ہونے پر سراج الحق نے حکومت کو کہا تھا کہ جماعت اسلامی کی الخدمت فائونڈیشن پاکستان میں کے سارے ہسپتال حکومت کے سپرد کرنے کے لیے جماعت اسلامی تیار ہے۔ مگر بے سمت چلنے والی حکومت نے اس پیش کش کو مختلف بہانوں سے مناسب نہیں سمجھا۔الخدمت فائونڈیشن نے ملک بھر کے سرکاری اور سول ہسپتالوں میں کرونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری سامان مہیا کیا۔ جس میں ماسک ، سینی ٹائزر اور سیفٹی کٹس شامل ہیں۔ عام لوگوں میں کثیر تعداد میں سیفٹی ماسک تقسیم کیے تھے۔ بے روزگار ہونے والے مزدورں کی بڑے پیمانے پر مالی مدد بھی کررہی ہے۔ دھیاڑی پر کام کرنے والے مزدورں کے گھروں میں روزانہ کی بنیاد پرکھانا پہنچانے کے کام میں مصروف ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن کے اور دوسرے کئی ڈاکٹروں کو کررونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرتے ہوئے کررونا وائرس میں خود مبتلا ہو کر شہید بھی ہو چکے ہیں۔ اس کی وجہ حکومت کی طرف سے ناکافی انتظامات اور ضروری حفاظتی سامان کی کمی ہے۔
جماعت اسلامی کے ڈاکٹروں کی پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلی ہوئی تنظیم ’’پیما‘‘ اورڈاکڑوں کی دوسری تنظیموں کے درجن بھر ڈاکٹروں نے مشترکہ پریس کانفرنس اور سوال جواب کا سیشن کراچی پریس کلب میں کی۔ اس پریس کانفرنس کا مقصد عوام میں کررونا وائرس کا مقابلہ کرنے کی آگائی مہم ، سوشل میڈیا پر افواہوں کا توڑ، حکومت کی طرف سے جاری ایس او پی پر عمل درآمد اور حکومت کے ناکافی انتظامات کو عوام کے سامنے بیان کیا گیا۔ خاص کر کراچی کے ہسپتا لوں اور ڈاکڑوں ساتھ حکومت کے سلوک کا بھی احاطہ کیا گیا۔ پریس کانفرنس میں کررونا وائرس کے سامان کی سپلائی اور اعداد شمار بتانے والے ادارے پر تنقید کی، کہا گیا کہ یہ ادرا جو اعداد شمار عوام کے سامنے رکھ رہا ہے، وہ حقیقت پر مبنی نہیں ہوتے۔ اس ادارے کے سربراہ کو ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی، جہاں ملک کے کررونا مریضوں کا اڑتیس فی صد حصہ ہے دورہ کرنے کی درخواست کی گئی تو جواب دیا کہ میں تو خود کروٹین میں ہوں۔
حکومت سندھ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا، کراچی کے ہسپتالوں کو ضرور سامان مہیا نہیں کیا جا رہا۔ ڈاکڑوں کے مسائل حل کرنے میں سندھ حکومت ناکام ہو گئی ہے۔ کررونا وائرس کے متعلق روزانہ کی بنیا پر عوام کو روشناس کرانے والے حکومتی نمائندے ڈاکڑ ظفر کی کارکردگی پر بھی تنقید کی گئی۔ حکومت سے مطالبہ کیا کہ سوشل میڈیا پر عوام کا مورال ڈائون کرنے والی خبروں کو کنٹرول کریں۔ کہا جاتا کہ ڈاکٹر پیسوں کے لیے خود مریضوں کو مار ہے ہیں۔ کررونا وائرس کچھ نہیں دشمنوں کا پرپیگنڈا ہے وغیرہ۔ پریس کانفرنس میں بتایا گیا کہ کراچی کی ہسپتالوں میں کرونا وائرس کے علاوہ ساری بیماریوں کا علاج ڈاکٹر کر رہے ۔ ہسپتالوں میںاو پی ڈیز کھلی ہیں۔
حکومت سے مطالبہ کیا گیاکہ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کے بھی بال بچے ہیں۔ وہ بھی اس وقت مصیبت میں مبتلا ہیں۔ان کی کہیں تنخوائیں کم کی جاتی ہیں۔ کہیں استعمال کے لیے ضروری سامان مہیا نہیں کیا جارہا۔ کررونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرتے کرتے شہید ہونے کی صورت میںاس کے با ل بچوں کے لیے حکومت کو پیکج کا اعلان کرنا چاہیے ،جس میں انشورنس کا بھی انتظام ضروری ہے۔ عوام سے اپیل کی گئی کہ وہ حکومت اور ڈاکڑوں کی طرف بتائے گئے ایس او پی کی پابندی کریں۔ کرونا وائرس کے علاج سے حفاظتی تدبیروں پر عمل کرنے سے اسی فی صد کمی واقع ہو سکتی ہے۔
صاحبو! ہم اپنے گذ شتہ کالموں میں کررونا وائرس کو اللہ سے نافرمانی اور اللہ کے بندوں پر ناروا مظالم کی وجہ سے اللہ کی غضب کو دعوت دی گئی اور اللہ نے یہ عذاب نازل کر دیا۔کیا کشمیر میں انسانوں کو کئی ماہ سے کرفیو اور لاک ڈائون کے عذاب سے نہیں گزارا جا رہا ۔ مظلوم کشمیری اپنے مردوں تک کوا اپنے گھروں کے صحن میں دفنانے پر مجبور کر دیے گئے۔ آ ج کی ہی خبر ہے کہ بھارت کے سفاک فوجیوں اور آر ایس ایس کے غنڈوں نے لاک ڈائون میں بند چودہ نہتے کشمیری نوجوانوں کو بے دردی سے شہید کردیا۔جس دن سے دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کا بنیادی رکن ،نریدر داس مودی بھارت کاوزیر اعظم بنا ہے، مسلمانوں کو سولی پر چھڑایا ہوا ہے۔ کبھی گائے جسے بھارت کی سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج نے دوسرے جانورں جیسا ایک جانور کہاہے ۔ اس کو گائو ماتا کہتے ہوئے انسانیت کے خلاف مہم جوئی بے انصافی ہے۔ مسلمانوں کو بھیڑ میں لاٹھیاں،مکے اور لاتیں مارمار کے شہید کر دیا جاتا ہے۔جیے شری رام اور دوسرے شرکیہ نعروں پر مجبور کرکے شہید کر دینا کہاں کا انصاف ہے۔
جس ملک چین میں کرونا وائرس نے جنم لیا وہاں کے مظلوم مسلمانوں کو تشدد کا نشان بنا یا گیا۔ مذہب بیزار کمیونسٹ چین کا صدر کرونا وائرس کی تباہ کاریوں سے مجبور ہر مسجد میں جا کر مسلمانوں کی دعائوں میں شریک ہوتا ہے، کہ اللہ کرونا وائرس سے چین کو نجات دے۔بڑے بڑے فرعون بھی بے بس ہو گئے۔ ان کے پاس اس مرض کی ویکسین تک نہیں ۔نہ وہ ابھی تک بنا سکے ہیں۔ نہ جانے یہ کرونا کا عذاب کب تک رہتا ہے۔ اس لیے حکومت کوچاہیے کہ کیس ٹو کیس دیکھ ملک کا نظام چلائے۔مرکز کچھ کہتا ہے اور صوبے کچھ کہتے ہیں۔ اگر بازار اور شاپنگ پلازے کھل سکتے ہیں تو اسکول کالج کیوں نہیں کھل سکتے ؟ ہمارے ملک کی آبادی کا ستر فی صد حصہ دھاتوں میں رہتا ہے ۔ اللہ کا شکر ہے دھا تی آبادی کرونا وائرس کے مرض سے بچی ہوئی ہے۔
لہٰذا ایس او پی پر عمل کراتے ہوئے حکومت دھاتوں میں کاروبار کھول دینا چاہیے۔ تاکہ معیشت کا پہیا چلنا شروع ہو۔پتہ نہیں یہ کرونا وائرس کایہ مرض کب ختم ہو گا۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ چلنا ہے۔اس لیے معیشت کاپہیہ جاری رہنا چاہیے۔ ورنہ کرونا وائرس از خود نوٹس میں سپریم کورٹ کے ریماکس کے مطابق اگر کاروبار نہیں کھلا تو لوگ بھوک سے مر جائیں گے۔ سراج الحق کے مطالبے کہ مطابق بیرون ملک پھنسے پاکستانیوں کو جد از جلد ملک لانے کی کوششوں کو تیز تر کرناچاہیے ۔اللہ کررونا وائرس کے عذاب سے پاکستان اور دنیا کو جلد بچائے آمین۔